اصلاح معاشرہ کی عظیم درسگاہ

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسجد اسلام کی عظیم درسگاہ ہے، جو سماجی اصلاح اور شہری فلاح کے مقصد سے قائم کردہ تنظیموں، کمیٹیوں اور سوسائیٹیوں سے ہزارہا درجہ برتر وبہتر ہیں، ہماری اپنی قائم کردہ تنظیموں کے بارے میں ہمارا تأثر ہوتا ہے کہ سماجی اصلاح کے لئے یہی ادارہ سب سے بہتر ہے، اور وہی بہتر خدمات پیش کر رہی ہے، مگر واقعہ یہ ہے کہ سماج کی اصلاح اور انہیں ہر طرح کی خرابیوں سے پاک کر کے سیدھے ڈگر پر لانے والی اگر کوئی بہتر سے بہتر درسگاہ ہو سکتی ہے تو وہ مسجد ہے۔
مسجدیں مسلمانوں کے حالات کو بدلنے میں اہم رول ادا کرتی ہیں، مسجدیں مسلمانوں کو شقاوت وبدبختی سے نکال کر سعادت وخوش بختی کی دہلیز پر پہنچا دیتی ہیں، تنگی واضطراب اور بے چینی سے نکال کر خوشحالی اور چین وسکون کی فضا میں پہنچا دیتی ہیں، مساجد کی حاضری سے مسلمانوں کے دل نرم اور صاف وشفاف ہو جاتے ہیں، ان کے دلوں پر اگر گناہوں اور معصیتوں کا زنگ چڑھا ہوتا ہے تو اسے صاف کر کے اسے مانجھ دیتے ہیں، یہاں اللہ کی رحمتیں برستی اور یہاں موجود فرشتے ان پر اپنے پروں سے سایہ کرتے ہیں، مسجدیں مسلمانوں کی تربیت کی بہترین جگہ ہے، یہاں مسلمانوں کو اخوت وبھائی چارگی اور مساوات وبرابری کا درس دیا جاتا ہے، سارے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے، ایک صف میں کھڑے ہوتے اور ایک امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں، یہاں مالک وخادم، مالدار ونادار، غنی وفقیر، عالم وجاہل، پیرومرشد اور مرید وعام انسان ، حاکم ومحکوم اور شاہ وگدا کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا؛ بلکہ سب کے سب اللہ کے سامنے اسی طرح برابر ہوتے ہیں، جس طرح قبرستان میں سب برابر ہوتے ہیں، ان میں کسی کو کسی کے اوپر کوئی برتری نہیں ہوتی، ہاں اسلام میں برتری کی وجہ صرف اور صرف تقویٰ وپرہیزگاری ہے، جس کا تعلق قلب سے ہے، اور اس کا اظہار اعضاء وجوارح سے عبادات ومعاملات میں ہوتا ہے، یہ مسجدیں ہمیں سبق دیتی ہیں کہ ہم اپنے سماج اور اپنے ملک وشہر میں برابری کے ساتھ رہیں، ایک دوسرے سے متحد اور جڑے رہیں،کوئی ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرے اور نہ ہی حسب ونسب، جاہ ومنصب اور عہدہ وعمل کی بنیاد پربرتری جتائے۔

ہم اگر معاشرہ کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے مساجد کے رول کو واپس لانا ہوگا، یہ مسجدیں معاشرہ کے افراد کی روحانی تربیت کرتی ہیں، بندوں کو اللہ سے جوڑتی اور انہیں اللہ کے رنگ میں رنگتی ہیں '' ومن أحسن من اللہ صبغۃ'' اور اللہ کے رنگ میں رنگنے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے.... ؟

طبقاتی کش مکش اور لسانی تعصبات دنیا کی کسی بھی قوم کے لئے مفید ثابت نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ انتشار و افتراق کا باعث بن کر بالآخر بتاہی اور ہلاکت پر منتج ہوئے ہیں۔ اسی لئے اسلام نے اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ قرآن کریم میں ہے:
" مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔" (سورۃ الحجرات)
اور حدیث میں ہے:
«لا فضل لعربی علٰی أعجمي ولا لأ عجمي علی عربي ولا لأبیض علی أسود ولا لأبیض علی أحمر إلا بالتقوٰی أو کما قال علیہ الصلٰوۃ والسلام»
یعنی علاقے، رنگ یا زبان کی وجہ سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں بلکہ تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو۔
بلاشبہ یہ وہ سبق ہے جو اتحاد، مساوات، اخوت، ہمدردی اور تعاون کے جذبات کا مرکزی نقطہ ہے۔ جس کو اپنا کر ہم دنیا میں سر بلند اور باعزت ہوئے اور جس کو خیر باد کہہ کر آج ہم ایک دوسرے کی گردن کاٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور نتیجتاً ہمیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ اقوامِ غیر ہمیں ترنوالہ سمجھ کر ہڑپ کرنے پر تلی بیٹھی ہیں اور ہمارے مطلعِ حیات پر تباہی و بربادی کے بادل چھا رہے ہیں۔ اسلام نے مساجد میں نماز باجماعت کے ذریعے اس سبق کو عملی رنگ میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ ؎
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا، نہ کوئی بندہ نواز!

تمام مسلمان امیر ہوں یا غریب، سفید فام ہوں یا سیاہ فام، حاکم ہوں یا محکوم، تاجر ہوں یا مزدور، دراز قد صحیح الجسم ہوں یا پستہ قد اپاہج اور معذور، بینا ہوں یا نابینا، کم سن ہوں یا عمر رسیدہ، پنجابی ہوں یا سندھی، بلوچی اور پٹھان، اذان سننے کے بعد سبھی مسجد میں آجاتے ہیں اور وضو کر کے ایک دوسرے کے شانہ سے شانہ ملاتے ہیں ایک ہی امام کی اقتداء میں رب العزت کی بارگاہ میں مؤدب کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان سب کا مقصد ایک اور ان کے خیالات میں یک جہتی اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو اخوت کا سنگ بنیاد ہے۔ ہر روز دن میں پانچ مرتبہ انہیں یہی عمل دُہرانا پڑتا ہے اور رشتہ اخوت و اتحاد مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ نماز با جماعت کے بغیر اس کا تصور بھی ممکن نہیں اور بلاشبہ اس نعمت سے وہی معاشرہ یا قوم سرفراز ہو سکتی ہے جس کا مساجد کے ساتھ نہ ٹوٹنے والا تعلق موجود ہو۔
سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی مسجد کو ایک نمایاں اور منفرد حیثیت حاصل ہے۔ قرونِ اولیٰ میں مسلمان مساجد میں صرف نماز ہی کے لئے اکٹھے نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے تمام اجتماعی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کے لئے صلاح و مشورے اور فیصلے وغیرہ بھی مساجد ہی میں ہتے تھے۔ ہر نماز کے بعد مجلس شوریٰ منعقد ہوتی جس میں مختلف مسائل زیر بحث آتے اور ان کے فوری تدارک کے لئے تجاویز اور پروگرام مرتب کیے جاتے تھے۔ (گویا کہ یہ اس دور کی اسمبلی بھی تھی) اسی طرح باہر سے جو وفود اور سفراء وغیرہ آتے ان سے ملاقات و مذاکرات بھی مسجد ہی میں ہوتے اور اگر کہیں لشکر کشی کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے بھی تجاویز مسجد ہی میں پاس کی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ مسجد نبوی میں تو لوگ فنونِ حرب کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ححضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
''مسجد نبوی میں حبش کے لوگ گتکا کھیلتے اور میں حضور ﷺ کی اوٹ میں بیٹھ کر انہیں دیکھا کرتی تھی۔'' (بخاری بمعناہ)

دورِ نبوی اور اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے زمانہ میں مسجد کو عدالت کی حیثیت حاصل رہی۔ مقدمات کے یہی فیصلے ہوتے اور مجرموں کی سزائیں وغیرہ بھی یہیں تجویز ہوتی تھیں۔ حد البتہ مسجد سے باہر لگائی جاتی تھی۔

لہذا مساجد میں اجتماعی عبادات(جمعہ اور تراویح وغیرہ) کی پابندی نہیں لگانی چاہیے اور مسلمانوں کو اس مشکل گھڑی میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک کر اپنے گناہوں سے توبہ تائب ہونا چاہیے، یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ موجودہ زمانے میں بھی کچھ عرصہ قبل تک مسجد کو مکتب کی حیثیت حاصل رہی لیکن بالآخر لوگوں نے اس دینی مشغلہ کو کاروبار بنا لیا۔ چند نفس پرستوں اور ہوس کے بندوں نے مخلص لوگوں کو بھی بدنام کر کے رکھ دیا۔ اور نتیجۃً آج لوگ مساجد میں قائم مدارس کے نام سے بھی دور بھاگنے لگے ہیں۔ لیکن اس میں مسجد کا کوئی تصور نہیں بلکہ یہ ہماری اپنی ذہنیتوں کا قصور ہے اور اس سے مساجد کی علیمی اہمیت و حیثیت پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ خلوص نیتی سے اگر کام کیا جائے تو آج بھی قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہو سکتی ہے اور ان علمی سر چشموں سے اپنی پیاس بجھا کر اپنی عظمتِ رفتہ کو بحال کیا جا سکتا ہے۔

 

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 43 Articles with 28034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.