کتنے پیارے دن تھے جب ہم یار بیلی برگد کے پیڑ کے نیچے
مولوی ناصر کے دھابے پر ہر اتوار کو محفل لگاتے بحث ومباحثہ کے ساتھ ساتھ
طنز ومزاح کا تڑکا لگاتے جس کے سبب پورے ہفتے کی بوریت دور ہو جاتی۔ ایک
دوسرے سے محبت اور پیار کی جھولیاں بھر بھر کے لے جاتے ناجانے کس کی نظر
لگی آہستہ آہستہ ہماری فطرت میں تبدیلی آتی گئی پیار محبت خود غرضی میں
تبدیل ہو گئی طنز و مزاح جگت بازی میں تبدیل ہوتی گئی عاجزی کی جگہ غرور نے
لے لی سب سے بڑا کام سائنس کی ترقی نے کیا ہر ترقی تکبر کا باعث بنتی گئی۔
بنی نوع انسان نے جب چاند پر قدم رکھ کر مریخ کی سمت دیکھا تو ہمارا تکبر
خودی کے دعویٰ کراس کرکے خدا تک جانے لگازمین پر بسنے والی دوسری مخلوق
بلکہ اپنی طرح کے دوسرے انسانوں کو حقوق دینے کی بجائے اُن پر اپنے حق میں
حد سے گزر گیااپناا قتداربر قرار رکھنے کے لئے ایٹمی ہتھیار تک بنا لئے اس
تکبر میں عقل کے پرندے کو آزادی ملی تو ہراصولِ فطرت میں دلیل وسائنس تلاش
کرنے لگا اگر بات یہیں رک جاتی پھر بھی خیر تھی مگر انسان کے خیر کے دشمن
تو ازل سے موجود ہیں پھر بھلا اِن حالات میں ایسی طاقتیں کیوں کامیاب نہ
ہوتیں تخلیقِ انسانیت میں تخلیق کا مادہ موجود تھا جس کے سبب اُسے اشرف
المخلوقات کا درجہ ملا تھا یہ ہی مادہ شعور میں فتور کا سبب بنا۔
لذتِ حوس نے سر اُٹھایا تو رشتوں کا تقدس جاتا رہا کون ماں کون بہن۔ بس چلا
تو عمر کاخیال بھی نہ رہاننے پھولوں سے خوشبوچوسی اور زندگی سے محروم کر
دیا۔اقتدار کا نشہ طاری ہوا تو پوری قوم کو ہی محکوم کرکے جیل میں ڈال
دیا۔کرفیو لگا دیا ایک دن ایک ماہ تو کیا چھ چھ ماہ فرعونیت طاری رہی یہ سب
کچھ دیکھ کر سن کر انسانیت خاموش رہی کہیں محمد بن قاسم پیدا نہ ہوا
حکم خدا کو اگر روح کا نام دیا جائے تو اُس کو ایک مادے کی ضرورت تھی جیسے
لفظ العام میں جسم کہتے ہیں دیکھا جائے تو روح و جسم عقل کے پاس تخلیق کار
کی امانت ہیں اگر ہم خود سری میں اُن اجسام پر حق کا دعویٰ کر دیں تو اصل
مالک کاکیا حال ہو گا۔ہماری بے رہ روی نے کیا مالک کے غصے کو ہوا نہیں دی
ہو گی۔گزشتہ دنوں یہ ہی تکرار تھی۔۔میرا جسم میری مرضی
کیا یہ دعویٰ درست ہے مگر ہمارے قویٰ تو کچھ اور ہی کہتے ہیں کیا ہم اپنی
حق ملکیت کو استعمال کرتے ہوئے دونوں پاؤں یک لخت اُٹھا سکتے ہیں۔ہمارا عمل
بھی تو ہمارے دعویٰ کے خلاف ہے اپنے چہرے کو اِس انداز سے سجاتے ہیں شاید
ہم تخلق کار سے بڑے مصور ہیں۔ اب کیا اصل مالک کو حق نہیں کہ وہ اپنی ملکیت
ہم پر ثابت کرے کن فیاکن سے کیا بعید نہیں یک حقیر سے ذرے کو اشارہ کر دے
ثابت کر۔ کیااُس ذرے کی جرات ہے جو خود نہ زندہ ہے نہ مردہ حکم عدولی کرے۔
جس کا وجود اِس کائنات میں عام انسان کے لئے ہے ہی نہیں ہمیں سبق دے رہا ہے
ہماری اوقات کیا ہے۔منافقت سے ملنے والوں کواُس نے ایک دوسرے سے دور کر دیا
اب ذرا غور کریں میرا جسم میری مرضی کی مرضی اپنے جسم کو گھروں میں اِس
حقیر سے ذرے جس کو اُس نے دیکھا تک نہیں صرف سنا ہے۔بچانے کے لئے کس طرح
گھروں میں دبے بیٹھے ہیں بس یہ ہی ہماری اوقات ہے مالک کل کی نظرِ عنایت
پھری ہم خاک سے بھی کم رہ گئے آج یہ عالم ہے جس نے کبھی بھولے سے بھی اللہ
کا نام نہ لیا راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اذانے دے رہا ہے کیا اُس سمے ہوش نہ
تھی جب یہ ہی اذاں حیٰ علی الصلوح کی صدا بلند کرتی تھی۔
آج میں گھر میں بنداپنے بیتے ہوئے کل کو یاد کر رہا ہوں کبھی وہ اتوار بھی
ہوتا تھا جب ناصر کے دھابے پر محفل جمتی تھی اب سونی گلیوں میں صدا بلند
ہورہی ہے کہاں ہیں وہ جو اپنے آپ کو مشکل کشا کہتے تھے کہاں چھپ گئے سادھو
سنت اور فقیر جو علمیات کادعویٰ کرتے تھے ڈاکٹرسائنسدان اور فلسفی اپنی
اپنی منطق لے آئیں کون ہے میرے علاوہ جو اِس وباء سے جان جھڑا سکے یقیناً
وہ واحد کل ہے جس کاکوئی مقابل نہیں۔گلی گلی اُس کی رحمت کی طرف دیکھا جا
رہا ہے۔اللہ اکبر۔۔۔۔ اللہ ہو اکبر۔۔۔۔تو ہی رحیم ہے۔
میں اپنے کرتوں کو یاد کر کے روتا ہوں کاش میں بے راہ روی کی طرف گامزن نہ
ہوتا تو آج بھی وہ ہی دن ہوتے کیا وہ دن لوٹ کر آسکتے ہیں جب اِس کائنات کے
کرداروں کو دیکھتا ہوں تو ممکن نظر نہیں آتا مگر جب سبب ِتخلیق کائنات رحمت
دو عالم کے وجودکے سائے کو دیکھتا ہوں تو معافی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں
عاشقِ رسول کا وعدہ ہے اُس کی امت پر رحم کرنے کا۔پھر میں مایوس کیوں ہوں
صرف روح و جان کو اللہ کی ذات کی طرف ہی تو پھیرنا ہے کیا یہ مشکل کام ہے۔
جب بھی لاشعور میں توبہ کا گمان آتا ہے سوچتا ہوں مجھ میں صفات امت تو
موجود ہی نہیں مگر توبہ کی رہ کھلی نظر آتی ہے ایک لرزہ سا طاری ہے روح پر
اِس جسم کی اوقات ہی کیا مجھے تو توبہ کے لفظ سے زمیں سے آسمان تک لرزتے
محسوس ہوتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو وہ مالک کل اِس لرزش کو روک کر اپنے دروازے
بند کر دے مجھے اپنی جبیں کواُس کے حضور زمین بوس کر دینی چاہئے۔۔!۔آئیے
اگر آپ بھی اپنی گم شدہ جنت چاہتے ہو تو میری جبیں کے ساتھ جبیں ملائیے اِس
وقت اپنے رب سے گماں بھی اچھا ہے اور اُس کی طلب بھی عروج پر ہے مجھے مان
ہے وہ ہم سے پیار کرتا ہے اِس مان کو اپنا ہتھیار بنا کر ہم اُس کے محبوب
کا واسطہ دے کر توبہ کرتے ہیں باقی کا کام وہ خود سنبھال لے گا۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین یارب عالمین
عبدالرحمٰن ہاشمی
|