آج پھر میری بیگم نے تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیئے۔۔۔میرے نہیں بلکہ
برابر والے امتیاز صاحب کے ، جو اپنی بیگم کے لئے دن رات ان کی پسند کے
کھانے بناتے اور اکثر انہیں گھمانے پھرانے کی غرض سے سمندر کی طرف لے
جاتے۔۔۔عجیب خاتون ہیں یہ مسز امتیاز بھی۔۔۔خود تو جب چاہیں ہمارے گھر
آجاتی ہیں لیکن جب بیگم ان کے گھر جانا چاہیں تو فورا یہ نخرے دکھاتی
ہیں۔۔۔آج تو امتیاز صاحب کا پلان بن گیا بار بی کیو کھانے کا۔۔۔اب دیر رات
ہی ہم واپس آئیں گے۔۔۔اپنے دونوں بچوں کو بٹھایا بائیک پر اور یہ جا وہ جا۔۔۔
مجھے وہ ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔۔۔حالانکہ انہوں نے ہمیشہ مجھے مسکرا کر
سلام کیا لیکن نا جانے کیوں گھلنے ملنے سے گریز کرتے۔۔۔ایسا لگتا ہے کوئی
دو نمبر کام کرتا ہے جبھی تو گھبراتا ہے۔۔۔میں انہیں سوچوں میں رہتا۔۔۔ان
کے دونوں بچے اکثر میرے بیٹے کے ساتھ کھیلنے آتے اور کوئی نا کوئی نئی چیز
سکھا کر چلے جاتے۔۔۔مثلا آج میرے بیٹے نے مجھے دسترخوان پر کھانا کھانے کے
آداب سکھائے تو میں حیران ہی ہوگیا۔۔۔پانچ سال کا بچہ جس کا نا کوئی بھائی
نا بہن۔۔۔تو اتنا بہترین کیسے سیکھ گیا۔۔۔پتہ چلا کہ امتیاز صاحب کے بچوں
نے سکھایا ہے۔۔۔یہ بات مجھے بہت اچھی لگی۔۔۔
مجھے اس لاک ڈاؤن میں آفس کے لوگوں کے ساتھ مل کر راشن کے لئے ذخیرہ جمع
کرنے کی ذمہ داری ملی تو اس نیک کام میں جت گیا۔۔۔سوچا کہ یہی وقت ہے کہ ان
لوگوں کی مدد کروں جنہیں سخت ضرورت ہے اس وقت غذا اور ضروریات زندگی
کی۔۔۔کچھ دوستوں سے بات کی اور حیران رہ گیا کہ وہ لوگ بھی مدد کرنے کو
تیار تھے جن کی آمدنی بہت تھوڑی تھی۔۔۔۔میں نے سوچا کہ امتیاز صاحب روز
بیگم کو لے کر باربی کیو کھلانے جاتے تھے۔۔۔اتنا بھرم ہے۔۔۔ان سے بھی کہہ
کر دیکھتا ہوں۔۔۔یہی سوچ لے کر آج بیگم سے اس بات کا تذکرہ کیا تو کہنے
لگیں کہ دو دن سے تو مسز امتیاز آئیں ہی نہیں۔۔۔شاید آئسولیشن میں ہیں اور
ملنا جلنا نہیں چاہتیں۔۔۔میں نے بڑا طنزیہ انداز میں کہا۔۔ارے یہ بڑے میسنے
لوگ ہوتے ہیں۔۔۔بڑا جمع کرکے رکھتے ہیں اور پھر اس وقت میں چھپے پھرتے ہیں
کہ کہیں کوئی مانگ ہی نا لے۔۔۔
|