اس جگہ دونوں طرف تین لین سڑکیں اور درمیان میں گرین بیلٹ
ہے۔ اس کے باوجود ٹریفک بہت آہستہ چل رہی تھی کیونکہ وہاں ایک سکول تھااور
یہ صبح سکول کے لگنے کا وقت تھا۔ دو لین گاڑیوں سے بھری ہوئی تھیں ان پر
بچوں کو اتارنے والوں کی گاڑیوں کا مکمل قبضہ تھا اور تیسری لین میں ٹریفک
بمشکل رواں تھی اس لئے کہ بچہ اتارنے کے بعد ہر گاڑی تیسری لین میں گھس رہی
تھی۔ بہت سے لوگ گاڑی سڑک کے دوسری طرف کھڑی کرکے بچوں کا ہاتھ پکڑے پیدل
سڑک پار کرنے کے بعد سکول کے گیٹ پر چھوڑ رہے تھے۔ میرے فورٍاً آگے موٹر
سائیکل پر ایک صاحب بمعہ اپنی بیگم جا رہے تھے۔ عین سکول کے سامنے گرین
بیلٹ پر ایک صاحب تین بچوں کے ساتھ سڑک عبور کرنے کے منتظر تھے۔تینوں بچے
کچھ جلدی میں تھے اور بے قراری سے سڑک عبور کرنے کے خواہش مند۔ والد کی
آواز آ رہی تھی کہ آرام سے ابھی ٹھہرو۔
یکدم ایک بچی اپنے باپ کا ہاتھ چھڑا کر بھاگی۔ راستہ تو تھا نہیں، وہ سیدھی
موٹر سائیکل سوار سے جا ٹکرائی۔ موٹر سائیکل سوار اس حادثے کے لئے ذہنی طور
پر بالکل تیار نہیں تھا بلکہ سبک خرام ٹریفک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی
بیگم سے گپ شپ میں مصروف موٹر سائیکل بہت آہستہ چلا رہا تھا۔بچی اتنے زور
سے ٹکرائی کہ وہ اور اس کی بیگم دھڑم سے زمیں پر موجود تھے۔ میں نے دیکھا
موٹر سائیکل سوار بزرگ آدمی تھا، ساٹھ کے لگ بھگ عمر ہو گی۔اس کی بیوی بھی
اتنی ہی عمر کی ہو گی۔ اس بری طرح ایک بزرگ آدمی کو گرتے دیکھ کر میں نے
گاڑی بند کی اور تیزی سے باہر نکلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ شخص جس کی بچی اس
کا ہاتھ چھڑا کر بھاگی اور موٹر سائیکل سے ٹکرائی تھی ۔ بہت تیزی سے اس
بزرگ کے پاس پہنچا ، اس کا گریبان پکڑ کر اسے زمین سے اٹھایا اور اس پر
گھونسوں کی بھر مار کر دی۔ زمین پر گری ہوئی اس بزرگ کی بیگم نے بھی شور
مچانا شروع کر دیا کہ اس کے میاں کو کیوں مارا جا رہا ہے اس کا کیا قصور ہے۔
قصور تو اس بچی اور اس کے باپ کا ہے کہ بچی کو سنبھال نہیں سکا اور بچی
ہاتھ چھڑا کر بھاگ اٹھی۔ بچوں کو چھوڑ کر جانے والے ایک دو حضرات نے بھی
کچھ حیا محسوس نہیں کیا اور نعرہ لگا کر کہ اندھوں کی طرح موٹر سائیکل
چلاتے ہو ایک دو تھپڑ اس بزرگ کو لگا دیئے۔
میں بڑی پھرتی سے آگے بڑھا اور گھونسے مارنے والے نوجوان کا ہاتھ پکڑ لیا۔
بہت سے لوگ اکھٹے ہو گئے تھے۔اور بغیر سوچے سمجھے نوجوان کی حمایت کر رہے
اور اس بزرگ آدمی جس کا کوئی قصور نہیں تھا کی مذمت کر رہے تھے۔ میں نے
نوجوان کو کہاکہ کچھ شرم کرو ، یہ تمہارے باپ کی عمر کا آدمی ہے ۔ اس کا تو
کوئی قصور نہیں، قصور تو تمہارا اور تمہاری بیٹی کا ہے۔ تم اس کا ہاتھ پوری
طرح پکڑ نہیں سکے اور وہ جھٹکے سے چھڑا کر یکلخت بھاگی ہے۔یہ موٹر سائیکل
کے بالکل پیچھے میری گاڑی ہے اور میں ہر لمحے کا چشم دید گواہ ہوں۔ تمہاری
بیٹی اس زور سے ان کی موٹر سائیکل سے ٹکرائی ہے کہ دونوں بزرگ میاں بیوی
زمین پر گر گئے ہیں انہیں چوٹیں بھی لگی ہیں۔ تم بجائے ان کی مدد کے الٹا
انہیں مارنے لگے ہو۔ اگر خدانخواستہ ان کا قصور بھی ہوتا تو تمہارے ماں باپ
کی عمر کے لوگ ہیں ۔ ان کی بزرگی کا ہی کچھ خیال کیا ہوتا۔ میں خود بھی
بوڑھا آدمی ہوں ۔ نوجوان مجھ سے بھی الجھنے کے موڈ میں تھا۔ مگر میری دو
باتیں سن کر بہت سے نوجوان جو وہاں اکھٹے تھے، اسے گالیاں نکالنے لگے، وہ
اس کو مارنے کے موڈ میں تھے مگر میں نے کہا کہ صرف اسے اتنا کہو کہ بزرگ سے
معافی مانگ لے۔ نوجوان نے ارد گرد دیکھا، لوگوں کے تیور کچھ ٹھیک نہیں تھے۔
حالات کو ناموافق جان کر اس نے معافی مانگی، پھر بھی جاتے جاتے کچھ نوجوان
اسے دو چار ہاتھ جھاڑ کر گئے۔
سوچتا ہوں کس قدر افسوسناک بات ہے،ہر مہذب معاشرے کے لوگ اپنے بزرگ شہریوں
کا احترام کرتے ہیں انہیں عزت دیتے ہیں۔ انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ۔
وہاں یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی بزرگ سے کوئی اس قدر بد تمیزی سے پیش آئے۔لیکن
کیا کیا جائے، ہم گھروں میں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرنے میں ناکام ہیں۔
ایسی گھٹیا حرکت کرنے والے لوگ نہ تو گھروں میں اچھی تربیت پائے ہوتے ہیں
اور نہ ہی سکولوں میں۔ کچھ قصور ان کا ہے اور کچھ ہمارے سسٹم کا۔ ہم بچوں
کو لکھنا پڑھنا تو سکھا دیتے ہیں مگر اخلاقی تعلیم کے قریب سے بھی گزرنے
نہیں دیتے۔ ہم عام طور پر کہتے ہیں کہ تربیت کی کمی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ
تعلیم ، تعلیم نہیں ہوتی جس میں تربیت شامل نہ ہو،جو بچے کو اچھا انسان اور
اچھا شہری بنانے میں ناکام ہو۔ وہ استاد استاد نہیں ہوتا جس میں احساس نہ
ہو، سوچ نہ ہو، جذبہ نہ ہواور جو روپے پیسے کے لالچ سے بے نیاز نہ ہو۔ ہم
نے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ درس گاہوں سے استاد ختم کر دیئے ہیں ۔اب استاد
کے روپ میں کچھ گریڈوں کے حریص ہیں، کچھ لالچی ہیں شہرت کے ،نام ونمود کے۔
بگڑے معاشرے کے بگڑے استاد۔ ہم سسٹم ایسا بنا رہے ہیں کہ استاد معاشیات کا
غلام بن کر رہ گیا ہے۔ ترقی اور اچھی پوسٹنگ استادوں کی کمزوری بنتی جا رہی
ہے، چرب زبان ترقی پا رہے ہیں حکمران فہم و فراست سے نابلد ہیں ان کے اپنے
مفادات ہیں، جو ان کے مفادات کا امین ہے وہی اپنی لئے جگہ بنانے میں کامیاب
ہے۔ استاد اور کاسہ لیسی بڑی متضاد چیزیں تھیں۔مگر کاسہ لیسی کے شوقین
سیاستدانوں نے استاد وں کا استاد پن ہلاک کر دیا ہے ۔ ہم جو طلبا زندگی کے
میدان میں لا رہے ہیں وہ عملی طور پر بے استادے ہیں اور بے استادے لوگوں سے
بزرگوں کی عزت اور احترام کا سوچنا عبث ہے وہ تو اپنے باپوں کا احترام نہیں
کرتے کسے دوسرے کے باپ کا کیا کریں گے۔
ہمارا تعلیمی نظام تباہی کی طرف گامزن ہے۔تعلیم سے متعلقہ بڑے بڑے ’’مشورہ
ادارے‘‘ ایسے لوگوں پر مشتمل ہیں جو کاغذوں کا پیٹ بھرنا تو خوب جانتے ہیں
مگر انہیں زیاں کا احساس ہی نہیں۔ انہیں نہ تو کلاس روم اور نہ ہی اداروں
کے حالات کا علم ہے ۔تعلیم کی بہتری کے لئے ہمیں بہت سے انقلابی اقدامات
کرنے ہوں گے مگر اس کے لئے ایک نئی ٹیم، جس میں کلاس روم ٹیچر قابل عزت
قرار پائے اور موجودہ تمام نام نہاد دانشور فارغ قرار پائیں،کی ضرورت ہے جو
درد دل رکھنے کے ساتھ شہرت اور نمود سے بے نیاز لوگوں پر مشتمل ہو،کی ضرورت
ہے۔ ایسے بندے ملتے نہیں ڈھونڈھنے پڑتے ہیں۔ اﷲ کرے تعلیم کی مکمل تبائی سے
پہلے ہمارے حکمرانوں کو ہوش آ جائے اور وہ تعلیم کی بہتری کے لئے کچھ ٹھوس
اقدامات کر لیں۔ایسے اقدامات جن سے ایسا نظام تعلیم تشکیل پائے جو معاشرے
کو بہترین استاد اور اچھے طالب علم دے سکے۔ |