ماں تو ماں ہے

میں نے مو بائل فون آن کیا تو نیویارک امریکہ سے ہاجراں بی بی کی آہوں سسکیوں ہچکیوں میں ڈوبی آواز سنائی دی جو بلک بلک کر رو رہی تھی میں اُس کے رونے کی آواز سن کر خوف زدہ ہو گیا کہ خیر ہو سہی اور پھر یہی ہوا وہ بولی بھٹی صاحب میرے بھائی جان کا انتقال ہو گیا کرونا بیماری نے یہاں پر گھر گھر میں ماتم کی صف بچھا دی ہے گوروں کے ساتھ ساتھ کالوں اور پاکستانیوں میں بھی یہ بیماری اِس برق رفتاری شدت سے آئی ہے کہ ہر کسی کا کو ئی عزیز رشتہ دار ہمسایہ اِس بیماری کی وادی میں موت کا لباس پہن کر اُتر گیا ہے ایک خوف درد پریشانی اور نفسا نفسی کا عالم ہے ‘ ترقی یافتہ تہذیب کے سارے کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ۔رشتے دوستیاں تعلقات میں بھاپ بن کر فضا میں تحلیل ہو گئے ہیں سنا تھا کہ خون سفید ہو جاتا ہے یہاں پر تو ہم عملی طور پر یہ دیکھ رہے ہیں ‘ میں نے افسوس کا اظہار کیا باجی ہاجراں نیک خاتون ہیں جب بھی پاکستان آتی ہیں مجھ سے ملنے آتی ہیں چند سال پہلے اُن کی بیٹی کسی کالے کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھی تو یہ تو آگ میں جھلسنے لگی بیچاری میری پاس آئی میں نے اوراد وظائف دئیے اﷲ کا کرم ہوا بیٹی نے کالے کی جان چھوڑ دی تو انہوں نے پاکستان کے اچھے لڑکے سے اُس کی شادی کر دی ۔ بہت نیک خاتونن پانچ وقت کی نمازی حرام حلال کا بہت زیادہ خیال رکھنے والی پوری کی پوری اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں میں نے اُن کے بھائی کا افسوس کر کے فون بند کر نا چاہاتو وہ بولیں میں نے ایک کام کے لیے آپ کو فون کیا ہے ساتھ ہی بو لیں یہاں پر بھائی جان کو بے یار و مددگار دفن کر دیا گیا بھائی جان کی بیوی اور اولاد آخری رسومات میں شریک نہیں ہو ئے میرے خاوند میرے کہنے پر گئے اولاد بیٹوں کو بلایا تو کہنے لگے آپ ہمیں وڈیو سینڈ کر دینا ہم رسک نہیں لے سکتے اور وہ اِس خوف سے جنازے میں نہیں آئے کہ کہیں اُن کو کرونا نہ ہو جائے اور یہ میرے بھائی کے ساتھ نہیں اکثر مرنے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے اولاد جس کو پاکستان سے بلا کر یہاں سیٹ کیا کاروبار چلا کر اُس پر بٹھایا جس کی زندگی بھر کمائی پر یہ ساری زندگی عیش کر یں گے اُس کے جنازے میں اس لیے شریک نہیں ہو ئے کہ کرونا اُن کو نہ لگ جائے بھا ئی جان آپ میرے بھائی کا کسی مولوی صاحب کو کہہ کر غائبانہ نماز جنازہ کرواد یں میں خرچہ دے دوں گی اور اِ س نیکی کا اجر اﷲ تعالی ہی آپ کو دے گا پھر روتی بلکتی بہن کا فون بند ہو گیا جو اپنے بھائی کی موت پر تڑپ رہی تھی جب سے کرونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے سارے رشتے بھاپ بن کر ہوا میں اُڑ گئے ہیں اولاد تو اِسطرح غیر ہوئی کہ نہ ہسپتال بیمار پرسی کے لیے جاتی ہے اور نہ جنازے میں شریک ہو تی ہے یہ منظر ہم نے قرب قیامت میں پڑھا تھا لیکن یہ آجکل دنیا کے چپے چپے پہ ہو رہا ہے لوگ اپنے مریضوں کو ہسپتال پھینک کر چلے جاتے ہیں پھر مُڑ کر اُن کی خبر نہیں لیتے نفسا نفسی کے اِس عالم میں صرف ایک رشتہ ایسا سامنے آیا ہے جس کو کرونا بھی نہ ڈرا سکا جو کرونا کے سامنے بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہو گا اور کرونا نے بھی سوچا ہو گا کہ میری دہشت سے خو ف سے بادشاہ تک سب کمروں میں دبک گئے لیکن ایک ماں کا رشتہ ایسا ہے جس نے کرونا کی دہشت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا آپ کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیں جوان بیٹے کے پاس جو کرونا کا مریض ہو صرف اور صرف ایک ہستی ماں کی ہوتی ہے جو اُس کو دبا رہی ہو تی ہے حوصلہ دے رہی ہے اُس کے لیے جان کی پرواہ نہ کر تے ہو ئے اُس کے سر پر کھڑی ہو نے کو تیار ہو تی ہے اِن سارے رشتوں میں صرف ماں کا رشتہ ہی پاس ہوا ہے بھارت میں جب کرونا نے دہشت پھیلا اوربھارتی حکومت نے بھی پوری دنیا کی طرح لاک ڈاؤن لگا دیا تو ایک ماں کے ٹو کی طرح کھڑی ہوئی دنیا کے دوسرے رشتے ہوا میں تحلیل ہو ئے رشتوں کے سامنے ایک بار پھر ماں ایک چٹان کی طرح کھڑی ہو گئی یہ واقعہ حیدر آباد بھارت کا ہے جب وہاں پر لاک ڈاؤن ہو گیا کہ پڑوسی کو پڑوسی کے گھر جانے کی اجازت نہیں تھی تو تلنگا نہ کی ایک ماں اپنے بیٹے کو جو اندھیرا پردیش میں پھنس گیا تھا جو اُس کے گھر سے 1400کلو میڑ دور تھا وہاں پر جانے کے سارے راستے بس ریل جہاز بند ہو گئے تھے بڑا سے بڑا طاقت ور پہلوان آدمی بھی بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا ایک کمزور ماں اپنے بیٹے کو لانے کے لیے مشکل کٹھن سفر پر روانہ ہو تی ہے ماں کا نام رضیہ بیگم جو ایک سکول ٹیچر ہے برقع پہن کر اپنے دو پہیوں والی سکوٹی پر سوار ہو کر چودہ سو کلومیڑ کا سفر طے کر نے کے لیے نکل پڑتی ہے راستے کی مشکلات موسم کی شدت راستے کا طویل مسافت اُس کے ارادے کو کمزور نہیں کر سکے اور وہ جواں مرد بہادروں کی طرح تن تنہا اِس مشکل ترین سفر پر روانہ ہو تی ہے ضلع نیلو ر تک اپنے بیٹے تک پہنچ جاتی ہے جہاں اُس کالخت جگر محمد نظام الدین جو وہاں نجی کالج میں انٹر میڈیٹ سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا نظام الدین سالا نہ امتحان کے بعد اپنے دوست کے ساتھ رحمت آباد گیا تھا وہاں پر لاک ڈاؤن ہو گیا جس کی وجہ سے ہر قسم کی نقل و حرکت بندہو گئی جس کی وجہ سے ہو وہاں پر پھنس گیا جس کی وجہ سے ایک تڑپتی ماں کو اپنے لخت جگر کے پاس جانے کے لیے اُس شہر بند سے دیکھنے کے لیے اُس کو واپس لانے کے لیے طویل سفر کرنا پڑا رضیہ بیگم ایک پرائمری سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر کام کر تی ہے انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس وی جے پال ریڈی سے رابطہ کیا اجازت لینے کیلئے تاکہ راستے میں حکومتی اہلکار اُس کو تنگ نہ کریں آگے جانے دیں اجازت لے کر عظیم ماں6اپریل کی صبح رحمت آباد کے لیے روانہ ہو ئی راستے میں بے شمار پولیس چوکیوں چیک پوسٹوں پر اُس کو روکا گیا لیکن انہوں نے اے سی پی کی طرف سے اجازت نامہ دکھایا جس کو دیکھنے کے بعد پولیس افسران نے اُس کو آگے جانے کی اجازت دی راستے طویل سفر پر جو ماں نکلی اُن کے بارے میں یہ جان پر سب حیران رہ گئے کہ ہو زندگی میں کبھی بھی شہر سے باہر اکیلے نہیں گئیں اِس کے باوجود گوگل اور مقامی لوگوں کی مدد سے اُس نے یہ مشکل اور طویل سفر جاری رکھا اور1400کلومیٹر سفر کامیابی سے طے کر کے اپنے بیٹے کے پاس پہنچ گئیں ۔ رضیہ بیگم بتاتی ہیں کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے کسی چیک پوسٹ پر رکتی پھر اپنا سفر جاری کر دیتی رضیہ بیگم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی بیٹے کو لے کر وہ کامیابی سے واپس گھر آگئیں بظاہر تو یہ سفر مشکلات رکاوٹوں سے بھر پور تھا جو کسی مرد کے لیے بھی ناممکن تھالیکن ایک ماں کی محبت تڑپ جنون عشق اور بیٹے کے لیے اُس کے لیے سارے کی ساری مشکلات پھول بنتی گئیں اور وہ تن تنہا ایک سکوٹی پر اپنے بیٹے کو لے کر واپس اپنے گھر پہنچ گئی شیکسپئیر نے کیا خوب کہا تھا کہ اگر میں کوہ ہمالیہ کے اوپر پھنس جاؤں دنیا کو میری مشکل کا پتہ لگ جائے تو سب سے پہلے مُجھ تک جو پہنچے گا وہ میری ماں ہو گی ۔ کسی نے ماں کے بارے میں کیا خوب کہا ہے ۔
ایڈیاں گو ڑیاں جگ تے چھاواں لبدیاں نہیں
ٹر جاون اک وار تے ماواں لبدیاں نہیں
پُتر پاویں لکھ جہان تو مندے نیں
پر ماواں آکھن سارے جگ تو چنگے نیں
ہور کسے تو انج وفاواں لبدیاں نہیں
مفت اِچ اینی نیک سلاحواں لبدیا ں نہیں
ٹرجاون اِک وار تے ماواں لبدیاں نہیں
کم اک دوستا آکھاں تینوں کر جاویں
کدے ماں دے مرن تو پہلا پہلا مر جاویں
نہیں تے جگ اُتے مرن نوں تھاواں لبدیاں نہیں
ٹرجاون اک وار تے ماواں لبدیاں نہیں
اور یہ صرف ماں ہی کر سکتی ہے
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مُجھے ڈر لگتا ہے
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.