پدرسری معاشرہ اور صنفی امتیاز

اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ دراصل عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ یہ بات کئی طریقوں سے قابلِ غوراور قابلِ فکر ہے ۔۔۔ ہم آج جس دور میں رہتے ہیں جہاں ایک نظریہ یہ ہے کہ جو ہم سوچتے ہیں، جو ہم واقعی چاہتے ہیں وہ ہماری حقیقت بن جاتا ہے، ہمیں مل جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں کئی صدیوں سے عورت کو اپنے اردگرد رہنے والے ہر انسان سے، سارے ماحول سے، ہر قدم پر، پوری زندگی کے ہر دن میں ہر طریقے سے یہ یقین دلایا گیا ہو کہ وہ کمزور ہے، کم عقل ہے، جذباتی ہے اور اس طرح کی کئی باتیں جو اس سے منصوب کر دی گئی ہیں۔۔۔۔ یہ سب یقین دلانے میں اسکا اپنا خاندان بھی شامل ہو، جس کے مخلص ہونے کی دنیا میں مثالیں دی جاتی ہیں۔ کیا وہ اس بات سے اپنا اعتماد نہیں کھوئے گی؟ اس بات پر یقین نہیں کرے گی؟ پھر جو اس کا یقین بنا یا گیا، ہر قدم پر، اس کو جتایا گیا، کئ صدیوں تک، کیا وہ یقین ہر آنے والی عورت اپنی نسل میں منتقل نہیں کرے گی؟ ٹھیک اسی طرح جس طرح پورا معاشرہ مل کر ان ساری باتوں کی تائید و تقلید اور منتقلی کر رہا ہے کئ صدیوں سے۔۔۔۔۔۔خود کش بمبار زیادہ تر معصوم نوجوان ہیں، انکو کیسے تیار کیا جاتا ہے؟ کیسے کچھ سال میں ان کا برین واش کر کے وہ یقین بھر دیا جاتا ہے جو مطلوب ہوتا ہے۔ اور اس حد تک بھر دیا جاتا ہے کہ وہ بخوشی اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔۔۔۔ ٹھیک اسی طرح عورت اور ہمارے پورے معاشرے کا کئ صدی سے عورت کے بارے میں کئی طرح کے غلط یقین بنا دیے گیے ہیں۔۔۔۔۔۔۔، نسل در نسل، عمل در عمل، کبھی پیار سے، کبھی زور سے۔۔۔۔۔

پھر ایسی پروگرامنگ کے بعد، جہاں عورت کا واحد سہارا، حامی و ناصر، بچانے والا ہمیشہ ایک مرد ہو سکتا ہے، کیسے اپنی صدیوں کی سینہ بہ سینہ چلتی پروگرامنگ،تجربے اور یقین کو ایک طرف رکھ کر، انقلابی انداز میں مردوں کے معاشرے میں، مرد کے مقابلے ایک عورت کی طرف داری کرے؟ عورت کا ساتھ دے؟

اس بات کا ایک پہلو اور بھی ہے، ہم جب کسی انسان کی عادت، اچھائی، برائی، شکل کا ذکر کرتے ہیں تو ساتھ ہی اسکو اسکے خاندان کے کسی فرد کے ساتھ ملاتے ہیں، مثال کے طور پر، علی بہت نرم دل ہے، بالکل اپنے دادا پر گیا ہے۔ یا وہ بہت ذہین ہے بلکل اپنے ابا کی طرح۔ یا وہ بچوں کو بہت پسند کرتا ہے، بلکل اپنی نانی کی طرح، ان کو بھی بچوں سے بڑا لگاو تھا۔ اس کا مطلب ہوا انسان کی عادات، حرکات، شکل، عقل سب ہی میں وراثت کا بڑا اثر اور دخل ہے۔۔۔ ہمارے معاشرے میں بیٹی ان چاہی ہے، بہت کم لوگ ہی ہیں جو بیٹی کی پیدائش پر خوشی مناتے ہیں۔ بیٹی کا ان چاہا ہونا بھی نسل در نسل ہے، خون در خون منتقل ہوا ہے۔ عورت بھِی اگر نہیں چاہتی اس کے گھر بیٹی ہو تو اس نے یہ کہاں سے سیکھا؟

اس سارے المیے ساری کہانی کا ایک پہلو اور بھی ہے، گھر میں زور آور کون ہوتا ہے، حکم کس کا چلتا ہے؟ جس کے ہاتھ میں طاقت ہو، جو پیسے کما کر لائے، اور ایک پدرسری معاشرے میں یہ سب کس کے ہاتھ میں ہے؟ جس کے ہاتھ میں ہے اس کی رائے سب سے بڑھ کر مقدم ہے، وہ سب سے زیادہ اہم ہے۔۔۔
اس ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ شخصیات بھی نسل در نسل خون اور خیالات کے سفر سے وجود میں آتی ہیں، ایک پدرسری معاشرہ عورت سے امتیاز سکھاتا ہے، عورت بھی عورت سے امتیاز اسی واسطے کرتی ہے کہ وہ اسی معاشرے کی پیداوار ہے، صدیوں سے اسکو یہی سیکھ ملی ہے کہ وہ اور اس کے جیسی مخلوق کمزور اور غیر اہم ہے۔ عورتوں کے خلاف امتیاز پدرسری معاشروں کے خون میں شامل ہے اور نسل در نسل پروان چڑھ رہا ہے، منتقل ہو رہا ہے۔۔

 

Rafat Malik
About the Author: Rafat Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.