تم ہو قوم کے ہیرو

تمہاری یاد کی خوشبوؤں کو چمن کے کس گل سے تشبیہ دوں، تم جنت کی کلیاں ہو اور تمھارے احساس کی مہک ہماری رگ و جاں میں تروتازہ رہتی ہے۔ہر طرف تمہارے ننھے منے چہروں کی تابانی ہمارے گھر کی ویرانیوں کو دن رات مثلِ آفتاب روشن رکھتی ہے۔کون کہتا ہے ہے تم ننھے منے ،ہنستے مسکراتے چمن کے پھول اس دنیا سے رخصت ہو گئے ،کوئی ہماری آنکھوں سے تو دیکھے تم سب فلک کے تارے بن کر دور تلک آسمان پر ہنستے ہو ، اور جہاں تک ہماری نگاہوں کی وسعت ہوتی ہے تم وہیں تک چمکتے نظر آتے ہو۔اپنے اعصاب پر عزم و ہمت سے زندگی کا بوجھ اٹھائے دو باہمت انسانوں کی داستاں جنہوں نے اپنے چار لختِ جگر ایک سانحے میں کاتبِ تقدیر کو سونپ دیے، گو کہ دکھ کی وہ گھڑی عمر بھر جاوداں رہے گی مگر اﷲ کے فیصلوں پر صبر و شکر کرتے حاجی طارق شاہ اور ان کی اہلیہ ماہم شاہ اپنی زندگی رب کی امانت تسلیم کرتے ہوئے گزار رہے ہیں۔ آج جب میں نے یہ کالم لکھنا شروع کیا تو ایک عزم کیا کہ میں لفظوں سے روتی ہوئی داستاں نہیں لکھوں گی،گزشتہ بہت سی تحریریں پڑھی جو مختلف لوگوں نے اس سانحے کے بعد اخبارات اور رسائل میں لکھی،اور پڑھ کر میں کئی پہروں نم دیدہ رہی، لیکن حاجی طارق شاہ کا عزم، حوصلہ اورمحبت دیکھ کر مجھے اپنے رنجیدہ دل کو کھلتی کلیاں لکھنے پر آمادہ کرنا پڑا، کہ جب حاجی طارق شاہ اور ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ اُن کے لختِ جگر زندہ ہیں تو ہم بار بار کیوں ان کے چلے جانے کا ذکر کریں، ہم کوئی ایسی بات کیوں نہ کریں جس سے غم اور دکھ میں سلگتی ماں باپ کی بے چین روحوں کو تسکین ملے۔ میں کچھ اچھا لکھنے کی کوشش ضرور کروں گی لیکن نئے پڑھنے والوں کے لیے میں اس سانحے کا جزوی ذکر کرتی جاؤں تاکہ آپ کو اس غم کی شدت محسوس ہو اور پھر ان ماں باپ کا حوصلہ بھی جو اب تک اپنے بچوں کی ہر یاد کو سینے سے لگا کر جی رہے ہیں۔ 21اگست 2012ء کو حاجی طارق شاہ اور ان کی اہلیہ نے اسلام آباد سے پشاور جاتے ہوئے اپنے چار بچوں کو ایک المناک حادثے میں کھو دیاجب ان کی گاڑی سڑک کے کنارے غلط پارکنگ پر کھڑے ڈمپر سے ٹکرا گئی۔ ان کے چار بچے دس سالہ حسینہ شاہ، آٹھ سالہ شمائلہ شاہ، ایک بیٹا پانچ سالہ مشال شاہ عرف کاشی اور چار سالہ عائشہ شاہ اپنے مما بابا کو روتا ہوا چھوڑ کر چل دیے مگر یہ وعدہ کر کے گئے کہ وہ جنت میں ان سے ملنے کے منتظر رہیں گے۔ اس طرح کا حادثہ کسی بھی والدین کے لیے برداشت کرنا گویا اپنے زندہ بدن سے گوشت کے ٹکڑوں کو کاٹ کر الگ کرنا ہے، لیکن وہ ذات رحیم ہے کریم ہے اس نے ان دو ہستیوں کو اب تک تھام کر رکھا ہے ۔میری جب حاجی طارق شاہ صاحب سے بات ہوئی تو بہت جرات اور عزم و ہمت کے ساتھ وہ اپنی ننھی کلیوں کی یادوں کو تھامے ـ"محبت، امن اور جرات کا پیغام لیے"ایک لیڈر کی طرح پوری قوم بلکہ پوری دنیا کی قیادت کرتے نظر آئے۔

اور جب میں نے پوچھا کہ سرآپ کا اس وقت اسٹیس کیا ہے تو کہنے لگے کہ میرا حوالہ میرے بچے ہیں، میری پہچان میرے بچے ہیں، مجھے فخر ہے کہ میں ان چار شہید بچوں کا باپ ہوں، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان شاء اﷲ یہی بچے میری معرفت ہیں۔حاجی طارق شاہ ہمارے ملک و قوم کا ایک گمنام ہیرو اور ایک عظیم لیڈر ہے، کوئی سننے والا اُن کا پیغام تو سنے جو بے لوث ہو کر ہر جگہ، ہر اخبار، ہر میگزین،ہرچینل پر اپنے گوشہء جگر کی یادیں سینے سے لگائے محبت کا پیغام دیتا ہے، جو یہ کہتا ہے خدارا سڑکوں پر حفاظتی اقدامات کرو، جو اس ملک کے حالات سدھارنے کی بات کرتا ہے، جو ہر جگہ یہ پیغام دیتا ہے کہ محبت اور رشتے دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں،جو زندگی کا پیغام دیتا ہے اور احساس دلاتا ہے کہ زندگی کی سانسیں کتنا قیمتی اثاثہ ہیں، سوچنے والا یہ تو سوچے کہ جو نفرتیں ، بغض ،عداوتیں ہم دلوں میں رکھ کر انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں، ظلم کرتے ہیں وہ سب کرنا بند کردو کیونکہ زندگی ایک پل کا کھیل ہے، ایک لمحے میں سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، ظلم کرنے والا بھی مر جاتا ہے، ظلم سہنے والا بھی مر جاتا ہے، پھر آس پاس گونجنے والی تنہائی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، پھر زندگی خاموشی سے قبرستانوں میں جا کر سو جاتی ہے۔ حاجی طارق شاہ امن و محبت کا سپہ سالار صرف ایک دکھی باپ نہیں ہے بلکہ وہ اپنے بچوں کی محبت کے ساتھ معاشرے میں امن ،محبت اور عزم کی پیغام دیتے ہوئے آنے والے تمام وقتوں میں ایک مشعلِ راہ بن کر رہے گا۔ بے لوث محبت اسی وطیرے کا نام ہے جو یہ دکھی ماں باپ گزشتہ کئی سالوں سے اپنی زندگی میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جب 2014ء میں میرے ابو ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تو میں بہت رنجیدہ رہی مجھے لگا کہ جیسے میری دنیا ہی ختم ہو گئی ،لیکن یہ ابو کی محبت تھی کہ اس دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ مسلسل مجھے خواب میں آکر ملتے رہے ، مجھ سے بات کرتے رہے، میرے ہر غم اور خوشی میں شریک ہوتے رہے، اور پھر انھوں نے مجھے یقین دلا دیا کہ وہ اس دنیا سے جا کر بھی میرے ساتھ ہیں،وہ اب بھی میرے خواب میں آتے ہیں اس دنیا سے جانے کے بعد وہ ہمیشہ میری خواب میں آئے، خواب کا تذکرہ ایک حقیقت ہے جب میں نے حاجی طارق شاہ کو یہ کہتے سنا کہ ان کے بچے ان کے خواب میں آتے ہیں ، ان سے باتیں کرتے ہیں،وہ ان کی پاس نہ جائیں تو خواب میں آکر ناراض بھی ہوتے ہیں۔ اور ان کے بچے تو آس پاس ہنستے کھیلتے مسکراتے نظر آتے ہیں ۔ جب کوئی کسی کو اتنی محبت سے ، چاہت سے یاد کرتا ہے تو وہ دوسری دنیا میں جا کر بھی پاس ہی رہتا ہے۔ اس دنیا سے جو چلے جاتے ہیں وہ دنیا والوں کے لیے نظر سے اوجھل ضرور ہو جاتے ہیں لیکن جن کے دلوں میں بستے ہیں وہ وہاں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اور حسینہ،شمائلہ، کاشی اورعائشہ آج بھی اپنے مما بابا کے پاس رہتے ہیں ، ہنستے ہیں، باتیں کرتے ہیں۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ ان ماں باپ کو دنیا سے جانے والے ان سینکڑوں بچوں کا غم نہیں جو کئی حادثو ں میں دنیا سے چلے گئے،لیکن ماں باپ کی کل کائنات تو اولاد ہی ہوتی ہے ۔

سارے جہاں کا غم اپنے سینے میں چھپائے آج بھی حاجی طارق شاہ چیخ چیخ کر دنیا کو بتا رہے ہیں کہ سڑکوں پر حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی کسی ایسے حاد ثے میں اپنے پیاروں کو کھو نہ دے مگر اس قوم کی بے حسی پر خون کے آنسو بہانے کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اس بے حسی پر لکھنے لگوں تو شاید اپنے موضوع سے ہٹ جاؤں گی لیکن اتنا ضرور یاد رکھیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، کسی کی ذرا سی لاپروائی کسی کی پوری دنیا کو ختم کر سکتی ہے۔ ہر روز سینکڑوں لوگ ٹریفک حادثات کا شکار ہوکر اپنے پیاروں کو چھوڑ جاتے ہیں مگر ہمارے آس پاس بے حسی کا راج قائم رہتا ہے۔ ہمیں صرف یہ نہیں دیکھنا ہے کہ ایک دکھی ماں باپ ہر سال اپنے بچوں کی قبر پر جا کر ان کی سالگرہ مناتے ہیں،ان کی یاد میں اپنے گھر میں چراغاں کرتے ہیں،اپنے غم کا درماں کرتے پھرتے ہیں،یہ ماں باپ آپ کو ایک پیغام بھی دے رہے ہیں کہ کسی کی غلطی اس کے گلشن کو اسی طرح خار بنا سکتی ہے۔ہمیشہ کی طرح رواں سال بھی حاجی طارق شاہ اور ان کی اہلیہ یکم مئی 2020ء کو اپنے پیارے بچوں کی سالگرہ پریس کلب اسلام آباد میں منائیں گے، اور سالگرہ منانے کا مقصد سوگ منانا نہیں بلکہ یہ ان کی بچوں سے محبت کا تقاضا ہے اور ہر سال اُس عزم کی تجدید کرنا ہے جس کا علم اٹھائے حاجی طارق شاہ قدم قدم آگے بڑھتے رہتے ہیں۔چلو زندگی مشکل تو بہت ہے جینا لیکن یادوں کا شکریہ جو جینے کا سہارا بن کر ساتھ رہتی ہیں۔میں نے اپنی ایک کتاب میں چند لائنیں لکھی تھیں ۔۔کہ۔۔لوگوں سے اچھی تو یادیں ہوتی ہیں،جو بیتے لمحوں کے مدفن میں تازہ گلاب بن کر مہکتی رہتی ہیں۔۔ اور واقعی یہ یادیں زندگی کا اثاثہ ہوتی ہیں۔ اور حاجی طارق شاہ نہ صرف خود قوم کا ہیرو ہے بلکہ ان کی اہلیہ اُن کے چار بچے سب قوم کے ہیرو ہیں۔ زندگی کے محاز پر لڑنے والے چار شہید اور دو غازی دنیا کو امن ، محبت اور عزم کا درس دے رہے ہیں۔

ہم سب محبتوں کا پرچار کرتے ہیں، امن کی بات کرتے ہیں مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ محبت اور امن انسانیت سے شروع ہوتے ہیں۔ہم زندگی کی قدر کو سمجھ نہیں پاتے، ہم حادثات میں ہونے والی تباہیوں سے سبق نہیں لیتے، ہم مرنے والوں کو کسی بھولے ہوئے سبق کی طرح بھول جاتے ہیں۔ اگر ہم رشتوں کی قدر و قیمت اور زندگی کی اہمیت جان لیں تو ایک حادثہ ہی کافی ہوتا ہے۔

ہم سرحدوں پہ لڑنے ، شہید ہوجانے والوں اور غازیوں کو تو یاد رکھتے ہیں مگر زندگی کی سرحدوں پر لڑنے والے ان سپاہیوں کو بھول جاتے ہیں جو معاشرے کی بے حسی کی سرحدوں پر لڑتے لڑتے اپنی جان کی بازی ہار دیتے ہیں۔ میرا اس معاشرے سے سوال ہے، اس ملک سے سوال ہے، کہ ان غازی والدین کا کیا قصور تھا جنہوں نے تمہاری بے حسی کی جنگ میں اپنے چار ننھے سپاہی سڑک پر قربان کر دیے؟

خدارا یہ گمنام ہیرو تو اپنے بچوں کی شہادت کو اپنے عزم کا سہرا بنا کر دنیا میں امن و محبت کی تبلیغ کر رہے ہیں لیکن ان معصوم شہیدوں کا لہو بھی تم سب سے خراج مانگتا ہے ۔ میں قوم کے اِن تمام ہیروز کو سلام پیش کرتی ہوں اور امن کے اس قافلے کے علمبردار حاجی طارق شاہ اور ان کی اہلیہ ماہم شاہ کو خصوصی سلام پیش کرتی ہوں جو عزم اور حوصلے کا عَلم اٹھائے اس ملک و قوم کی حالت سدھارنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔

ان کا پیغام کوئی عام پیغام نہیں ہے یہ صرف یہ نہیں کہتے کہ ہمارے ملک میں ٹریفک کے ناقص انتظامات کو درست کیا جائے تاکہ کوئی اس طرح کے حادثات کا شکار نہ ہو، بلکہ یہ پوری دنیا میں ٹریفک پر ہونے والے حادثات کی آواز ہیں، اور صرف یہ حادثوں کی ہی خبر نہیں رکھتے بلکہ زندگی کی قدر وقیمت، امن ،محبت ،انسانیت اور بھائی چارے کے پیغام کو بھی عام کر رہے ہیں۔ یہ قوم کے گمنام ہیرو ، یہ قوم کے غازی،یہ انسانیت کا فخر ہیں۔
 

Dr Saima Jabeen Malik
About the Author: Dr Saima Jabeen Malik Read More Articles by Dr Saima Jabeen Malik: 9 Articles with 6955 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.