پوسٹنگ پر جانے والے تمام دوست اپنے بیوی بچوں کے ساتھ
سفری سامان ہاتھ میں اٹھائے کوچ کے انتظار میں کھڑے تھے جس نے ان سب کو
کراچی اسٹیشن تک الوداع کرنا تھا۔ دو دن پہلے وہ اپنا گھریلو سامان ریلوے
اسٹیشن پر پشاور کے لیے بک کروا چکے تھے۔
ابھی الوداع مت کہو دوست نہ جانے کہاں پھر ملاقات ہو
بیتے ہوئے لمحوں کی کسک ساتھ تو ہوگی خوابوں ہی میں ہو چاہے ملاقات تو ہوگی
پھولوں کی طرح دل میں بسائے ہوئے رکھنا یادوں کے چراغوں کو جلائے ہوئے
رکھنا
فیملیز الگ کھڑیں تھیں اور مرد حضرات اپنی اپنی رہائش کے ساتھ الگ کھڑے
تھے، اس پورے کیمپ کی فضا غمگین اور اداس نظر آ رہی تھی۔ حالانکہ تمام
کیمپسز میں سے صرف پچاس فیملی شفٹ ہو رہی تھیں، اس کے باوجود لوگوں کے
چہروں پر اتنی اداسی چھائی ہوئی تھی کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ سب کیوں اور
کیونکر ایسا تھا؟ معاشرہ مختلف لوگوں کے مل کر رہنے سے بنتا ہے۔ اگر اس
معاشرہ میں معاشرتی تعلق، اخوت اور بلا لالچ فضا قائم ہو جائے تو کیا ہی
بات ہے۔ ان کیمپس میں رہنے والے ایک منظم معاشرے کا معاشرتی نظام تھے۔ کیمپ
میں سے ایک بھی پوسٹنگ پر جاتا تو وہاں کی فضا سوگوار ہو جاتی۔ 1997ء کا
آغاز تھا، کورنگی سے ہماری یونٹ کو شفٹ ہونے کے آرڈر جاری ہو گئے تھے۔ جیسے
ہی ادارہ بورڈ کے پیپرز اور رزلٹ سے فارغ ہوئے توفائنل تاریخ طے ہو گئی۔
اپنا اپنا سامان باندھ کر ریلوے اسٹیشن پر پہنچانے کا شیڈول طے ہو گیا۔ اس
شیڈول کے تحت ہی سب کا سامان مختلف ٹرکوں میں لاد کر کراچی اسٹیشن سے پشاور
کے لیے بک کروا دیاگیا۔ اس کے چند دن بعد بمعہ فیملی سفر پر روانہ ہونا
تھا۔ دو دن کا کھانے وغیرہ کا بندوبست کرکے باقی سامان بک کروا یا گیا لیکن
اس کے باوجود معاشرتی قربت نے اس قدر احساس دلایا کہ آج بھی سوچ کر آنکھوں
سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ تقریباً یہ پچاس فیملیز مختلف کیمپس میں رہائش
پذیر تھیں، ان کے ہمسائیوں نے اس قدر الوداعی پیار اور محبت بھرا رویہ
دکھایا کہ کسی نے بھی کسی کو اپنے گھر میں کھانے پکانے، ناشتہ کرنے نہ دیا،
ہر دوسرا پڑوسی کہہ کر جاتا کہ فلاں وقت کا کھانا ہماری طرف، یہ سب کیا
تھا، معاشرتی قدریں جو ایک دوسرے کو آپس میں جوڑے ہوئے تھیں، اور جیسے اس
اچھے مخلص معاشرے سے کوئی ساتھی دوسری جگہ ٹرانسفر ہوتا ہے تو دل خون کے
آنسو روتا ہے۔ ہر جانے والا اپنے اپنے مکان کے باہر کھڑا ہے، خواتین کا
جھرمٹ بیوی کے ساتھ اور مردحضرات کا گروپ علیحدہ کھڑا ہے، الوداع کہنے والے
غمگین اور اداس چہروں کے ساتھ اس طرح باتوں میں مشغول تھے کہہ جیسے تاقیامت
کی باتیں، نصیحتیں آج ہی کرنا ہونگی۔ بچے دوسرے بچوں سے مصروف گفتگو، عجیب
سا سماں بندھا ہوا تھا، جیسے ہی کوچ جانے والوں کو لینے آتی تو وہاں رقت
آمیز ماحول بن جاتا، عورتیں اور بچے ایک دوسرے کو اس طرح ملتے جیسے اس کے
بعد ملاقات کا کوئی چانس نہیں یا یوں کہہ لیں جیسے گھر سے کوئی بہن بھائی
بیٹی کو سسرال کے لیے الوداع کرتے ہیں۔ مردحضرات اپنے ساتھی سے بار بار گلے
لگ کر ملتے، سب کی آنکھیں بھر آئیں۔جیسے ہی خواتین کوچ میں سوار ہونے لگیں
کچھ ایسی جذباتی خواتین، بہنیں بھی تھیں جو بھاگ کر اپنی سکھیوں سے پھر گلے
مل کر رونے لگیں اور آنکھوں سے ہی ان کو الوداع کہہ رہی تھیں اور آس لگارہی
تھیں ہم پھر سے جلد ملیں گے، ایسے جذبات صرف ایک اچھے معاشرتی ماحول سے ہی
پیدا ہو سکتے ہیں۔ جب ہم کوچ میں سوار ہو گئے اگلی رہائش گاہ کی طرف چل پڑے
پیچھے کھڑے الوداع کرنے والوں کی آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑیاں دیکھ کر خود
کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ میری رہائش گاہ اور چیف وارنٹ آفیسر مختار صاحب
کی رہائش آخری تھیں، معاشرے کی اقدار سے اندازہ لگانا مشکل نہیں جب تک ہم
آخری سوار کوچ میں سوار ہو کر مین سڑک پر واپس نہیں آگئے تما م دوست،
فیملیز، بچے مین روڈ پر کھڑے ہو گئے، جیسے ہی پتہ چلا کہ اب کوچ اسٹیشن کے
لیے روانہ ہو رہی ہے۔ یقین جانیے شاید ہی کوئی ایسا گھر، دوست، بہن بیٹی
اور بچہ ہو جس کی آنکھوں میں آنسو نہ ہوں، سڑک کے دونوں طرف لوگ جذباتی ہو
کر ایسے ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کہہ رہے تھے جیسے ہم دنیا سے ہی جا رہے ہیں
یا پھر جنگی محاذ پر جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ ہم سب کوچ میں بیٹھے ہی سب
کو تا حد نگاہ ہاتھ ہلا ہلا کر شکریہ کہہ رہے تھے۔ یہ الوداع کیمپ تک ہی
محدود نہ تھابلکہ کچھ دوست ایسے بھی تھے جو اسٹیشن پر الوداع کرنے آئے۔
اپنی اپنی ریلوے بوگی میں سیٹ نمبر تلاش کر کے دستی سامان رکھ کر باہر
آگئے، جو خواتین آئی ہوئی تھیں وہ خواتین کے پاس جا کر الوداعی جذبات سے
سرشار ہو کر باتیں کر رہی تھیں اور باقی پلیٹ فارم پر دُکھ درد کی باتیں
شیئر کر رہے تھے۔ پھر سے ایک دوسرے کو یونٹ کا پتہ دیا گیا اور جا کر واپس
فون کرنے کا وعدہ لیتے تاکہ فون پر ہیلو ہائے ہوتی رہے۔ اتنے میں ریل گاڑی
نے چلنے کا سائرن بجایا، ملنے والے باہر پلیٹ فارم پر آگئے، ہم گاڑی میں
کھڑے ہو کر پلیٹ فارم سیٹ کی جانب کھڑے ہوئے گئے۔ پھر دل سوز جذبات کے ساتھ
الوداع کہہ رہے تھے۔ آج اس واقع کو گزرے کم و بیش تیئس سال کا عرصہ گزر گیا
لیکن کیمپس میں معاشرتی اقدار، اور جذباتی ہو کر الوداعی کرنا میرے لیے آج
بھی ترو تازہ ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کیا ایسا معاشرہ ہم عام سول سوسائٹی میں
قائم کرنے میں نہ کام کیوں؟ذرا سوچیں کہیں ہم ذات پات، مالی حیثیت، سیاسی
اور مالی اسٹیٹس کے پوجاری تو نہیں، کہیں مادیت کا شکار ہو کر معاشرتی
قدریں کھو بیٹھیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں، بہنوں، بچے اور بچیوں کو
سدا صحت و سلامتی دے جنہوں نے اس پیار اور خلوص سے معاشرتی ا قدار کو قائم
رکھتے ہوئے جذباتی ہو کر الوداع کیا تھا۔
|