انسان اس دُنیا میں تنہا نہیں جی سکتا،وہ بہت سے رشتوں
اور بندھنوں میں جکڑا ہوتا ہے۔ان میں بہت سے رشتے اتنے اٹوٹ ہوتے ہیں جو مر
کر بھی نہیں ٹوٹتے۔ایسا پہلا اٹوٹ رشتہ بندے کا اللہ کے ساتھ ہے،اللہ تعالی
کو اپنے بندوں سے ایک ماں سے ستر گُنا زیادہ محبت ہے اللہ اور بندے کا رشتہ
اتنا مظبوط ہے کہ آپ لاکھ اُس کی نافرمانی کریں مگر وہ کافروں اور
نافرمانوں کو بھی رزق اور دولت ،اولاد،صحت اور کامیابیاں دیتا ہے۔
دُنیاوی رشتوں میں ماں باپ ،بہن،بھائی،خالہ،ماموں ان سب رشتوں کی بنیاد اور
ابتدا دراصل میاں بیوی کے رشتے سے ہے،ایک خاندان کی ابتدا اسی رشتے سے ہوتی
ہے،اس کے بعد باقی رشتے بنتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے تعلق اور
رشتے کو اتنا تقدس اور اہمیت دی ہے کہ ایک خاندان اور پورے معاشرے کے امن
،سکون اور محبت کا مرکز بنا دیا ہے۔میاں بیوی کا رشتہ جتنا محترم اور مظبوط
ہو گا اتنے ہی دوسرے رشتے مظبوط ہوں گے۔یہ رشتہ ایک خاندان کا مرکز ہے اور
بچوں کے لیے یہ رشتہ پناہ گاہ ہے،اگر خدا نخواستہ یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو سارے
رشتے کچے دھاگے ثابت ہوتے ہیں۔مغربی دُنیا میں یہ رشتہ اپنا تقدس و احترام
کھو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کھر ٹوٹ گے ہیں،خاندانی نظام کا شیرارہ بکھر
گیا ہے،اور بچے بے رہ راوی اور بدکرداری کا شکار ہیں۔
اس رشتے کے بعد اگلا رشتہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کا ہے،ماں اور بچے کے
تعلق،محبت اور خلوص کی مثال ڈھونڈنی ناممکن ہے،کوئی انسانی رشتہ ماں کا نعم
البدل نہیں ہو سکتا،جس چاہت قربانی اور ایثار سے ایک ماں اپنی اولاد
کوپالتی ہے اولاد کتنی بھی خدمت کرے اُس محبت اور خدمت کا قرض نہیں اتار
سکتی،ایک صحابی نے رسُول کریم ۖ سے پوچھا (یا رسُول اللہ ،میں نے اپنیماں
کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے،کیا میں نے اس کا حق ادا کر دیا
ہے)آپۖ نے فرمایا (تم نے اُس کی ایک رات کا بھی حق ادا نہیں کیا جب تم بستر
گیلا کر دیتے تھے اوروہ تمہیں سوکھے بستر پر سُلا کر خود گیلے پر سو جاتی
تھی)ماں کے بعد باپ ہے جودن رات محنت کرتا اور اپنی اولاد کو پالنے کے جتن
کرتا ہے،نبی کریم ۖ نے فرمایا (باپ کی رضا میں اللہ کی رضا اور باپ کی
ناراضی میں اللہ کی ناراضی ہے)۔
والدین کے بعد بہن بھائی ہیں،بہن بھائیوں کا آپس میں پیار جتنا زیادہ ہو
گاماں باپ اور گھر کا سکون اتنا ہی زیادہ ہوگا،جس گھر میں بہن بھائی آپس
میں لڑتے چھگڑتے ہوں وہاں ماں باپ کی حالت کیا ہو گی،اس کا اندازہ ہر شخص
کر سکتا ہے۔اس کے بعد ماں باپ سے جڑے ہوئے رشتے ہیں۔ان سب خاندنی اور خونی
رشتوں کے بعد ہمارے معاشرے کے ساتھ مختلف افراد سے ہمارے تعلقات ہوتے
ہیں،ہم گھر میں ہوں یا باہر ،معاشرے کے تمام افراد ایک نظام کے تحت ایک
دوسرے سے جڑے ہو ئے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں اگر دیکھا جائے تو یہ رشتے کمزور ہو تے جارہے ہیں،خودغرضی
اور نفسا نفسی کے اس دور میں ہر کوئی اپنا مفاد دیکھتا ہے،اور ہر رشتہ خود
سے جڑے مفاد کی اہمیت تک رہ گیا ہے،جس سے دوسرے کو جتنا مفاد ہو گا اس کی
اتنی ہی اہمیت ہو گی،ہم اتنے خود غرض ہو گئے ہیں کہ کبھی مفاد کے بغیر
سوچتے ہی نہیںہیں،یہ دُنیا عارضی ہے ختم ہونے والی ہے اور ہم اس میں اتنا
ڈوب گئے ہیں کے اچھے اور بُرے کی پہچان بھول چکے ہیں،اپنے تھوڑے سے مفاد کی
خاطر حق بات کو چھپا لیتے ہیںاور دُنیاکی لالچ میں اپنی آخرت خراب کر دیتے
ہیں،زندگی گزرنے والی چیز ہے اور یہ گزر جائے گی،ہر آنے والا دن ہمیں موت
کے قریب لے جا رہا ہے اور آخر ایک دن ہمارا سامنا موت سے ہو کر رہے گا،حقوق
العباد کے بارے میں جب سوال ہو گا تو ہم کیا جواب دیں گے،ہم میں سے ہر کوئی
خود کو احتساب کی بھٹی میں ڈالے اور بھر دیکھے کہ کی ہم ان رشتوں کے حقوق
ادا کر رہے ہیں،کیا آج والدین اولاد سے بات کرنے میںججکمحسوس نہیں کر
رہے،کیا آج باپ کو یہ کہہ کر خاموش نہیں کیا جا رہا کہ آپ کو نہیں پتہ مجھے
علم ہے میں کیا کر رہا ہوں،میں نے ایسے والدین بھی دیکھے ہیں جو اپنی اولاد
سے بات کرنے میں خوف محسوس کرتے ہیں۔اکثر والدین اپنی اولاد کی وجہ سے اپنے
خاندان سے جدا ہو گئے ہیں کیونکہ ان کی اولاد نہیں چاہتی کہ وہ اپنے والدین
کے خاندان سے کوئی بھی تعلق رکھیں،جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو اُف
تک نہ کرو ،ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے،میں باقی عزیزواقارب کی بات
نہیں کر رہا صرف والدین کی بات کر رہا ہوں کیونکہ ان کا نہم البدل دُنیا
میں نہیں ہے،والدیں اگر دین پر نہ بھی ہوں تب بھی ان کا احترام فرض ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم مغرب کی تقلید میں اتنا کھو گئے ہیں کہ
ہم ان ہستیوں کا تقدس اور احترام بھی بھوک گئے ہیں۔یاد رکھیں یہ دُنیا
مکافات عمل ہے آج جو کچھ ہم بو رہے ہیں کل یہی کاٹیں گے،کل کو اگر یہی سلوک
ہماری اولاد ہمارے ساتھ کرے گی تو کیا ہم اس کو برداش کر پائیں گے،آج مائوں
کو سرعام رسوا کیا جا رہا ہے ،باپ سے تقلق توڑے جا رہے ہیں،کئی کئی ماہ تک
والدین کا حال تک پوچھنا گہورا نہیں جس اولاد کو ،اسی اولاد کی زندگی کے
لیے والدین نے اپنی زندگیا ں گہوئیں ہوتی ہیں جن کو آج اولاد دھڑلے سے کہہ
رہی ہوتی ہے کہ آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے۔
اس تمام صورتحال کا احاطہ کرنے کے بعد ہم ان رشتوں کی اہمیت سمجھ سکتے
ہیں۔اب ہر انسان کا خصوصا ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان رشتوں کو
سمنبھالے،ان کا تقدس اور احترام برقرار رکھے اور انھیں ہر حال میں
نبھائے،رشتہ جوڑنا قدرت کا کام ہے مگر انھیں نبھانے کا فرض انسان کا
ہے،اسلام رشتوں میں ہے اخلاق اور کردار انہیں رشتوں سے جڑے ہو ئے ہیں،تمام
حقوق و فرائض انہیں رشتوں میں ہیں۔ہماری جنت ہماری ماں کے پاس ہے،ہمارے رب
کی رضا ہمارے باپ کیپاس ہے۔جو شخص اپنے رشتے داروں کا خیال رکھتا ہے ان کی
دیکھ بھال کرتا ہے اُن کی عیادت اور بیمار پرسی کرتا ہے،وہ اللہ کا پسندیدہ
ہے۔اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے،صلہ رحمی رشتے داروں کے حقوق ادا
کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ کو وہ شخص ناپسند ہے جو تعلق توڑے اور صلہ رحمی نہ
کرے۔کسی رشتے دار کے اچھے سلوک کے بدلے آپ بھی اچھا سلوک کر دیں ،یہ تو
روائتی بات ہے۔اصل بات اور اصل رشتہ داری وہ ہے کہ دوسرا آپ سے تعلق توڑے
مگر آپ جوڑے رکھیں۔دوسرا آپ سے بُرا سلوک کرے مگر آپ اچھائی پر قائم
رہیں۔یہ ہے رشتوں کو نبھانا،ایک خاندان ،ایک معاشرے اور اس پوری دُنیاکا
امن اور سکون ان رشتوں کو نبھانے میںہے۔اگر میاں بیوی ایک دوسرے کا احترام
کریں گے تو بچے بھی یہی احترام سیکھیں گے۔ویسا ہی احترام ،سکون اور حساس وہ
معاشرے میں بانٹیں گے۔ہر گھر معاشرے کی اکائی ہے۔ٹوٹے ہو ئے گھر منتشر
افراد کو جنم دیتے ہیں اور منتشر افراد معاشرے میں بھی انتشار بھیلاتے ہیں۔ |