قاضی منان جب پاکستان سے امریکہ میں داخل ہوئے تو ان کی جیب میں صرف تین
ڈالر اور آنکھوں میں بڑے بڑے خواب تھے- وہ اپنی ان تمام محرومیوں کا خاتمہ
کرنا چاہتے تھے جو اس کے بچپن سے اس کے ساتھ جڑی تھیں اس کو اپنے بچپن کے
وہ تمام دن یاد آرہے تھے جب کہ اس کے گھر میں کھانے کو بہت قلیل سامان ہوتا
تھا- باپ ایک اسکول ٹیچر اور گھر میں نو بچۓ کھانے والے ہر وقت گھر میں
کھانے کی چیزیں کم ہی ہوتی تھیں اور اس میں سے بھی کچھ اس کی ماں ان سے بھی
غریب گھروں میں بھیج دیا کرتی تھیں-
اور جب وہ کھانے کے کم ہونے پر اپنی ماں کے سامنے احتجاج کرتے کہ کھانا تو
ہمارے لیے بھی کم تھا آپ نے وہ بھی بانٹ دیا تو اس کی ماں کہا کرتی تھیں کہ
کھانا ہمیشہ بانٹ کر کھانا چاہیے- ماں کی یہ بات قاضی منان کے لا شعور میں
اس طرح بیٹھ گئی کہ انہوں نے اپنی ذات سے ایک وعدہ کر لیا کہ جب اللہ تعالیٰ
ان کو آسودگی دیں گئے تو وہ بھی ایک ایسا ریسٹورنٹ بنائيں گئے جہاں پر
غریبوں کو مفت کھانا دیا جائے گا-
سال 1996 میں واشنگٹن آنے کے بعد قاضی منان کی زندگی سخت ترین جدوجہد سے
عبارت تھی انہوں نے دو دو شفٹوں میں پٹرول پمپ پر نوکری کی اس کے بعد انہوں
نے لیموزین کی ڈرائیوری شروع کر دی اور اس طرح پیسے بچا بچا کر انہوں نے
اپنی لیموزین کی کمپنی بھی کھول لی-
|