دونوں فریق پہنچ چکے تھے ڈیرے کی چارپایاں کم پڑ گی تھیں
ملازم ڈیرہ کے کمرہ میں پڑی دو چار کرسیاں بھی اٹھا لایا
اسی دوران ہی چوہدری صاحب دھوتی کرتا پہنے حقہ ہاتھ میں تھامے سلام کرتے
ہوے جج کی کرسی کی طرح سامنے رکھی چارپای پر بیٹھ گے اور اپنے ملازم بوٹے
کو آواز لگاتے ہوے کہا بوٹے سب کے لیے فسکلاس سی چائے بنا کرلا
جس بھای نے حقہ کا کش لگانا ہو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ سکتا ھے یہ کہکر
چوہدری صاحب نذیرے سے مخاطب ہوے ہاں نذیرے اپنی بات سنا
نذیرے نے بات شروع کرتے ہوے کہا چوہدری صاحب آپکو پتہ ہی ھے کے میں نے اپنی
بیٹی کی شادی مختارے کے بیٹے کے ساتھ کی تھی دونوں میں روز لڑای جھگڑا رہتا
تھا لڑکا نشہ کرتا تھا اور اپنی بیوی کو خرچہ پانی بھی نہیں دیتا تھا
سمجھایا بجھایا بھی بہت مگر سدھرا نہیں مجبوری میں ہم نے عدالت کے ذریعے
طلاق لے لی اب لڑکی کا سامان جہیز ان کے گھر پڑا ھے مختارا سامان جہیز واپس
نہیں کر رہا میں نے بیٹی کو آگے کسی کے گھر بٹھانا ھے بغیر سامان کے کوی
کنواری لڑکی کا رشتہ نہیں لیتا میری بیٹی تو پھر طلاق یافتہ ھے اور دوسری
بار پھر نیا سامان جہیز بنا اتنی میری پسلی نہیں
چوھدری صاحب نے حقہ کا لمباکش لگاتے ہوے کہا طلاق تو عدالت سے لے لی مگر
سامان جہیز عدالت سے کیوں نہیں لیا
نذیرے نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوے کہا چوہدری صاحب کیا بتایں کیس تو سامان واپس
لینے کا بھی کر رکھا ھے مگر سال ہو گیا ھے کیس ابھی ہماری شہادت پر ہی چل
رھا ھے اور مختارا کہتا ھے ابھی تو فیملی کورٹ میں کیس ھے پھر سیشن کورٹ
ہایکورٹ سپریم کورٹ میں تمہاری زندگی رول دونگا برباد کر دونگا مگر سامان
نہیں دونگا طلاق یافتہ بیٹی گھر بٹھا کر میری ایک ایک رات سال کیطرح گزر
رہی ھے چوہدری صاحب مجھ پر نیکی کر کے سامان واپس دلوا دیں نذیرا تقریبا رو
ہی دیا تھا
چوہدری صاحب پھر مختارے سے مخاطب ہوے ہاں مختارے تو بول تو کیا کہتا ھے
مختارے نے عدالت میں دیے گئے بیان کی طرح کہا چوہدری صاحب ہمیں تو کوی
سامان ملا ہی نہیں اور باقی یہ خود ہی عدالت میں گے ہیں عدالت سے ہی کروایں
فیصلہ اب
چوہدری صاحب نے مختارے کی جانب گھوری ڈالتے ہوے کہا زیادہ چالاک بننے کی
ضرورت نہیں یہ پنچایت ھے عدالت نہیں اور باقی مجھے سب کچھ سچ سچ اگلوانا
خوب اچھی طرح آتا ھے اگلے ہی لمحے مختارا سب کچھ سچ سچ مان چکا تھا اور
سامان واپس کرنے پر بھی رضا مند ہو گیا تھااس دوران ہی چائے آ گ سب معاملہ
نمٹا کر چائے پینے لگے مختارا بولا چوہدری صاحب آپکے ڈیرہ کی چائے بڑی کمال
کی ہوتی ھے چوہدری صاحب کہنے لگے کل ہم سب تمہارے گھر کی چائے پینے آینگے
سامان بھی تیار رکھنا
اگلے دن مختارے کے گھر سے سامان وصول کروا کر چوہدری صاحب نے نذیرے کو کہا
اب عدالت جاکر اپنا کیس واپس اٹھا لا
نذیرا جب کیس واپس لینے عدالت گیا اسے چوہدری کا کچہ پکا ڈیرہ پختہ عدالتی
بلڈنگ سے کہیں زیادہ خوبصورت لگا اور جب اس نے انگریزی سوٹ بوٹ میں ملبوس
جج کی کرسی کی جانب نظر دوڑای اسے چارپای پر دھوتی کرتے میں ملبوس حقہ پیتا
چوہدری یاد آ گیا وہ سوچنے لگا جج تو چوہدری ہوتے ہیں عدالتوں کے بابو تو
تاریخیں دیکر تنخواہ وصول کرنے آتے ہیں جب کیس سامان جہیز کا چل رہا ہو تو
اس کا مطلب ہوتا ھے کسی بوڑھے کی طلاق یافتہ بیٹی اس سامان جہیز کے فیصلہ
کے انتظار میں اپنے بوڑھے ماں باپ کے کندھوں پر مزید بوجھ بن کر بیٹھی ھے
خدارا ایسے کیسوں کے فیصلے جج بن کر نہیں چوہدری یا سردار بن کر کر دیا کرو
|