ٹھک ٹھک !(کوئی زور زور سے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔)
دیکھوں سارہ بیٹی دروازے پہ کون ہے جس کو غصہ نکلنے کے لیے دروازہ ہی ملا
ہے۔خاتون غصے کا اظہار کر رہی تھی۔
(ٹھک ٹھک ۔۔۔۔۔۔۔دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔۔۔۔) صبر رکھے کھول رہی ھوں
دروازہ۔۔سارہ نے جواب دیا۔
سارہ نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ عورت فوراًگھر کے اندر داخل ھوئی ،،ان
الفاظ کے ساتھ (بیٹی تیرے امی ابو گھر پےھیں۔)
جی ہیں سارہ نے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت اندر داخل ھوئی۔۔۔۔۔
آپ کہاں اندر آرہی ھے دروازے کے پاس ہی روکے۔۔۔۔دروازہ کیا کھولو۔فوراً
اندر کی طرف ہی بھاگنے لگ جاتی ہیں(سارہ کی ماں نے خوب الفاظ کی بھونچال
کی۔)مگر عورت کے کان پے جوں تک نہ رینگی۔۔۔۔
اللہ تم لوگوں کو ذیادہ دے۔خوش رکھے۔کبھی کسی کا مختاج نہ کریں۔۔عورت ان
جملوں کو دہراتی دہراتی دروازے سے تھوڑا اور آگے بڑھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارہ کو ترس آ رہا تھا ۔ وہ کھڑی عورت کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
جاؤ !سارہ سامنے کمرے سے اپنے ابو کی قمیض سے دس روپے نکال کر دوں۔۔۔میرے
پاس تو کوئی دس کا نوٹ نظر نہیں آرہا۔( سارہ کی ماں نے سارہ سے
کہا۔۔۔۔)اوردینے کے بعد یاد سے دروازہ بند کر لینا۔۔۔۔۔۔(یہ کہنے کے بعد وہ
نماز پڑھنے چلی گئی۔۔۔۔)
یہ کمرہ دروازے کے بالکل قریب تھا۔۔سارہ کچھ بھی سوچے بغیر کمرے میں داخل
ھوگئی ۔۔۔۔۔اور بتائی گئی بات پر عمل کر نے لگی۔
سارہ پیسے نکال کر ابھی مڑنے لگی ہی تھی ۔۔۔۔۔کہ اسے احساس ھوا کے کوئی اس
کے پیچھے کھڑا ھے ۔۔۔۔۔اسے خوف محسوس ھوا۔۔۔۔۔۔بڑی ھمت اور تیزی سے وہ
پیچھے مڑی۔۔۔۔۔۔جتنی تیزی سے وہ مڑی تھی اتنی تیزی سے ہی چاقو سے وار کیا
گیا۔۔۔۔۔۔۔
عورت چاقو سے وار کرنے کے بعد نو دو گیارہ ھو گئی۔۔۔۔۔۔
چاقو اتنی تیزی سے لگا تھا کہ سارہ کی آواز ہی نہ نکل سکی۔۔۔سارہ ذمین پر
گری ۔۔۔۔۔وہ اپنی طرف سے شور مچارہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ شور دوسروں کو
بلانے کے لیے بہت کم تھا ۔۔۔۔۔۔
توڑی دیر بعد سارہ کا بھائی گھر آیا۔دروازہ کھولا دیکھ کر سید ھا سامنے
والے کمرے کے سامنے لگی کرسیوں میں بیٹھنے لگا ۔۔۔۔مگرکچھ الفاظ نے روک
دیا۔۔۔۔۔مجھے نہیں مرنا—کوئی ذندگی دے دوں ۔۔۔۔۔۔۔
یہ سارہ کے الفاظ تھے۔۔
سارہ کا بھائی اس کو ایسی حالت میں دیکھ کر پریشان ہو گیا۔امی ابو کو
آوازیں دینے لگا۔۔۔۔۔۔مگر سب بکار تھا ۔۔۔۔۔۔اس نے فوراً ریسکیو کو فون
ملایا۔۔۔۔۔۔۔
۔مجھے نہیں مرنا—کوئی ذندگی دے دوں ۔۔۔۔۔۔(وہ مسلسل ان الفاظ کو دہرا رہی
تھی)
میں تمھے کچھ نہیں ھونے دوں گا۔۔۔۔۔۔بھائی نے بہت حوصلہ جمع کر کے جواب دیا
تھا۔۔۔۔۔(کچھ منٹ لگے اور ریسکیو گھر کے سامنے آ پہنچی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
وہ یہ الفاظ ہی کہہ پائی تھی کہ سانس نے ساتھ چھوڑ دیا——-میں نے تو انسانیت
سے محبت کی تھی————
بھائی نے ہاتھوں میں اٹھا کر ریسکیو میں ڈالا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،
آپ سارہ کو ذندگی دے بھی سکتے ہیں اور چاھے تو مر جا نے بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔آئیں !
غور کرتیں ھیں۔۔۔۔
،، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،
ملک میں کرونا پھیلنے کے خدشات بڑھتے جارہے تھے۔۔۔کہ حکومت کو فورا دو
ہفتوں کے لیے ملک کو بند کرنا پڑھا۔۔۔۔ صرف ادویات کی اور کھانے پینے کی
اشیاء کی دوکانیں کھولی تھی۔۔۔۔۔۔۔لوگوں کو بھی باہر نکلنے سے منع کیا گیا
تھا ۔۔۔۔لوگ گاوں کے اندر توآسانی سے نکل سکتے تھے مگر گاوں سے باہر دو لوگ
اک ساتھ نہیں نکل سکتے تھے سارہ کو مارنے والی عورت پولیس کو دیکھ کر
بھاگنے لگی مگر کامیاب نہ ھو سکی۔ اسی پیشںِ نظر سارہ کو مارنے والی عورت
پولیس کے ہاتھ چڑگئی۔۔۔
عورت کا بیان :ملک پندرہ دن کے لیے بند تھا ۔آج گیاروں دن تھا۔گھر میں
کھانے کےلیے کچھ نہیں ہیں ۔بچےبھوکے ھیں۔میں دس دن سے ایسے لوگوں کے گھر جا
رہی تھی ۔جو راشن بانٹ رہے تھے۔مگر کسی نے راشن نہ دیا۔ یہ کہہ کر کے
تمھارا تو شوہر ذندہ ہے تم تو خود بھی کسی کے گھر کام کرتی ھوں ۔تم اس راشن
کی حق دار نہیں ھوں۔
میں جہاں کام کرتی تھی۔ انھوں نے مجھے اک مہینہ پہلے فارغ کردیا تھا ۔یہ
کہہ کر کے میری اب ضرورت نہیں ہے۔ میں نے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اور کام
بھی تلاش کیا تھا ۔ مگر کسی نے بیماری کے باعث کام پے نہیں رکھا۔ پھر میں
نے مسواک بیچنا شروع کی ۔لیکن وہ محنت بھی ضائع گئی۔ کسی نے مسواک بھی نہ
لی۔
پھر میں نے گھر گھر مانگنا شروع کیا۔تو مجھے اتنے پیسے اکٹھے بو گئے کہ
میرا اک ہفتہ سکون سے گزسکتا تھا۔میں بہت خوش تھی آج میرے بچے پیٹ بڑھ کر
کھانا کھائے گئے۔۔۔۔۔لیکن ایسا نہ ھو سکا۔میں ابھی راستے میں ہی تھی کہ
میرے پاس اک گاڑی آ کر روکی۔۔۔ لڑکے تھے انہوں نے مجھے سے سارے پیسے چھین
لئے ۔۔۔۔اور چلے گئے ۔۔۔۔ میں روتی دوتی گھر گئی۔میرے شوہر نے مھجے بہت
مارا۔اس لیے کے میں سارہ دن گھر سے باہر تھی مگر لے کر کچھ نہیں آ ئی۔مجھے
دکھ اس بات کا نہیں تھا کہ مجھے مارا۔ دکھ تو یہ تھا کے آج پھر میرے بچے
بھوکے سوگے۔۔۔۔۔آگلے دن میں نے ارادہ کیا کہ کل اپنے ساتھ چاقو لے کر جاؤ
گئی ۔۔۔تاکہ کوئی مجھ سے پیسے نہ چھین سکے۔
لیکن آج کا منظر تبدیل تھا۔آج اگر کسی کے گھر کا دروازہ کٹکٹاتی تو۔۔ہر طرف
سے اک ہی آواز آ تی معاف کریں۔اک گھر کا ہی دروازہ کھولا گیا تھا بس۔اس
عورت نے بھی بہت ذالیل کیا۔میں کوئی معانگنے والی نہیں تھی۔میرے پاس کوئی
راستہ نہیں تھا اگر میں خالی ھاتھ گھر جاتی تو میرے شوہر نے مجھے رات کی
طرح پھر مارنا تھا ۔
لڑکی کے ہاتھ میں بٹوا دیکھ کر مجھے لگا کہ میں ایسے ہی کامیاب ھو جاؤ گئی
مگر چاقو مارنے کے بعد میری ہمت ہی نہیں ھوئی کہ میں بٹوا اٹھا سکو۔میں نے
بھاگنا مناسب سمجھا۔۔۔۔
عورت کا بیان قلم بند کر لیا گیا۔۔۔۔۔۔
یہ سب بتانے کا صرف اک ہی مطلب ہے
آئیں ! مل کر اپنا فرض ادا کرے۔کمزور طبقے کا خیال رکھے۔کمزور طبقے کا خیال
رکھنا صرف حکومت کا کام نہیں ۔۔۔۔۔آئیں کہی انسانیت قضا نہ ھو جائے۔
راشن دیتے وقت یہ مت سوچے کے اس کا شوہر زندہ ہے مگر یاد رکھے کے ملک بند
ہے۔آئیں !مل کر ملک کو خوش حال بنئے ۔۔۔۔
آؤ۔کہی انسانیت سے محبت کرنے والے معصوم کلیوں کی قضا نہ ھو جائے۔۔۔۔۔
۔
|