ملک اور دنیا بھر میں حال میں پھیلے کوروناوائرس یا کووڈ
19کی وجہ سے صورتحال سنگین نوعیت کی ہوچکی ہے ،اور تقریباً ایک مہینے سے
ہندوستان میں لوگ گھرمیں قید ہیں ،ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عرصہ میں
گھریلوماحول،معاشرے اور انفرادی طورپر بھی تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں ، سوشل
میڈیا اور ٹک ٹاک پر اپنی قابلیت اور صلاحیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ
ہزاروں لاکھوں انسان اپنی صلاحیت کواپنے ہنراور فن کے ذریعے پیش کررہے ہیں
،جبکہ ایک حیرت انگیز اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مطالعہ کا شوق نئے انداز میں
ابھرا ہے ،جوکہ مکمل طورپرزوال کی طرف تھا اور کئی پیشوں میں یہ فطری امر
بھی ہے، روزنامہ انقلاب کے مرحوم ایڈیٹرفضیل جعفری صحافت سے پہلے تنقید
نگار کے طورپرمشہوررہے اورساتھ ساتھ اورنگ آباد میں گورنمنٹ کالج اور پھر
بوہرہ انتظامیہ کے تحت برہانی کالج ممبئی میں درس وتدریس کے فرائض انجام
دیئے تھے،جہاں ایک تنازع کے بعد علیحدگی اختیار کرلی تھی،ان کا کہنا تھاکہ
صحافت میں آنے کے بعد زندگی کے اوقات بدل گئے ہیں ،چائے پینے کے انداز کے
ساتھ ہی کئی مصروفیات محدود ہوگئی ہیں اور مطالعہ تو بالکل بند سا ہوگیا ہے
،میرا بھی یہی حال ہوا ،ممبئی میں ایک ہی اردوصحافی شکیل رشید کا یہ شوق
برقرارنظرآتا ہے،جوکہ سوشل میڈیا پر ان کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے اور
کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ مطالعہ میں وہ کافی سرگرم ہیں۔
خیررقم الحروف نے بھی اس شوق کو دوبارہ ابھارا اور گزشتہ 21دنوں میں کئی
کتابوں کا مطالعہ کرڈالا ہے ،اور یہ سلسلہ جاری ہے، جو کتابیں مطالعہ
رہیں،ان میں صف اول پر مولانا ابوالکلام آزاد کا ترجمانُ القرآن،ڈاکٹر رفیق
زکریا کی محمد اور قرآن، انہوں نے سلمان رشدی کو اس کی متنازع کتاب کے جواب
میں اس کتاب کولکھ کر بھرپورجواب دیا تھا،بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی
میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات پر مبنی سری کرشنا کمیشن رپورٹ کا
ازسرنوجائزہ لیاہے اور اس لاک ڈاؤن میں میں نے ہندوستانی مسلمانوں کی
سماجی،معاشی ،اور اقتصادی ابتری کی داستان سنائی جانے والی جسٹس سچر کی
’سچر کمیٹی رپورٹ‘ کا مطالعہ کیا ہے جوکہ ہر ایک ہندوستانی کو کرنا چاہئیے
خصوصی طورپر اقلیتی فرقے کے نوجوانوں کو سچرکمیٹی پڑھنی چاہئیے ،جس نے
ہندوستان حکومت کو آئینہ دیکھایا ہے اوران دائیں بازو کے سیاستدانوں کو بھی
جو منہ بھرائی کا نعرہ بند کرتے رہتے ہیں، جبکہ دوسرے دورکے لاک ڈاؤن میں
دستورہند کا ازسرنوجائزہ لینا شروع کردیا ہے تاکہ میرے اور ایک عام
ہندوستانی کے حقوق کاعلم ہوسکے ۔
دہلی کے ایک اخبار میں میرے ایک ساتھی نے گزشتہ ہفتے ٹیلی فون پر گفتگو کے
دوران اردوصحافت اور اخبارات کی منزل بہ منزل ترقی کے بارے میں لکھنے کا
ذکر کرکے میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ۔دراصل اس بات کا ذکر کردو کہ ان
حالات میں یہ ہوا ہے کہ نقل وحمل کے مکمل بند رہنے کے سبب سبھی لوگ گھرسے
اپنا کام انجام دے رہے ہیں اور یہی اخباری دنیا میں بھی ہورہا ہے ،اوریہ
بھی ہوا ہے کہ اخبارات تقسیم نہیں ہورہے ہیں ،لیکن ویب سائٹس اور واٹس اپ
پر پی ڈی ایف فائل دستیاب ہیں،بلکہ ایسا ہوا کہ اب ہم کئی کئی اخبار پڑھ
رہے ہیں ،اردواخبارات بھی ہمیں اسی انداز میں موصول ہورہے ہیں ،کچھ عرصہ
قبل پونے کے ایک معروف ماہرتعلیم اور اعظم ایجوکیشن ٹرسٹ کے چیئرمین پی اے
انعامدار نے نئی ٹیکنالوجی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں
اخبارات کا انداز بھی بدل جائے گا اور ویب کی دنیا حاوی ہوجائے گی ۔پونے
میرے قیام کے دوران ان سے قوم وملت کے حالات پر ہمیشہ تفصیلی گفتگو ہوتی
رہی ہے۔سوپرنٹ میڈیا کا بدلتا رنگ آج ہمارے سامنے نظرآرہا ہے ،میں نے صحافت
کے خود تین دوردیکھے ہیں اور اب قدم چوتھے دورمیں داخل رکھ دیا ہے ۔میرا
صحافتی سفرجو اب بھی رواں دواں ہے ،تقریباً تیس سال پر مبنی ہے ۔اس سے قبل
میں کتابی اور اخباری کیڑا تھااوربچپن سے اس شوق نے پہلے مراسلات اور پھر
چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنے کے شوق نے شعبہ صحافت سے وابستہ کردیااور یہ کاتب
تقدیر کا فیصلہ تھا ۔اس میں بڑے بھائی صابر شیخ کی کتابوں کا بڑا عمل دخل
رہاہے،یہیں سے میراشوق پروان چڑھ گیا۔اردوصحافت کاآغاز ہندوستان میں فورٹ
ولیم کالج سے ہونے کی روایت ہے ،جہاں سے جان جہاں نماجاری کیا گیا ہے ،لیکن
ممبئی میں بھی فارسی اخبارات کے ساتھ 1835کے آس پاس اردوضمیمہ بھی نکلنا
شروع ہوگئے اور پھر شمالی ہنداور لاہوروغیرہ کے بعد ممبئی بھی ایک بڑا مرکز
بن گیا ،فی الحال تفصیل میں جانے کا موقعہ نہیں ہے ،انقلاب کے بانی مرحوم
عبدالحمید انصاری اور روزنامہ ہندوستان اردوکے غلام احمد خاں آرزو ممبئی کی
صحافت میں آزادی سے قبل اور بعد کے 25سال انہوں نے اپنی ایک علحیدہ شناخت
بنائی رکھی تھی۔پہلا آفسیٹ پریس انقلاب نے 1960 کی دہائی میں نصب کیا اور
ٹیلی پرنٹر بھی اس کے دفتر میں داخل ہوچکا تھا۔کیونکہ میں بانی انقلاب کی
سوانح نگار ہوں۔تو پرانی بوسیدہ فائلوں کے کاغذ اور پرنٹنگ کو میں اعلیٰ
درجے کا پایا جبکہ 1940کی دہائی کے پرچوں میں تجارت اور مندی یا کساد
بازاری پر بھی مضامین میری نظروں سے گزرے ہیں۔
ممبئی میں کالج کی تعلیم کے دوران ہی 1989میں دیڑھ دوسال اردوٹائمز میں
خدمات انجام دینے کے بعدمیں نے روزنامہ انقلاب میں قدم رکھاتھا،تب پرنٹٹنگ
تو آفسیٹ پر ہوتی تھی ،لیکن بٹرپیپر پرہی کتابت ہوتی تھی ،لیتھو اورپتھر کا
دورسے اردواخبارات باہر نکل چکے تھے۔البتہ دوشفٹوں میں کاتب حضرات کام کرتے
تھے اور ان کی تعدادسب ایڈیٹرس اور رپورٹرس اور دیگر عملے کے افراد سے کافی
زیادہ تھی ،اور کئی کئی اوورٹائم بھی کرتے تھے،1990کی دہائی شروع ہونے کے
ساتھ اردوان پیج یا نستعلق نے دستک دے دی ،اردوڈی ٹی پی کاداخلہ آہستہ
آہستہ اردواخباری دنیا میں شروع ہوگیا۔کیونکہ انقلاب کے مالک
خالدانصاری1979میں ایک انگریزی شامنامہ مڈ ڈے نکال چکے تھے اور دس سال میں
اس نے ترقی اور شہرت کی بلندیاں چھولی تھیں تو اس عرصہ میں،میں جب وہاں
پہنچا تو نئی نئی ٹیکنالوجی سے روبروہوا۔جودوسرے اخبارات میں نہیں
تھیں،1990کے عشرے کے آغاز میں اردوڈی ٹی پی نے دستک دے دی تھی ،مجھے اچھی
طرح یاد ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں جنوبی ممبئی کے محمد علی روڈ پر
گودریج کے ٹائپ رائٹر کے شوروم میں اردوٹائپ رائٹردیکھ کر خوش ہوتا تھا،وہ
چند ایک سرکاری دفاتر اور اردواسکولوں میں رہتا تھا۔لیکن کمپیوٹرنے تو
اردوکی دنیا ہی بدل کر رکھ دی ۔وعدے کے باوجود کاتب حضرات پر تلوارلٹکنے
لگی اور کیونکہ کمپنی کے اعلیٰ عہدیداران منافع پر نظررکھتے تھے ،اس لیے
انہیں کتابت مہنگی لگنے لگی اور وقت کی بچت بھی ضروری تھی،پھرچندسال میں
ایک نئے دورکا آغاز ہوا۔ 1995میں تواردواخبارکا دفتر بھی بدل گیااور ایک
ٹھنڈے اے سی اور روشنیوں والے دفتر میں کمپیوٹروں کے ساتھ بیٹھنے لگے ۔
مجھے اچھی طرح یادہے کہ ایک بار فضیل جعفری کی ایڈیٹری کے زمانے میں معروف
ادیب ونقاد گوپی چند نارنگ دفتر تشریف لائے توبلاجھجھک اس بات کا اظہار
کیاتھا کہ ’’میرے تصورمیں بھی نہیں تھا کہ اردواخبار کا دفتر اتنا اچھا اور
شاندار اورتمام ترسہولیات سے آراستہ ہوگا۔‘‘ راقم الحروف ممبئی کے ان چند
صحافیوں میں صف اول میں رہا، جنہوں نے اردوڈی ٹی پی پر ہاتھ صاف کیا ،دوسرے
سب ایڈیٹر عالم رضوی اور خاتون صحافی ریحانہ بستی والا تھیں،جوبی بی سی
اردوسروس میں بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔پہلے انگریزی ٹائپینگ سے کچھ حد
تک واقف تھا ،جس سے کافی مدد ملی تھی،یہاں بتاتا چلوں کے ممبئی میں انقلاب
سے بھی پہلے روزنامہ ہندوستان کے مدیرسرفراز آرزو نے اردوڈی ٹی پی سے لیس
کمپیوٹر نصب کرلیے تھے ۔ایک دور ایسابھی آیا کہ کاتب حضرات نے بھی حالات سے
سمجھوتہ کرلیا اور قلم چھوڑکر ’کی بورڈ‘ پر انگلیاں چلانے لگے۔نئے دورمیں
نیا انداز تھا ،نئی نسل والوں کو رپورٹنگ میں لے لیا گیا ،ویسے اردوان پیج
سے سرخیوں کو بھی متاثرکن بنانے میں بھی کاتب اور آپریٹر ماہرہوگئے، جیسے
ماضی میں وہ قلم سے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے تھے۔
صحافتی دنیا نے ایک بار پھر کروٹ لی اور اس کا فائدہ اردوصحافت نے بھی بھر
پورانداز میں اٹھا یا ہے اور ان پندرہ بیس برسوں میں اپنے انداز اور
طورطریقے بدلنے میں کامیابی حاصل کی ہے ،ویب سائٹس پر تو اردواخبارات
دودہائیوں سے نظرآرہے ہیں ،اور مقامی اخبارت عالمی سطح پر پڑھے جارہے ہیں
،اردوبرصغیئر سے نکل کر خلیجی ممالک ،امریکہ ،کینڈا،برطانیہ ،جاپان اور
وسطی ایشیاء اور ایران تک اپنے پیرپسار چکی ہے ، 2005میں امریکہ میں شکاگو
میں دوتین بازار میں جنوبی ہند کے باشندوں کی زبانوں اردو،ہندی ،بنگالی
اورگجراتی کے سائن بورڈ اور اردواخبارات کے دفاتر کی تختیاں دیکھ کر حیرت
زدہ رہ گیا،آج ویب سائٹس سے ترقی کے پورے مواقع فراہم کیے ہیں،اسمارٹ
موبائل فون کی اردوسمیت دیگر زبانوں کی کی بورڈ نے بہت کچھ آسان کردیا ہے،
لیکن کورونا وائرس کے اس دورمیں دنیا کا جوانداز بدلا ہے ،اس دورمیں
اردواخبارات بھی نظرآرہے ہیں ،ٹیکنالوجی کی وجہ سے اخباری عملہ گھر میں
بیٹھ کر نئے سیٹ اپ کے تحت بھر پور انداز میں کام کررہا ہے ،اس کا تصوربھی
نہیں کیا جاسکتا ہے ،فی الحال تفصیل کی گنجائش نہیں ہے ،لیکن بتاتا چلوں کہ
میں نے روزنامہ راشٹریہ سہارامیں ملازمت کے دوران کئی مرتبہ ممبئی
،بنگلوراور حیدرآباد کے ایڈیشن بزرگ صحافی عزیز برنی کی سرپرستی سے نویڈا
دفتر کے رابطہ سے لکھنؤاور پٹنہ دفاتر کی مددسے نکالے ہیں،جوکہ سہار کے
گروپ ایڈیٹررہے چکے ہیں، جبکہ ممبئی دفتر سے دیگر مراکز کو بھی مددکی تھی
۔یہ آج بھی ہورہا ہوگا۔ ہم نے کسی دفتر کے نہ ہوتے ہوئے کرناٹک میں ہبلی
اور بیلگام سے چندسہارا کو شائع کروایا تھا۔
کوروناوائرس نے دوسرے اخبارات کی طرح اردواخبارات کا رنگ وروپ بدل دیا
ہے،کام کرنے کا یاطریقہ ایجاد ہوا چکا ہے ،بس آئندہ اس کے لیے کیا طریقہ
کار اختیار کرنا چاہئیے ،اس پر غورکرنا ہوگااور کیا ممکن ہیپر گفتگو ہونا
چاہئیے ،ویسے اردواخبارات کے بارے میں میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ میں
نے جو ریسرچ کی اس سے احسا س ہوتا ہے کہ اردواخبارات کے ملکان وانتظامیہ
کسی بھی دورمیں ٹیکنالوجی کو اپنانے میں کبھی پیچھے نہیں رہے ،روزنامہ
سیاست نے تو سب سے پہلے پہل کرکے جدید انداز دیڑھ دودہائی قبل بھی اپنالیا
ہے۔ٹیکنالوجی سے الگ ہٹ کر یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان اخبارات نے چند
ایک کو چھوڑکراپنی ملت کو کبھی فرقہ پرستی کے لیے نہیں اکسایا ہے ،صرف ملک
اورقوم کی ترقی کی بات کی ،البتہ ملت کے مفادات کو ہمیشہ ترجیح دی ہے اوران
کے خلاف ہونے والی ناانصافی کی آواز حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچانے میں
پیچھے نہیں رہے ہیں۔
|