حاملہ اور مرضعہ رمضان کے چھوٹے روزوں کی قضا کرے گی

حاملہ اور مرضعہ کے چھوٹے روزوں سے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ، میں نے اختصار سے اس مسئلے کو بیان کرنے کوشش ہے ، اﷲ سے دعا ہے کہ مجھے صواب ودرستگی کی توفیق دے۔
حاملہ(حمل والی) اور مرضعہ(بچے کو دودھ پلانے والی) کے لئے رمضان کے روزوں سے متعلق دو حالات ہوسکتے ہیں ۔
پہلی حالت : یاتو حاملہ اور مرضعہ کو روزہ رکھنے میں اپنے لئے یا بچے کے لئے مشقت نہیں ہوسکتی ہے ایسی صورت میں انہیں رمضان کا روزہ رکھنا چاہئے ۔
دوسری حالت: یا پھر روزہ رکھنے میں انہیں اپنے لئے یا بچے کے لئے مشقت محسوس ہوسکتی ہے ایسی صورت میں حاملہ یا مرضعہ رمضان کے روزے چھوڑ سکتی ہے اور جب مشقت دور ہوجائے تب رمضان کے چھوٹے روزوں کی قضا کرے گی ۔
یاد رہے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ حاملہ اور مرضعہ رمضان کے چھوٹے روزوں کی قضا نہیں کرے گی بلکہ فدیہ دے گی ، یہ بات درست نہیں ہے ۔ صحیح اور درست بات یہ ہے کہ حاملہ اور مرضعہ اگر رمضان میں مشقت کی وجہ سے روزہ ترک کرتی ہے تو بعد میں ان روزوں کی قضاکرے گی ۔ اس بات کو دلیل سے سمجھنے کے لئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ حاملہ اور مرضعہ کس حکم میں داخل ہیں ؟
ہم حاملہ اور مرضعہ کو ضعیف العمر بوڑھی عورت کے حکم میں نہیں مان سکتے کیونکہ نہ اس بارے میں شریعت سے کوئی دلیل وارد ہے اور نہ ہی مشاہدہ وتجربہ میں وہ بوڑھی ہے کہ کبھی بھی روزہ نہیں رکھ سکتیں بلکہ وہ وقتی طور پر روزہ رکھنے سے قاصر ہیں بعد میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتی ہیں ۔ ابن ماجہ کی صحیح الاسناد حدیث پر غور کرکے اس کا حکم جانتے ہیں ۔ نبی ﷺکا فرمان ہے :
إنَّ اللَّہَ عزَّ وجلَّ وضعَ عنِ المسافرِ شطرَ الصَّلاۃِ، وعنِ المسافرِ والحاملِ والمرضعِ الصَّومَ(صحیح ابن ماجہ وقال الشیخ الألبانی حسن صحیح:1361)
ترجمہ: اﷲ تعالی نے مسافر کے لئے آدھی نماز معاف فرما دی اور مسافر اور حاملہ اور دودھ پلانے والی کو روزے معاف فرما دیئے۔
الفاظ حدیث پہ غور کریں کہ واؤ عاطفہ کے ذریعہ نبی ﷺنے مسافر، حاملہ اورمرضعہ کا حکم بتایا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں روزہ کے باب میں مسافر کی طرح ہیں یعنی جس طرح مسافرکو حالت سفر میں مشقت کی وجہ سے روزہ چھوڑ نے کی رخصت دی گئی ہے بعد میں وہ ان روزوں کی قضا کرے گا ،ٹھیک اسی طرح حاملہ اور مرضعہ بھی مشقت کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑ سکتی ہے اور رمضان بعد جب انہیں مشقت سے راحت ملے تب ان روزوں کی قضا کریں گی ۔
اب مسافر کے روزوں کی رخصت کو قرآنی آیت کے تناظر میں دیکھتے ہیں ، اﷲ تعالی کا فرمان ہے : فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیضًا أَوْ عَلَیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ (البقرۃ:184)
ترجمہ: تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کرلے۔
یعنی یہ بیمار اور مسافر کو رخصت دی گئی ہے کہ وہ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان المبارک میں جتنے روزے نہ رکھ سکے ہوں ،وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کرلیں ۔(تفسیر احسن البیان)
یہاں پر اﷲ تعالی نے مسافر کو مریض کے ساتھ ذکر کیا کیونکہ دونوں کی حالت میں مشقت پائی جاتی ہے اس لئے دونوں کا حکم یکساں ہے ، وہ یہ کہ حالت سفر کی مشقت سے یا مرض کی مشقت سے جو روزے چھوٹ جائیں انہیں بعد میں (مشقت دور ہونے پر )پورے کئے جائیں ۔
ابن ماجہ کی مذکورہ حدیث اور سورہ بقرہ کی مندرجہ بالا آیت کو ملاکردیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملہ اور مرضعہ مسافر کے حکم میں ہیں اور مسافر مریض کے حکم میں ہے گویا حاملہ اور مرضعہ مسافر ومریض کے حکم ہوئیں، اس وجہ سے حاملہ اور مرضعہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی بعد میں قضا کریں گی ۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ حاملہ اور مرضعہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ دیں گی ، ان کی بات صحیح نہیں ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ اہل علم حاملہ اور مرضعہ کے حکم کی وضاحت نہیں کرتے ، دوسری وجہ ہے کہ حاملہ ومرضعہ کو بوڑھی عورت پر قیاس کرنا غلط ہے اس کا ذکر پہلے کرچکا ہوں ، تیسری وجہ یہ ہے کہ فدیہ کے سلسلے میں فرمان رسول میں کوئی صراحت نہیں ملتی اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ ایک نص کی وضاحت جب دوسرے نصوص سے ہوتی ہو وہاں آثار واقوال مرجوع قرار پائیں گے اس وجہ سے فدیہ سے متعلق ابن عباس والا اثر مرجوع قرار پائے گا نیز حضرت علی سے تو بصراحت قضا کرنا منقول ہے۔
 

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 315 Articles with 313116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.