ماہِ رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت

رمضان المبارک کو کلام ِ الٰہی کے ساتھ خاص مناسبت ہے، اسی وجہ سے تلاوت کی کثرت اس مہینے میں منقول ہے اور مشائخ کا معمول۔ [فضائل رمضان]اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ} رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردیتی ہیں۔[البقرۃ] نیز سورۂ قدر میں فرمایا:{اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ}بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔ [القدر]

حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے ،رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:صحفِ ابراہیم علیہ السلام رمضان کی تیسری تاریخ میں، تورات چھٹی تاریخ میں ،انجیل تیرھویں تاریخ میں،زبور اٹھارھویں تاریخ میںاور قرآن مجید چوبیسویں تاریخ میں نازل ہوا۔[الغنیۃ الطالبین]

حدیثِ مذکور میں پچھلی کتابوں کا نزول جس تاریخ میں ذکر کیا گیا ہے، اُسی تاریخ میں وہ کتابیں پوری کی پوری انبیا پر نازل کردی گئی ہیں، قرآنِ کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ رمضان کی ایک رات میں پورا کا پورا لوحِ محفوظ سے سماے دنیا پر نازل کردیا گیا، مگر نبی کریمﷺ پر اس کا نزول تیئیس سال میں رفتہ رفتہ ہوا۔رمضان کی وہ رات جس میں قرآن نازل ہوا، قرآن ہی کی تصریح کے مطابق شبِ قدر تھی{ اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ} ۔

مذکور الصدر حدیث میں اس کوچوبیس رمضان کی شب بتلایا ہے اور حضرت حسن کے نزدیک چوبیسویں شب شبِ قدر ہوتی ہے۔ اس طرح یہ حدیث آیتِ قرآن کے مطابق ہوجاتی ہے اور اگر یہ مطابقت نہ تسلیم کی جائے تو بہ ہرحال قرآنِ کریم کی تصریح سب پر مقدّم ہے، جو رات بھی شبِ قدر ہو، وہی اِس کی مراد ہوگی۔ [معارف القرآن]

رسول اللہ ﷺ کا مبارک معمول
حضرت عبد اللہ بن عباسؓبیان کرتے ہیں: حضرت جبریلؑ رمضان کی ہر رات میں حضرت نبی کریم ﷺ سے ملتے تھے اور آپ ﷺ انھیں قرآنِ کریم سناتے تھے۔[ بخاری، مسلم]

رمضان المبارک میں تلاوت کا ثواب
حدیث شریف میں ہے کہ ماہِ رمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابراور ایک فرض کا ثواب ستّر فرضوں کے برابر ملتا ہےیعنی جو عمل بھی ماہِ رمضان میں کیا جائےوہ غیر رمضان کے عمل سے ستر گنازیادہ ہوتا ہے۔پس اگر کو ئی رمضان المبارک کے مہینے میں ایک حرف کی تلاوت کرے تو اُسے اِس کے بدلے سات سو نیکیاں ملیں گی اور اگر کوئی مسجدِ حرام میں اس مبارک مہینے میںایک حرف کی تلاوت کرے گا،اُسے ستّر لاکھ نیکیاں ملیں گی او رجو شخص پورا قرآن وہاں ختم کر لے،اُس کا ثواب۳۳؍کھرب،۸۵؍ارب اور ۱۸؍ کروڑ ہو جائے گا۔ [مستفاداز فضائلِ حفظِ قرآن]

اسلاف کا معمول
رمضان آتا تو حضرت سفیان ثوریؒ تمام نفلی عبادات سے الگ ہو کر تلاوتِ قرآن میں مشغول ہو جاتے۔ضرت امام نخعیؒپورے رمضان میں ہر تین دن میں ایک قرآنِ کریم ختم فرماتے اور آخری عشرے میں ہر رات میں ایک ختم فرماتے تھے۔حضرت قتادہؒ عام دنوں میں ہر سات دن میں ایک ختم فرماتے تھے اور رمضان المبارک میں ہر تین دن میں ایک ختم فرماتے تھے اور آخری عشرے کی ہر رات میں ایک قرآنِ کریم ختم فرماتے تھے۔[نداء الریان]

یہی معمول ہمارے اکابر علماے دیوبند کا بھی تھا۔حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی صاحبؒتحریر فرماتے ہیں: حضرت اقدس مولانا شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ تراویح کے بعد سے صبح کی نماز تک نوافل میں مشغول رہتے تھے اور یکے بعد دیگرے متفرق حفاظ سے کلام مجید سنتے رہتے تھے اور حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری قدس سرہ کے یہاںتو رمضان المبارک کا مہینہ دن ورات تلاوت ہی کا ہوتا تھا کہ اس میں ڈاک بھی بند اور ملاقات بھی ذراگوارا نہ تھی ۔بعض مخصوص خدام کو صرف اتنی اجازت ہوتی تھی کہ تراویح کے بعد جتنی دیر حضرت سادی چائے کے ایک دو فنجان نوش فرمائیں ،انتی دیر حاضرِ خدمت ہو جایا کریں۔ [فضائل رمضان]

خود شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒکا برسہا برس یہی معمول رہا،تحریر فرماتے ہیں:۱۳۳۸ھ سے ماہِ مبارک میں ایک قرآن روزانہ پڑھنے کا معمول شروع ہوا تھا، جوتقریباً ۱۳۸۰ھ تک رہا ہوگا بلکہ اس کے بھی بعد تک۔۔۔اللہ کے انعام وفضل سے سالہا سال یہی معمول رہا ،اخیر زمانے میں بیماریوں نے چھڑا دیا۔[آپ بیتی]

کثرتِ تلاوت پر اشکال اور اس کا جواب
بعض لوگوں کو اس قدر تلاوتِ کلام پر ایک اشکال یہ ہوتا ہے کہ یہ ممکن ہی کیسے ہے ؟ جب کہ انسان کے ساتھ بہت سی ضروریات ہر وقت لگی ہوئی ہیں،اس کا جواب ’برکت‘ ہے ، جو معترضین کی زندگیوں میں موجود نہیں۔دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حدیث میں ہے؛ لَا یَفقَہ من قرأ القرآنَ فی أقل من ثلاث۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم کیا ،وہ اُسے سمجھ نہیں سکا۔[ابوداود، ترمذی]لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ تفقہ اور تلاوت میں فرق ہوتا ہے۔

نیز علامہ طیبیؒ فرماتے ہیں : یہاں مراد یہ ہے کہ جس شخص نے تین دن یا تین رات سے کم میں قرآن ختم کیا ، وہ قرآن کے ظاہری معنی تو سمجھ سکتا ہے لیکن قرآن کے حقائق و معارف اور دقائق و نکات تک اس کی رسائی نہیں ہوتی ، کیوں کہ ان چیزوں کو سمجھنے کے لیے تین دن تو بہت دور کی چیز ہے، بڑی سے بڑی عمریں بھی ناکافی ہوتی ہیں ، نہ صرف یہ بلکہ اس مختصر سے عرصے میں تو کسی ایک آیت یا ایک کلمے کے دقائق و نکات بھی سمجھ میں نہیں آسکتے ۔ نیزیہاں نفی سے مراد سمجھنے کی نفی ہے ،نہ کہ ثواب کی نفی، یعنی ثواب تو ہر صورت میں ملتا ہی ہے۔ پھر یہ لوگوں کی سمجھ میں تفاوت و فرق ہے، بعض لوگوں کی سمجھ زیادہ پختہ ہوتی ہے، وہ کم عرصے میں بھی قرآنی حقائق و دقائق سمجھ لیتے ہیں ، جب کہ بعض لوگوں کی سمجھ بہت ہی کم ہوتی ہے ، جن کے لیے طویل عرصہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔

سلف میں سے بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے، چناں چہ ان لوگوں کا معمول تھا کہ وہ ہمیشہ تین ہی دن میں قرآن ختم کرتے اور تین دن سے کم میں ختم کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے ، جب کہ دوسرے لوگ اس کے بر خلاف عمل کرتے تھے ۔ چناں چہ بعض لوگ تو ایک دن رات میں ایک قرآن ختم کر لیتے تھے اور بعض لوگ دو دو بار ، اور بعض لوگ تین تین بار ختم کر لیتے تھے ، بلکہ بعض لوگوں کے بارے میں تو یہاں تک ثابت ہے کہ وہ ایک رکعت میں ایک قرآن ختم کر لیتے تھے۔ہو سکتا ہے ان لوگوں نے یا تو اس حدیث کے بارے میں خیال کیا ہو کہ اس کا تعلق اشخاص کے اعتبار سے مختلف ہے یعنی اس حدیث کا تعلق اُن لوگوں سے ہے جو کم فہم ہوتے ہیں اور وہ اگر تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم کریں تو اس کے ظاہری معنی بھی نہ سمجھ سکتے ہوں یا پھر ان کے نزدیک یہ بات ہو کہ اس حدیث میں فہم کی نفی ہے ، اس صورت میں ظاہر ہے کہ جتنی بھی کم سے کم مدت میں قرآن ختم کیا جائے گا ، ثواب ملے گا۔ [مظاہرِ حق جدید]
٭٭٭٭
 

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 307416 views (M.A., Journalist).. View More