پرانے زمانے کی بات ہے کہ ملک
ایران کے شہر جیلان میں ایک لڑکا پیدا ہوا ۔ ابھی یہ لڑکا چھوٹا ہی تھا کہ
اس کے باپ کا انتقال ہوگیا۔ اس یتیم بچے کی ماں اس کی پرورش کرتی رہی۔جب یہ
لڑکا بڑا ہوا تو اس نے اپنی ماں سے عرض کیا کہ مجھے تعلیم کے لئے بغداد
جانے کی اجازت دے دیں تاکہ میں وہاں جاکر علم حاصل کروں۔ ماں نے دیکھا کہ
بیٹا دینی تعلیم کی طرف زیادہ مائل ہے تو ماں نے اسے تعلیم حاصل کرنے کے
لئے بغداد بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔
سفر کے لئے رخصت کرتے ہوئے ماں نے اس کی گدڑی میں چالیس اشرفیاں سی دیں
تاکہ ضرور ت پڑنے پر اس کے کام آسکیں اور نصیحت کی کہ بیٹا ہمیشہ سچ بولنا
اور ہر معاملہ میں سچائی کو اختیار کرنا۔ بچے نے اپنی ماں کی نصیحت بڑے غور
سے سنی ، اس کے بعد لڑکے کی ماں اسے رخصت کرنے کے لئے باہر آئی اور اسے سفر
کے لئے بغداد جانے والے قافلے کے ساتھ روانہ کردیا۔
جب یہ قافلہ چلتا ہوا ایک سنسان علاقہ میں پہنچا تو ڈاکوﺅں کے ایک گروہ نے
اس قافلے پر حملہ کردیا ۔ قافلہ کے لوگوں میں ان خونخوار ڈاکوﺅں سے مقابلے
کی ہمت نہیں تھی۔ ڈاکوﺅں نے انھیں گھیر کر ان کا سارا مال و اسباب لوٹ
لیا۔اس لوٹ مار میں ڈاکوﺅں نے اس لڑکے کی طرف دھیان نہیں دیا ۔ ڈاکو جب لوٹ
مار کرچکے تو ایک ڈاکو کی نظر اس لڑکے پڑی ، اس نے اس کے قریب جاکر پوچھا
”لڑکے تیرے پاس کیا ہے“ لڑکے نے بغیر کسی خوف و ہراس کے جواب دیا کہ میرے
پاس چالیس اشرفیا ں ہیں۔ ڈاکو کو لڑکے کی بات پر یقین نہیں آیا، کہنے لگا
اشرفیاں کہاں ہیں لڑکے نے ڈاکو کو بتایا کہ اشرفیاں میری گدڑی کے اندر سلی
ہوئی ہیں۔ڈاکو اس بات کو مذاق سمجھ کر آگے بڑھ گیا ۔ اس کے بعد لڑکے کے پاس
ایک اور ڈاکو آیا اس نے بھی پہلے والا سوال دہرایا تو لڑکے نے جو جواب پہلے
ڈاکو کو دیا تھا وہی جوا ب اسے بھی دیا ، اس ڈاکو نے بھی لڑکے کو چھوڑ دیا۔
ان دونوں ڈاکوﺅں نے جاکر جب یہ بات اپنے سردار کو بتائی تو سردار نے کہا کہ
اس لڑکے کو میرے پاس لے کر آﺅ۔ یہ ڈاکو اس لڑکے کو لیکر اپنے سردار کے پاس
آئے، جو اس وقت ایک ٹیلے پر بیٹھا لوٹ مار کا مال اپنے ساتھی ڈاکوﺅں میں
تقسیم کررہا تھا۔سردار نے اپنے ساتھی ڈاکو کی بات سن کر اس لڑکے سے پوچھا
سچ سچ بتا تیرے پاس کیا ہے۔ لڑکے نے پوری سچائی کے ساتھ پھر وہی جواب دیا
۔کہ میری گدڑی میں چالیس اشرفیاں سلی ہوئی ہیں۔
ڈاکوﺅں کے سردار نے لڑکے کی گدڑی کو ادھیڑنے کا حکم دیا، جب گدڑی کو ادھیڑا
گیا تو اس میں سے چالیس اشرفیاں نکلیں۔ سردار بڑا حیران ہوا اور لڑکے سے
بولا ”لڑکے تمہیں معلوم ہے ہم ڈاکو ہیں اور قتل و غارتگری ہمارا پیشہ ہے ۔
پھر بھی تم کو ہم سے خوف نہیں آیا، تمہیں سچ بولنے پر کس چیز نے مجبور کیا
ہے۔لڑکے نے جواب دیا کہ میری ماں نے گھر سے چلتے ہوئے مجھے نصیحت کی تھی
”بیٹا ہمیشہ سچ بولنا “ میں اپنی ماں کی نصیحت کو کیسے بھلا دیتا۔ ان چالیس
اشرفیوں کی خاطر میں اپنا عہد کیسے توڑ دیتا۔ لڑکے کے یہ الفاظ سن کر
ڈاکوﺅں کے سردار کی آنکھوں میں آنسو آگئے، کہنے لگا اے لڑکے ! آفرین ہو تجھ
پر کہ تو نے اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کیا اور اسے یاد رکھا ۔ مگر افسوس ہے
مجھ پر کہ میں نے اپنی عمر لوٹ مار میں ضائع کردی اور اللہ کے حکم کو بھلا
بیٹھا اور اپنے پروردگار سے عہد شکنی کرتا رہا۔ ڈاکو ﺅں کے سردار نے اسی
وقت توبہ کر لی۔ اس کے ساتھیوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو کہنے لگے اے سردار
لوٹ مار میں تو ہمارا سردار تھا اگر تو نے توبہ کرلی ہے تو ہم بھی توبہ
کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ آج کے بعد کبھی کسی کو نہیں لوٹیں گے۔اور
تمام قافلہ والوں کو ان کا لوٹا ہو مال واپس کردیا۔
یہ بہادر اور سچ بولنے والا لڑکا بڑا ہوکر شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کہلایا۔
جنھیں ہم غوث الا عظم کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ کے والد کا نام ابو صالح اور
والدہ کا نام فاطمہ تھا آپ ۰۷۴ہجری میں پیدا ہوئے۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ سچ میں کتنی تاثیر ہوتی ہے سچ بولنے کی
برکت سے کتنے لوگوں نے نجات پائی۔ انسان کو ہر وقت اور ہر حالت میں سچ کا
دامن تھامے رکھنا چاہیئے۔ جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہوتی ہے اور سچے لوگوں کے
ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے۔ کامیابی ہمیشہ سچ بولنے والوں کا مقدر ہوتی ہے۔
آئیے آج ہم عہد کریں کہ ہمیشہ سچ بولیں گے اور جھوٹ کو اپنے قریب نہیں آنے
دیں گے۔ |