ماں بُلاتے ہیں مائی نہیں

گل بخشالوی

امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں دنیا کے ہر خطے کے لوگ آباد ہیں ۔رنگ ونسل کے امتیا ز کے بغیر ہر کوئی مقامی قوانین اور معاشرتی رکھ رکھاﺅ میں زندگی کی بہاروں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔تہذیب ومعاشرتی بے راہ روی کے شکار اس ملک میں آنے والا باوجود کوشش کے اپنے قومی ،مذہبی اور معاشرتی اقدار میں اپنے وجود کو سہارا نہیں دے پاتے ،خربوزے کو دیکھ کر خربوزے رنگ پکڑتے ہیں ۔اور کچھ خربوزے ایسا رنگ پکڑ لیتے ہیں کہ دیسی اور گورے کے اخلاقی عمل میں اپنی پہچان تک سے محروم ہوجاتے ہیں ۔خوش بخت ہیں وہ گھرانے جو مغربی ماحول میں اپنے ،مذہبی ،قومی معاشرتی روایات واقدار کو سینے سے لگائے دیارِ غیر میں قومی شناخت کی شان اور پہچان ہیں۔ایسے گھرانوں کو خواہش ہے کہ اُن کی اولاد اُن کی خواہش کے مطابق زندگی کو نکھاریں ۔لیکن ماحول اور معاشرے کے بے لگام گھوڑے کے آگے بے بس ہیں ۔گھر کے اندر لاکھ مشرقی عظمت مہک رہی ہو ۔لیکن دہلیز سے باہر تو مغربی ماحول ہے ۔اولاد کو گھر میں قید تو نہیں کیا جاسکتا ۔ہاں گھروں میں قید رکھتے ہیں تو شعوری طور پر مغربی ماحول میں اپنی پہچان اور والدین کا احترام کھونے والے اپنے والدین کو رکھتے ہیں ۔امریکہ میں مقیم اُن والدین کا ذکر خیر ہے جو ماں سے مما اور ابو جی سے ڈیڈ بن جانے پر اپنی حیا اور تہذیب کی چادر سے پاﺅں باہر نکال لیتے ہیں ۔ایسے والدین اپنے والدین کو امریکہ بُلاتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ ماں باپ کی تعظیم اللہ کی رضا اور اللہ کی رضا اُمت ِ مصطفی کی جنت ہے ۔امریکہ آنے والے والدین بچوں کی خواہش اور باوقار زندگی کا خواب لے کر آتے ہیں ان میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو گوروں کی زبان جانتے ہیں ۔ایسے والدین امریکہ آکر اپنے بچوں کے گھر میں گرینڈ ما ،اور گرینڈ پا کے اعزاز کے ساتھ مغربی ماحول میں پروان چڑھتے بچوں کی دیکھ بھال کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتے ۔اُن کی حیثیت اپنے بچوں کے گھر میں وہی ہوتی ہے جو اپنے دیس میں گھریلو ملازم کی ہوتی ہے ۔کچھ عرصہ قبل ایک بیوہ ماں ،بیٹی اور داماد کے بُلاوے پر امریکہ آکر بچوں سے پیار کی تنخواہ پر گھریلو ملازمہ بن گئیں اس اُمید پر کہ سبز پتہ ملے گا تو وطن عزیز میں تنہا اُس کا بیٹا بھی مستقبل میں ممکن ہے امریکہ آجائے لیکن بیٹی اور داماد کی نظر میں ماں کی حیثیت صرف زباں کی حد تک محدود ہے یعنی وہ ماں کو ماں ہی بُلاتے ہیں مائی نہیں ۔گرین کارڈ کے انٹرویو کی تاریخ آئی تو بیٹی اور داماد کو اتنی فرصت نہیں ملی کہ ماں کو یہ بتا دیتے کہ انٹرویو میں اُ ن سے کیا پوچھا جائے گا ۔انٹرویو کے دن ماں کے ساتھ اس لیے نہیں جاسکے کہ دونوں کو ماں سے ڈالر عزیز تھے کام پر چلے گئے ۔اور ماں پڑوسی خاتون کے ساتھ انٹرویو دینے گئیں زبان تو جاتنی نہیں تھی معاون تھا کوئی نہیں ۔اس لیے امیگریشن آفیسر کا منہ دیکھ کر گھر واپس آئیں ۔سنا ہے کہ دوسرا انٹرویو ابھی تک اس لیے نہیں ہو سکا کہ مائی کی بیٹی اور داماد کے پا س وقت نہیں کہ دوبارہ انٹرویو کیلئے نئی تاریخ لے لیں ۔ایسی اولاد کیا اُمید رکھتی ہے کہ و ہ اُمت ِ مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بروز محشر سرخرو ہوں گے۔
Subhan Gull
About the Author: Subhan Gull Read More Articles by Subhan Gull: 5 Articles with 5134 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.