میں عالم تو نہیں ایک عام خطا کار انسان ھوں، لیکن بزرگوں
سے سنا ھے کہ دعا عبادت کا مغز ھے اب وہ یقین سے مانگی جائے تو ضرور قبول
ھو گی, مگر کس شکل میں جو میرا مالک میرے لیے بہتر سمجھے گا۔ازرائے تفنن
ایک مسجد میں میرا مولانا صاحب سے مکالمہ ھو گیا، مسجد میں لکھا تھا"یہاں
مانگنا منع ہے" میں کیا مولوی صاحب میں ایک گھنٹے سے مسجد تلاش کر رہا ہوں
کہ جو پریشانیاں، دکھ درد ھیں اللہ کے گھر میں جاؤں اور جا کر مانگوں، یہاں
مانگنا منع ہے کا بورڈ دیکھ کر ڈر گیا ھوں، خیر دعا دراصل ھے کیا ؟مکمل
عاجزی، اور اللہ کو بادشاہ، مالک، رحمان، اور غفور مانتے ھوئے جو آپ کی
زبان ھے، جو آپ کے دل میں ھے، جس ترتیب سے آپ بیان کر سکتے ھوں، اس کے
سامنے درخواست پیش کر دیں اول تو خود سکون آ جائے گا، نہیں تو دلوں کے بھید
وہ بہتر سمجھتا ہے، آپ کی خود احتسابی اور پوری زندگی کے مناظر جو یاد ہیں
دل ودماغ میں تازہ کر کے اس کے سامنے پیش کر دیں، وہ اتنا پیار کرے گاکہ
فرشتوں کو گواہ بنا کر کہے گا دیکھ میرے بندے کو! میں نے نہیں کہا تھا کہ
وہ لوٹ کر میرے پاس آئے گا، حالانکہ سب کچھ اسے پتا ھے مگر فرشتوں سے کہتا
ہے دیکھا میری بہترین تخلیق کا بہترین رویہ، اس نے میرے سامنے دامن پھیلا
کر میری رحمت، معافی اور ربوبیت کو آواز دی ہے اب میری ذمہ داری ہے کہ میں
اسے وسیع معافی کو " ربنا افرغ علینا" کہنے پر صبر، مغفرت اور رحمت اس پر
انڈیل دوں اس نے یہ بھی اقرار کر دیا کہ ھم نے اپنی جانوں پر ظلم کر دیا،
اور تم نے معاف نہ کیا،اور رحم نہ کیا تو ھم خسارے والوں میں سے ھو جائیں
گے۔مالک جب اس منظر کو دیکھتا ہے تو انہی فرشتوں کو کہتا ہے جاؤ اس کے آنسو
پونچھ ڈالو اور معافی کا اعلان کر دو، دیکھا مالک کائنات کو منانا کتنا
آسان ہے۔لیکن اگر ظلم اور سرکشی کر کے اس کے غضب کو آواز دی تو سب خس و
خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔دعائیں انبیاء نے بھی مخصوص الفاظ میں مانگیں،۔
وہ بھی آپ کے سامنے ھیں اصل بات ھے اس کی حاکمیت کو مان کر سب کچھ اس کے
سامنے بیان کر دینا، کورونا لاک ڈاؤن ھو یا رمضان کے یہ بابرکت لمحاتِ مسرت،
تنہائی میں بیٹھ کر اس کے سامنے حاضر ھو جائیں وہ کسی زبان میں ھو وہ سن لے
گا کیونکہ وہ سمعیع و بصیر ھے، وہ علیم اور خبیر ھے، سب سے بڑھ کر تواب
الرحیم ھے۔مشہور افسانہ نگار اور ادیب ممتاز مفتی کہا کرتے ھوتے تھے کہ اگر
ھمیں کوئی کمرے میں بند کر دے اور چھ مہینے بعد نکالے تو ھم ایسے ھوں گے
جیسے کوئی باغ میں کلیوں سے کھیل رہا تھا، اس تنہائی میں اس سے جھولی پھیلا
کر مانگیں ایسے ھوں گے جیسے کسی باغ میں پھولوں کی خوشبو کے ساتھ رہے
ہوں۔یہاں مانگنا منع نہیں بلکہ مانگنا ھی تو عظمت ھے۔ کسی نے کیا خوب کہا
تھا کہ" ہیں آج وہ مائل بہ عطا کچھ اور بھی مانگ" اور اقبال کی زبان سے بھی۔
آپ نے سنا کہ" ھم مائل بہ عطا ھیں، کوئی سائل ہی نہیں" اللہ نے خود فرمایا
کہ بندہ جب کوئی غلطی کرتا ہے اور میرے پاس چلا آتا ہے تو مجھ پر لازم ہے
کہ میں اس کی فریاد سنوں، اسے معاف کر دوں، پس چلتے، پھرتے، سوتے جاگتے،
نماز اور سجود میں اس سے مانگیں، مغفرت کے انبار لگا دے گا!!!
|