گیارھویں صالحین کی نظر میں

حضرت محقق شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب’’ماثبت من السنۃ‘‘میں لکھتے ہیں کہ : میرے پیرومرشد شیخ عبدالوھاب متّقی مہاجر مکّی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نو ربیع الثانی کو حضرت غوث ِ اعظم رضی اﷲ عنہ کا عرس کرتے تھے’’بے شک ہمارے ملک میں آج کل گیارہویں تاریخ مشہور ہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد ومشائخ میں متعارف ہے‘‘۔
(ماثبت من السنۃ، (اُردو ترجمہ) مطبوعہ اعتقاد پبلشنگ ھائوس دہلی۱۹۸۸ء ، ص۱۶۷)

حضرت شیخ محقق عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ اپنی دوسری تصنیف’’زاد المتقین فی سلوک طریق الیقین‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’حضرت غوث پاک کا عرس نویں ربیع الآخر کو کیا جاتا ہے، بہجۃ الاسرار کی روایت کے مطابق یہی صحیح تاریخ ہے، اگرچہ ہمارے دیار میں گیارھویں تاریخ مشہور ہے ‘‘۔
(زادالمتقین فی سلوک طریق الیقین، اُردوترجمہ، مطبوعہ الرحیم اکیڈمی لیاقت آباد کراچی۱۹۹۸ئ، ص۱۲۵)

گیارہ ربیع الثانی کو حضور غوث پاک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاعرس منانا بزرگوں کا معمول رہا ہے، چنانچہ شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی مشہور تصنیف’’اخبارالاخیار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ امان اﷲ پانی پتی رحمۃ اﷲ علیہ(متوفی۹۹۷ھ) گیارہ ربیع الثانی کو حضرت غوث پاک کا عرس کرتے تھے۔
(اخبار الاخیار(اُردو ترجمہ) ، مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی، ص۴۹۸)

شیخ عبدالحق محدّث دہلوی علیہ الرحمہ غیر مقلدین کی نظر میں
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی(متوفی۱۳۰۷ھ/۱۸۹۰ئ) لکھتے ہیں : ’’ہندوستان میں مسلمانوں کی فتوحات کے بعد ہی سے علم حدیث معدوم تھا، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے اس سرزمین میں اپنا فضل واحسان کیا اور یہاں کے بعض علماء جیسے شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ وغیرہ کو اس علم سے نوازا، شیخ ہندوستان میں علمِ حدیث کو لانے اور اس کے باشندوں کو اس کا فیض عام کرنے والے پہلے شخص ہیں‘‘۔
(دوروشن ستارے، از عبدالرشید عراقی، مطبوعہ لاہور۲۰۰۰ئ، ص۹۰، بحوالہ’’الحطہ فی ذکر صحاح التہ، از نواب صدیق حسن خاں، ص۷۰)

مسعود عالم ندوی (متوفی۱۳۷۴ھ) لکھتے ہیں: ’’ان(شیخ عبدالحق محدّث دہلوی) کی ذات سے شمالی ہند میں علم حدیث کی زندگی ملی اور سنت نبوی کا خزانہ ہر خاص وعام کے لئے عام ہوگیا… ہم آج ان کے شکر گزار ہیں اور علمی خدمات کا دل سے اعتراف کرتے ہیں‘‘۔
(دوروشن ستارے، از عبدالرشید عراقی، مطبوعہ لاہور، بحوالہ الفرقان، لکھنؤ، شاہ ولی اﷲ نمبر، ص۳۷)

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی(متوفی۱۹۵۶ئ) ، شیخ عبدالحق محدّث دہلوی علیہ الرحمہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’مجھ عاجز کو آپ کے علم وفضل اور خدمتِ علم حدیث اور صاحبِ کمالات ظاہری وباطنی ہونے کی وجہ سے حُسنِ عقیدت ہے، آپ کی کئی تصانیف میرے پاس موجود ہیں جن سے میں بہت سے علمی فوائد حاصل کرتا رہتا ہوں‘‘۔
(تاریخ اہل حدیث، مطبوعہ مکتبہ الرحمن سرگودھا(پنجاب)، ص۲۷۴)

شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ علماء دیوبند کی نظر میں
اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں: ’’بعض اولیاء اﷲ ایسے بھی گزرے ہیں کہ خواب یا حالتِ غیبت میں روزمرہ ان کو دربار نبوی (ﷺ) میں حاضری کی دولت نصیب ہوتی تھی، ایسے حضرات صاحبِ حضوری کہلاتے ہیں، انہیں میں سے ایک حضرت شیخ عبدالحق محدّث دہلوی ہیں کہ یہ بھی اس دولت سے مشرّف تھے اور صاحبِ حضوری تھے‘‘۔
(عبدالحلیم چشتی فاضل دارالعلوم دیوبند، فوائد جامعہ بر عجالہ نافعہ، مطبوعہنور محمد کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی۱۳۸۳ھ/۱۹۶۴ئ، ص۲۲۱۔ بحوالہ الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ، اشرف المطابع، تھانہ بھون(ضلع مظفر نگر، یوپی، بھارت)۱۹۴۱ئ، ج۷، ص۶)

سراج الہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ گیارھویں کے متعلق فرماتے ہیں : ’’ حضرت غوثِ اعظم رضی اﷲ عنہ کے روضہ مبارکہ پر گیارھویں کو بادشاہ وغیرہ شہر کے اکابر جمع ہوتے، نماز عصر کے بعد مغرب تک کلام اﷲ کی تلاوت کرتے اور حضرت غوثِ اعظم کی مدح اور تعریف میں منقبت پڑھتے، مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے ارد گرد مریدین حلقہ بگوش بیٹھ کر ذکر جہر کرتے، اسی حالت میں بعض پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی، اس کے بعد طعام شیرینی جو نیاز تیار کی ہوتی، تقسیم کی جاتی اور نماز عشاء پڑھ کر لوگ رخصت ہوجاتے ‘‘۔
(ملفوظاتِ عزیزی(فارسی) مطبوعہ میرٹھ، یوپی ۔بھارت، ص۶۲)

حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی علیہ الرحمہ علماء دیوبند وغیر مقلدین کی نظر میں
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی لکھتے ہیں :’’ شاہ عبدالعزیز بن شیخ اجل ولی اﷲ محدث دہلوی بن شیخ عبدالرحیم عمری رحمہم اﷲ، استاذ الاساتذہ، امام نقاد، بقیۃ السلف، حجۃ الخلف اور دیارِ ھند کے خاتم المفسرین ومحدثین اور اپنے وقت میں علماء ومشائخ کے مرجع تھے، تمام علومِ متداولہ اور غیر متداولہ میں خواہ فنونِ عقلیہ ہوں یا عقلیہ، ان کو جو دستگاہ حاصل تھی وہ بیان سے باہر ہے‘‘۔
(اتحاف النبلائ، مطبوعہ کانپور ۱۲۷۸ھ، ص۲۹۶)

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی لکھتے ہیں !’’ بڑے بڑے علماء آپ کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں اور فضلاء آپ کی تصنیف کردہ کتابوں پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں‘‘۔
(تاریخ اہل حدیث، مطبوعہ سرگودھا،سن طباعت ندارد، ص۲۸۸)

مولوی سرفراز خاں صفدر(گوجرانوالہ) لکھتے ہیں !’’بلا شبہ مسلک دیوبند سے وابستہ جملہ حضرات شاہ عبدالعزیز صاحب کو اپنا روحانی پیشوا تسلیم کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں، بلا شبہ دیوبندی حضرات کے لیے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کا فیصلہ حکم آخر کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔
(اتمام البرھان، حصہ اوّل، مطبوعہ گوجرانوالہ۱۹۸۱ئ، ص۱۳۸)

حضرت شیخ عبدالوھاب متقی مکی رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت شیخ امان اﷲ پانی پتی رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ، یہ تمام بزرگ دیںِ اسلام کے عالم وفاضل تھے اور ان کا شمار صالحین میں ہوتا ہے، ان بزرگوں نے گیارھویں شریف کا ذکر کرکے کسی قسم کا شرک وبدعت کا فتویٰ نہیں دیا۔

صلحاء کا طریقہ جائز ہوتا ہے
غیر مقلد ین کا فتویٰ
اب ہم غیر مقلدین کے مشہور عالم مولوی ثناء اﷲ امرتسری کے فتوے نقل کرتے ہیں جن میں انہوں نے صالحین کے طریقہ کار کو جائز اور درست لکھا ہے۔

مولوی ثناء اﷲ امرتسری سے سوال کیا گیا کہ چینی کی رکابیوں (پلیٹوں) پر جو لوگ عربی وغیرہ لکھ کر بیماروں کو پلاتے ہیں، یہ درست ہے یا نہیں؟

مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں کہ: ’’آیات قرآنی کو لکھ کر پلانا بعض صلحاء نے جائز لکھا ہے‘‘
(اخبار اہل حدیث، امرتسر ۲۲؍محرم ۱۳۶۲ھ)
(فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ہفتم مسائل متفرقہ، مرتبہ، مولانا محمد دائود راز ، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ ، ۷۔ ایبک روڈ لاہور، ص۶۸)

مولوی صاحب سے ایک سوال کیا گیا کہ’’جو لوگ تعویذ وغیرہ لکھ کر باندھتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں؟ (میر عظمت اﷲ ، مدراس)

مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں کہ: ’’تعویذ کا مضمون اگر قرآن وحدیث کے مطابق ہو یعنی شرکیہ نہ ہو تو بعض صلحاء بچوں کے گلے میں ڈالنا جائز کہتے ہیں‘‘۔ اﷲ اعلم(اہل حدیث، ۲۹؍ محرم ۱۳۶۲ھ)
(فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ہفتم مسائل متفرقہ، مرتبہ، مولانا محمد دائود راز ، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ ، ۷۔ ایبک روڈ لاہور، ص۶۸)

الحمد ﷲ ان دونوں فتوئوں سے ثابت ہوا کہ جس کام کو صلحاء یعنی نیک لوگ جائز سمجھیں وہ کام جائز ہے، شرک وبدعت اور ناجائز نہیں ہے، حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کی گیارھویں یعنی آپ کے لئے ایصال ثواب کو صالحین نے جائز سمجھا ہے، تو ان کے فیصلہ کو ماننا چاہئیے اور امت مسلمہ پر شرک وبدعت کے فتوے لگا کر تفرقہ بازی سے اجتناب کرنا چاہئیے۔

ایصال ثواب سے متعلق مولوی ثناء اﷲ غیر مقلد سے ایک سوال کیا گیا کہ : ’’میّت کو ثواب رسانی کی غرض سے بہ ہیئت اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست ہے یا نہیں؟ ‘‘

مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں کہ: ’’بہ نیت نیک جائز ہے اگرچہ ہیئت کذائی سنت سے ثابت نہیں، میّت کے حق میں سب سے مفید تر اور قطعی ثبوت کا طریق استغفار(بخشش مانگنا) ہے‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ششم کتاب الجنائز، مرتبہ، مولانا محمد دائود راز ، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ ، ۷۔ ایبک روڈ لاہور، ص۵۱)

مولوی ثناء اﷲامرتسری غیر مقلد نے یہ لکھا کہ ’’ بہ نیت نیک جائز ہے اگرچہ ہیئت کذائی سنت سے ثابت نہیں‘‘ اہل سنت حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کے لئے جو ایصال ثواب کرتے ہیں وہ نیک نیت سے ہی قرآن خوانی اور صدقہ وخیرات کرتے ہیں ، اور بقول مولوی ثناء اﷲاگرچہ ایصال ثواب کی یہ شکل سنت سے ثابت نہ ہو پھر بھی جائز ہے۔

ایصال ثواب کی نیت سے گیارھویں جائز ہے
مولوی ثناء اﷲ امرتسری غیر مقلد کا فتویٰ
مولوی ثناء اﷲ امرتسری سے سوال کیا گیا کہ : ’’کل یہاں ایک جلسہ بنگلور کے مسلم لائبریری کا ہوا جس میں مولوی حاجی غلام محمد شملوی نے لیکچر دیا، دورانِ تقریر میں گیارھویں اور بارھویں میں برائے ایصالِ ثواب غرباء کو کھانا کھلانا جائز کہا ہے، آپ اس کے عدم ثبوت کے دلائل پیش کریں‘‘ ۔

مولوی ثناء اﷲ امرتسری غیر مقلد جواب میں کہتے ہیں کہ : ’’ گیارھویں بارھویں کی بابت فریقین میں اختلاف صرف اتنی بات میں ہے کہ مانعین اس کو لغیر اﷲ سمجھ کر مااھل لغیر اﷲ میں داخل کرتے ہیں، اور قائلین اس کو لغیر اﷲ میں نہیں جانتے، مولوی غلام محمد صاحب نے دونوں کا اختلاف مٹانے کی کوشش کی ہوگی کہ گیارھویں بارھویں کا کھانا بغرض ایصال ثواب کیا جائے یعنی یہ نیت ہوکہ ان بزرگوں کی روح کو ثواب پہنچے نہ کہ یہ بزرگ خود اس کھانے کو قبول کریں، اس صورت میں واقعی اختلاف اُٹھ جاتا ہے، ہاں نام کا جھگڑا باقی رہ جاتا ہے کہ اس قسم کی دعوت کو گیارھویں بارھویں کہیں یا نذر اﷲ کہیں، اس میں شک نہیں کہ شرع شریف میں گیارھویں بارھویں کے ناموں کا ثبوت نہیں، اس لئے یہ نام نہیں چاہئیے، فقط دعوت ﷲ فی اﷲ کی نیت چاہئیے‘‘۔
(فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ہفتم مسائل متفرقہ، ص۷۱، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنۃ ، لاہور)

الحمد ﷲ اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے کہ حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کی روح کو ایصال ثواب کیا جائے، منکرین اسے گیارھویں نہ کہیں، ایصال ثواب کہہ لیں، لیکن ایصال ثواب کریں تو سہی، یہ تو ایصال ثواب کرنے والوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں تاکہ فرقہ بندی اور انتشار ختم نہ ہواور پیٹ کا دھندہ چلتا رہے۔
ا یصال ثواب کی نیت سے گیا رھو یں جا ئز ہے

مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی کا فتویٰ
مولوی رشید احمد گنگوھی سے سوال کیا گیا کہ :’’ایک شخص ہر مہینہ کی گیارہ تاریخ کو گیارہویں کرتا ہے نذر اﷲ اور کھانا پکا کر غرباء اور امراء سب کو کھلاتا ہے اور اپنے دل میں یہ سمجھتا ہے کہ جو چیز نذر لغیراﷲ ہو وہ حرام ہے اور میں جو گیارہویں کرتا ہوں یا توشہ کرتا ہوں کہ جو منسوب ہے بفعل حضرت بڑے پیر صاحب اور حضرت شاہ عبدالحق صاحب (ردولوی) کے، ہر گز ان حضرات کی نذر نہیں کرتا بلکہ محض نذر اﷲ کرتا ہوں صرف اس غرض سے کہ یہ حضرات کیا کرتے تھے، ان کے عمل کے موافق عمل کرنا موجب خیروبرکت ہے، اور جو شخص ان حضرات کی یا اور کسی کی نذر کرے گا سوائے اﷲ جل شانہ، وہ حرام ہے، کبھی حلال نہیں ، تو اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ ایسے عقیدے والے کو گیارہویں یا توشہ(شاہ عبدالحق ردولوی چشتی) کا کرنا جائز ہے یا نہیں اور موجب برکت بھی ہے یا نہیں اور اس کھانے کو مسلمان دین دار تناول فرمائیں یا نہیں؟ ‘‘

مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں : ’’ ایصال ثواب کی نیت سے گیارہویں کو توشہ کرنا درست ہے، مگر تعیّن یوم وتعیّن طعام کی بدعت اس کے ساتھ ہوتی ہے، اگرچہ فاعل اس یقین کو ضروری نہیں جانتا مگر دیگر عوام کو موجب ضلالت ہوتا ہے، لہذا تبدیل یوم وطعام کیا کرے تو پھر کوئی خدشہ نہیں ‘‘۔
(فتاویٰ رشیدیہ، مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی، ص۱۶۴)

دیوبندی فرقہ کے امام مولوی رشید احمد گنگوہی نے یہ تسلیم کرلیا کہ ایصال ثواب کی نیت سے گیارہویں کرنا درست ہے، رہا اعتراض تعیّن یوم اور تعین طعام کا، تو عرض ہے کہ اہلسنت تو سہولت کے پیشِ نظر دن مقرر کرتے ہیں ، اسے تعین عرفی کہتے ہیں، اس کے متعلق یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ ایصال ثواب صرف گیارہ تاریخ کو ہی کیا جائے، اس دن کے علاوہ نہ کیا جائے ، اور یہ اعتقاد بھی نہیں رکھتے کہ گیارہ تاریخ سے آگے پیچھے کسی اور تاریخ کو ثواب نہیں پہنچتا۔
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 410046 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.