کورونا۔۔۔ قومی وحدت کا آخری موقع!!

 قوموں پر خود انحصاری اختیار کرنے کے کئی مواقع آتے ہیں لیکن سماجی تربیت نہ ھونے کی وجہ سے اور قیادت کی کمزوری سے وہ ضائع ھو جاتے ھیں، کورونا وائرس کی عالمی تباہ کاریوں نے قوموں اور ریاستوں کے اندر نفسا نفسی کا عالم پیدا کر دیا ہے، اگر چہ اس پر کئی پس پردہ افسانوی یا حقیقی کہانیاں وجود پا رہی ھیں اور امریکہ و چین کے درمیان ایک سرد جنگ کا آغاز ھے، اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پاگل پن کا زیادہ حصہ ہے، تاھم یہ حقیقت ہے کہ دو لاکھ سے زائد لوگ اس وائرس نے نگل لیے ھیں جو تیزی سے جنوبی ایشیا کا رخ کر چکا ہے، یورپ اور دیگر ممالک میں اس میں کمی آرہی ہے ، چین تو فتح یابی کا اعلان کر کے تیزی سے معاشی سرگرمیوں کا آغاز کر چکا ھے یہاں تک کہ تعلیمی ادارے بھی نہایت خوبصورت حفاظتی اقدامات سے کھل چکے ہیں، مگر بدقسمتی سے ھماری معاشرتی اور سماجی کمزوری نے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے، اگرچہ دنیا، اقوام متحدہ، ڈبلیو ایچ او اور دیگر ادارے دو کروڑ افراد کے بے روزگار ھونے اور معاشی کسادبازاری کا عندیہ دے چکے ہیں، یہی حالات ھمارے ملک پاکستان کے لیے انتہائی چیلنج کی حیثیت اختیار کر رہے ہیں، ایک چھوٹے دکان دار سے لے کر صنعت کار تک پریشانی کے عالم میں ہیں، حکومت اپنے تئیں ریلیف پیکج، ٹیکس میں چھوٹ، اور سمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف بڑھ رہی، ملک میں طبی آلات،حفاظتی سامان اور سائنسی تحقیق میں اضافہ ھوا ھے، وینٹلیٹرز، ماسک، سینٹائزر اور دیگر مشینیں بننا شروع ھوئی ھیں اور کئی ایک کو برآمد کی بھی اجازت مل گئی ھے اسی طرح پاکستان کی بڑی نعمت ہے کہ آج تک خوراک کی ترسیل میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، حکومت کے احساس پروگرام نے، بے روزگار افراد کے پیکج نے لوگوں کو مطمئن کیا ہے، ان ساری خوبیوں کی وجہ ایک آفت بنی ھے جس کو کورونا وائرس کہتے ہیں، اس لیے کسی حد تک یہ قومی خود انحصاری میں معاون ثابت ھوئی، کاروبار کی بندش کی باجود اسٹاک مارکیٹ بہتر رہی ہے، جب کہ وزیراعظم اپنے وزراء کے ھمراہ روز ھونے والی تبدیلیوں سے آگاہ کر رہے ہیں یہ بھی پاکستان میں پہلی مرتبہ ھورہا ھے۔اور آئندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے ایک بہترین لائحہ عمل یا مفاد پرستوں کے لیے وبال جان ھو گا۔اصل مسائل ھمارے بکھرے ہوئے سماج کے ھیں، ان میں سیاستدانوں ، مذھبی زعماء اور ذرائع ابلاغ کا اھم کردار ھے اگرچہ بعض معاملات میں حکومت کی سیاسی کمزوری اور بر وقت فیصلے نہ ھونے کی کوتاہیاں موجود ہیں لیکن یہ آج کی نہیں ھیں، ھم من حیث القوم ایک تقسیم معاشرے اور قومی وحدت سے محروم قوم ہیں، حکومت کے فیصلے ھوں یا قوانین ان کو ہوا میں اڑانا ھمارا وطیرہ بن چکا ہے یہ عادت اتنی راسخ کر چکی کہ اس سے نکلنے کے لیے اصلاحات سے زیادہ شعوری تربیت کی ضرورت ہے جس پر کوئی بھی، حکومت یا ادارہ کام نہیں کر رہا، ادارے اتنے کمزور اور وقت گزارنے کے عادی ھو چکے ھیں یا سابقہ تین دھائیوں پر مشتمل حکومت کرنے والوں نے اپنے فائدے کیلئے بیوروکریسی، اور دیگر اداروں کو اس طرح ڈھال لیا ھے کہ کسی بات، اصلاحات یا موٹیویشن کا اثر نہیں ہوتا،کوئی ایک ادارہ سر اٹھاتا ہے، یا ایکٹویزم کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کا سر کچل دیا جاتا ہے، یا وہ اپنی حدود سے اتنا باہر نکل جاتا ہے کہ قوم ھیروشپ کے پیچھے بھاگ بھاگ کر آخر کار وہیں کھڑی ھوتی ھے، کورونا وائرس کی پالیسی میں بھی وفاق اور سندھ کے درمیان یہی کشمکش چل رہی ہے جس سے قومی وحدت کا خواب پارہ پارہ ہو جاتا ھے، اس کے اثرات سماجی تقسیم پر بھی نمایاں نظر آتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ قوم اگر بھولے نہ تو ایک غیر روایتی وزیراعظم نے سوال کرنے کی کچھ عادات پیدا کر دی ھیں، جو شاید آنے والے حکمرانوں کے لیے خطرے کا باعث ھوں، ابھی ایک ٹائیگر فورس کا اعلان ھوا حالانکہ اس پر سیاسی وفاداری کی کوئی شرط نہیں تھی مگر اس کو متنازع بنایا گیا ہے۔دوسرا خطرہ یہ موجود رہتا ہے کہ جس طرح وکلاء، عدلیہ، پولیس اور دیگر اداروں کے رویوں میں آزادی اور میڈیا کے اندر ایک پاور طبقہ وجود میں آگیا جو وکلاء ھوسپٹل پر حملہ کر دیں، نیب متنازع ھو جائے، پولیس ڈنڈے کا غلط استعمال شروع کر دے، سرعام گولی مار دے۔کہیں ٹائیگر فورس بھی طاقت ور گروہ کی صورت میں وجود نہ پا جائے، یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد ھماری سماجی، انفرادی اور تربیتی خامی سے جڑی ھیں، جہالت، بے شعوری اور سماجی تعصبات نے قومی وحدت کو کبھی پروان نہیں چڑھنے دیا، کسمپرسی کا عالم یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت نے سماجی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کی، عمران خان کے پاس وہ قوت اور کرشماتی خوبیاں موجود ہیں کہ سماج کے اندر تبدیلی لانے کی ھمت کر سکتے ہیں مگر انہیں کچھ" سابقون" اور کچھ غیر معمولی حالات اور معاشی زوال نے گھیرا ہوا ہے، کورونا کی اس آفت میں اس نعمت کا فروغ ممکن ھے اگر اس کو سمجھا جائے، ابھی تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا، ھزاروں پرائیویٹ سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کی رائے لئے بغیر فیصلہ کر دیا گیا مگر اس کے اثرات لاکھوں اساتذہ کی بے روزگاری، پہلے سے تعلیمی حالت کی کمزوری کو نہیں دیکھا گیا، کیا آج چین نے جس طرح تعلیمی اداروں کو ایک فعال حفاظتی اقدامات سے شروع کر دیا ہے یہاں ممکن نہیں تھا؟ یا اس قوم کا مزید قتل عام جاری رکھنے کا پروگرام ھے، دوسری طرف سمارٹ لاک ڈاؤن کے ساتھ مارکیٹوں کو کھولا جا رہا ہے، اور کورونا تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔۔۔وجہ ھماری سماجی اور معاشرتی تربیت کی کمی، جس طرح سائنسی بنیادوں پر باقی کام شروع تھے اسی طرح سماجی اور سیاسی سطح پر اتحاد وجود میں آتا تو یہ کورونا ھماری قومی وحدت کے لیے نعمت ثابت ھوتا، قدرت بار بار مواقع نہیں دیتی اور ان کو تو بالکل نہیں دیتی جو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے خاص کر ھمارے مسلم ممالک کا المیہ ہےکہ ھم ھیرو کے پیچھے تو بھاگتے ہیں مگر محنت، تحقیق، تعلیم اور تربیت کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں وہاں کوڑا ڈالنا ھوتا ھے ھم قومی وحدت کو کوڑے میں ڈال کر آگے بھاگتے ہیں مگر آگے گہری کھائی ہے، کوئی تو اس قوم کی صلاحیت کو پرکھے اور نظام انسانیت کو مضبوط کرنے کے لیے سماج کو بدل ڈالے، یہ جذباتی بات نہیں ھمارے مستقبل کی ضرورت اور آج کی حقیقت ھے۔۔!!!!

 

Prof Khursheed Akhtar
About the Author: Prof Khursheed Akhtar Read More Articles by Prof Khursheed Akhtar: 89 Articles with 68503 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.