سفر تو کوئی پچاس پچپن کلومیٹر کا تھا، ہم صبح ہی
گھر سے نکل کھڑے ہوئے کہ پہلے بینک سے ہو لیں گے اور دس بجے ایک دوست کے
بھائی کی قل خوانی میں شرکت کرلیں گے۔ ابھی بینک کھلا ہی تھا کہ ہم پہنچ
گئے، گاڑی سے ابھی اترے نہیں تھے کہ یاد آیا ’چیک بک گھر بھول آئے ہیں‘۔
پریشانی سے سرچکرانے لگا، اِدھر اُدھر تلاش کے بعد جب یقین ہوگیا کہ چیک بک
واقعی ہمارے پاس نہیں ہے، تو واپسی کا قصد کیا۔ اپنی بھول جانے والی عادت
کو کوستے جاتے تھے اور سفر جاری رکھے ہوئے تھے، یکایک یاد آیا کہ ہم نے
واپسی میں قل خوانی پر جانا تھا، خیر گزری کہ ہم کوئی پانچ چھ کلومیٹر ہی
آگے آئے تھے، سو تھوڑا سا واپس جا کر قل خوانی میں شرکت کر کے سماجی تعلق
کو مزید مضبوط کیا، وہاں ثوابِ دارین میں بھی اپنا حصہ ملانے کی کوشش کی
اور دل کو تسلی دی کہ چلیں اتنے سفر کے تمام مقاصد نہ سہی، نصف تو پورے
ہوئے۔بینک جانا مجبوری تھا، چنانچہ اگلے روز پھر جانا پڑا۔ اگلی صبح بروقت
ہی پھر بینک پہنچ گئے، آج باہر سے واپس آنے کی کوئی کہانی نہیں تھی، ہم ایک
ہاتھ میں چیک بک تھامے اندر داخل ہوئے، ایک کاؤنٹر پر کھڑے ہو کر تسلی سے
چیک کاٹا، اور اندر بیٹھے نوجوان کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے چیک وصول کیا اور
میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا، ہم دونوں ایک دوسرے کے منتظر تھے،
اور دلچسپ بات یہ کہ دونوں ایک دوسرے سے پیسوں کی وصولی کے طلب گار تھے۔
آخر نوجوان نے میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے پیسے طلب کئے، میں نے حیرت سے
سوال سنا، کیسے پیسے؟ میں تو رقم لینے آیا ہوں، نہ کہ جمع کروانے۔ اس نے
چیک مجھے لوٹاتے ہوئے بتایا کہ جناب آپ نے کسی اور بینک کا چیک مجھے دیا ہے۔
گویا جس بینک سے رقم میں نے وصول کرنا تھی، اس کی چیک بک پھر گھر بھول آیا
تھا۔
مجھے گھر کی سیڑھیاں اصولی طور پر تو تقریباً آٹھ سے دس مرتبہ اترنی پڑتی
ہیں،مگر میں کم ازکم بیس مرتبہ سیڑھی سے اترتا ہوں، گویا جتنی مرتبہ کام کے
لئے اترتا ہوں، تقریباًاتنی ہی مرتبہ اپنے بھلکڑ پن کی وجہ سے اضافی طور پر
اترنا پڑتا ہے۔ دفتر جانے کے لئے تیار ہو کر نیچے اترے، یاد آیا گاڑی کی
چابی اوپر ہی رہ گئی ہے، پھر گئے، چابی اٹھائی، گاڑی میں بیٹھ کر گلی کے
کونے میں پہنچے تو یاد آیا کہ آج موبائل تو گھر ہی بھول آئے، واپس جا کر
موبائل لائے۔ ایک روز دکان سے کوئی چیز خرید کر لائے، گاڑی میں بیٹھنے لگے
تو دیکھا کہ چابی جیب میں نہیں، واپس دکان پر گئے، دکاندار نے بھی اِدھر
اُدھر نگاہ دوڑائی ، ’چھوٹے‘ کو آگے پیچھے چابی تلاشنے پر لگا دیا، دکان
دار کے دیگر معاون کارکن بھی یہی فریضہ نبھانے میں مصروف ہوگئے، مگر چابی
نہ ملی۔ جیبیں ٹٹولتے، اوپر نیچے دیکھتے جب دوبارہ گاڑی کے پاس پہنچے، اندر
جھانکا تو کیا دیکھتے ہیں کہ چاپی گاڑی میں لگی ہوئی ہے اور گاڑی لاک ہے۔
اب اِدھر اُدھر جھانکنے کی بجائے بغلیں جھانکنے کا وقت تھا، چنانچہ ہم نے
اس کارِ خیر کی تکمیل میں لمحہ بھر بھی تاخیر نہ کی۔ چابی نکالنے کے لئے
کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے، مت پوچھئے، لاک گاڑی سے چابی نکالنا جوئے شیر لانے
کے مترادف ہے۔ اسی وقت تہیہ کیا کہ ایک دفعہ چابی نکل آئے، باقی سارے کام
چھوڑ کر سب سے پہلے ’لاک میکر‘ کے پاس جاکر اضافی چابی بنواتے ہیں۔وہ دن
اور آج کا دن چابی گاڑی میں تو متعدد مرتبہ بھول چکا ہوں، مگر نئی چابی
بنوانے کی توفیق ابھی تک نہیں ہوئی۔
مردم شناسی کا محاورہ اگرچہ انسانوں کو پہچاننے کے ضمن میں استعمال ہوتا
ہے، معاشرے میں وہی لوگ کامیاب قرار پاتے ہیں، جن میں اچھے برے انسان کی
پہچان ہوتی ہے۔ ایک روز میں حالات کا ستایا ہوا دفتر پہنچا، وہاں پہلے سے
ایک صاحب میرے انتظار میں تشریف رکھتے تھے، اپنے اوساں کسی حد تک بحال ہونے
کے بعد میں نے نہایت خشک اور تلخ سے لہجے میں موصوف کا تعارف طلب کیا،
کھسیانی ہنسی کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ وہ میرے عزیز ہیں اور فلاں جگہ سے
آئے ہیں، اب کھسیانی ہنسی کی باری میری تھی، سو میں نے بھی اپنا کام کیا،
معذرت کرنے کی بجائے کچھ تاویلات کی تفصیل پیش کی، اور آہستہ آہستہ کھسیانی
ہنسی کو اصلی مسکراہٹ میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
اِن بھول بھلیوں سے تنگ آکر میں نے حکیم صاحب کے پاس جانے کی ٹھانی، حُسنِ
اتفاق ہی کہیے کہ ان کا مطِب سامنے ہی موجود ہے، بس وہاں پہنچنے کے لئے سڑک
ہی پار کرنا پڑتی ہے۔ میں وہاں پہنچا تو انہوں نے بہت آؤ بھگت کی، میرے لئے
کرسی کھینچی اور اس پر بیٹھنے کا اصرار کیا۔ میرا شکریہ ادا کیا کہ میں
ہمسایہ ہونے کے باوجود آخر ان کے پاس آیا تو سہی۔ اخلاقی حال احوال طول پکڑ
گیا تو ہم دونوں فریق پریشان سے ہوگئے، آخر میرے وہاں جانے کا کیا مقصد
تھا، مجھے یاد نہیں آرہا تھا، میں ابھی ذہنی کشمکش میں الجھا ہواہی تھا کہ
انہوں نے آنے کی وجہ دریافت کر لی، میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، واقعی مجھے
وہاں کوئی کام نہ تھا۔ دراصل حکیم صاحب کے مطِب کے ساتھ والی دکان میں
چھوٹا سا سرکاری ڈاکخانہ تھا، میں حکیم صاحب کے پاس جانے کی بجائے ڈاکخانے
چلا گیا تھا، جب حقیقت مجھ پر آشکار ہو گئی تو میں نے حالات کو سنھبالتے
ہوئے، اپنے دورے کو خیر سگالی قرار دیا، ہمسایوں کے حقوق پر دو چار جملے
جاری کئے اور اجازت لے کر واپس آگیا۔ دفتر میں آیا تو دیگر مصروفیات میں
مگن ہوگیا، گھنٹہ بعد یاد آیا کہ میں نے تو آج حکیم صاحب کو اپنی نبض
دکھانی تھی، کہ اس کی ’’چال چلن‘‘ سے اندازہ لگا کر حکیم صاحب جائزہ لے
سکیں کہ آخر بھول جانے کی عادت کے کیا اسباب ہیں؟ باہر نکلا تو سڑک پار سے
ہی دیکھا تو مطِب کا صدر دروازہ بند ہو چکا تھا، نماز، کھانے اور آرام کا
وقفہ شروع ہو چکا تھا۔
کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ کسی روز تھکا ہارا میں گھر پہنچوں گا، گھنٹی
بجاؤں گا، خاتونِ اول باہر آئے گی، میں حیرت کے دریا میں غوطہ زن ہو کر
پوچھوں گا کہ ’’خاتون! آپ کو کہیں دیکھا ہوا ہے‘‘۔ مگر یہ سوچ کر میں لرز
کر رہ جاتا ہوں، ایک ردّ عمل تو یہ ہوگا کہ سننے والے اسے لطیفہ قرار دے کر
آئندہ کے لئے مذاق کا مستقل سلسلہ شروع کر لیں گے، اور مثال کے لئے مجھے ہی
پیش کیا جایا کرے گا۔ دوسرا یہ کہ خاتونِ اول کا اگر ایسے میں موڈ خراب ہوا
تو وہ ٹائی سے پکڑکر اندر گھسیٹ لے گی،’’ آ تجھے اپنا تعارف صحیح معانوں
میں کرواتی ہوں‘‘ ۔ |