بنتِ حوا

میں نہر کے کنارے بنے ڈھابے پہ مردہ دِلی کے ساتھ بیٹھا چائے کا انتظار کررہا تھا۔ دِل عجیب بوجھل سا تھا اور چہرے پہ بارہ بج رہےتھے۔
گاؤں کے ایک باباجی میرے پاس آ کے بیٹھ جاتےہیں اور کہتے ہیں اظہر پُتر خیر ہے بڑا پریشان لگ رہا ہے۔
میں کمزور سی آواز میں کہتاہوں کہ بس بابا جی کیا بتاؤں ، گھر سے لڑ کر آیاہوں۔
میری بیوی کو پتہ نہیں کیوں میری باتیں سمجھ ہی نہیں آتیں۔ صحیح کہتےہیں عورت کی عقل اُس کے گھُٹنوں میں ہوتی ہے۔

بابا جی مسکرائے اور بولے جا وے جھلّیا تیرا وی کوئی حال نہیں۔
پَر پُتر یہ جس نے مثال بنائی ہے نہ کہ عورت کی عقل گھٹنوں میں ہوتی ہے وہ خود کوئی پاگل ہی ہو گا۔

میں نے کہا "نہ بابا جی نہ آپ نہیں جانتے اِن عورتوں کو۔“

بابا جی بولے نہیں اظہر پُتر تُو نہیں جانتا اصل میں عورت کو عورت کی شان کو ۔

یہ تو وہ ہے جس کے ساتھ رب اپنی محبت کو ملا رہا ہے۔

اتنے میں لڑکا چائے لے کر آ جاتا ہے اور میں چائے کی چُسکی لےکر پھر بابا جی کی طرف متوجہ ہو جاتا ہوں ۔
بابا جی اپنی چائے پِرچ میں ڈال کر ٹھنڈی کرنے لگ جاتے ہیں۔

بابا جی پِرچ سےہی چائے کی چُسکی لگا کے کہتے ہیں کہ واہ مزہ آ گیا چائے کا۔

چائے کی تعریف کرنے کے بعد بابا جی کہتے ہیں کہ سُن پُتر رب وہ ذات ہے جسے کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اُس ذات نے خود کی محبت کے بارے میں بتانا تھا کہ وہ انسان سے کتنی محبت کرتا ہے تو اُس نے ماں کا نام لیا کہ وہ ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ جب کہ ماں ایک عورت ہے۔
بیٹی کواللہ نے اپنی رحمت قرار دےدیا جبکہ بیٹی بھی ایک عورت ہے۔

پُتر میرا ماننا یہ ہے کہ ہم مرد، عورت کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ کہاں عورت اعلیٰ ظرف اور فراغ دِل کی مالک اور کہاں ہم کَم ظرف اور تنگ دِل مرد۔

مجھے بابا جی کی باتیں لبھانے لگ گئیں تھیں۔

بابا جی بولےکہ عورت ہی وہ ہستی ہے جس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی بس اسی بات سے ہی تو عورت کی شان کا اندازہ لگا لے۔

جب وہ آس سے ہوتی ہے تو اپنی پسندکی سب چیزیں چھوڑ دیتی ہے اپنی اولاد کے لیے۔ جب اولاد جنم دیتی ہے تو زندگی اورموت کی کشمکش میں ہوتی ہے، پتہ ہی نہیں ہوتا کہ جیے گی یا مَر جائے گی۔
پتہ ہے پُتر بائیس ہڈیاں بیک وقت ٹوٹنے کے جتنا درد سہتی ہے ایک بچے کو جنم دیتے وقت۔ اتنا درد کبھی محسوس بھی کیا ہے تم نے۔؟

میں بابا جی کی باتوں سے لاجواب ہوتا جا رہاتھا اور آج عورت کے اصل مقام کا پتہ چل رہا تھا مجھے۔

بابا جی بولےابھی آگے سُن پُتر اورکلیجے پہ ہاتھ رکھ کے سُنِیں ذرا کہیں کلیجہ پھٹ ہی نہ جائے تیرا یہ کڑوا سچ سُن کے۔

پتہ ہے عورت کی سب سے بڑی خُوبی کیا ہے وہ بات بات پہ مرد کی طرح مردانگی نہیں دکھاتی، وہ مرد پہ تھپڑوں کی بارش نہیں کرتی۔

وہ مرد کو اُس کی اولاد کے سامنے گندی گالیاں نہیں دیتی۔ وہ غیرت کے نام پہ مردوں کے قتل نہیں کرتی۔ وہ بھوکے بھیڑیے کی طرح کسی پہ جھپٹ کے اس کا ریپ نہیں کرتی۔
وہ مردکو غُصے میں طلاق نہیں دیتی۔ وہ گلیوں بازاروں میں مرد پہ آوازیں نہیں کَستی۔

بابا جی کی باتیں سُن کے میں شرمندہ ہونے لگ گیا اور آنکھیں جھک گئیں میری۔ پسینے کی بوندیں میرے ماتھے پہ نمودار ہونا شروع ہو گئیں۔

بابا جی نے شاید میری شرمندگی محسوس کر لی تھی، اِسی لیے وہ تھوڑی دیر کے لیے چُپ ہو گئے۔
پھر بابا جی نے ڈھابے والے کو چائے کے کپ واپس لے جانے کے لیے آواز دےدی۔

اور پھر دوبارہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ پُتر تُو سمجھدار لڑکا ہے۔ بس ذرا جذباتی ہو جاتا ہے۔
بات کی نوعیت کو سمجھا کر اور پھر فیصلے کیا کر۔

پُتر ایک گھر میں روزانہ سب سے زیادہ بار جو نام لیا جاتا ہے وہ ایک ماں کا ہوتا ہے یا بڑی بہن کا اور یہ دونوں عورت ذات ہیں۔
ہمارے گھروں کا وجود عورتوں سےہے۔ گھر مرد نہیں بساتے پُتر عورتیں بسایا کرتی ہیں۔ گھر کی رونقیں عورتوں کے ہی توسط سے ہوتی ہیں بیٹا۔
ہر چیز سلیقے سے ملتی ہے، کپڑے صاف ستھرے ملتے ہیں، برتن دُھلےدُھلائے ملتے ہیں، بہترین کھانے ہمیں نصیب ہوتے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال بخوبی سر انجام دی جاتی ہے تو پُتر یہ سارا جادو ایک عورت ہی چلاتی ہے ورنہ تو ایک سَگا باپ بھی اپنے چھوٹے بچے کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتا۔

بچہ زیادہ روئے تو شوہر اپنی بیوی سے کہہ دیتا ہے کہ اِسے کمرے سے باہر لے جاؤ میری نیند میں خلل پڑ رہا ہے۔

پُترعورت بہت ہی پیاری چیز ہے۔ یہ مرد کے کردار پہ اُنگلیاں نہیں اُٹھاتی، یہ مرد کو اُس کے ماضی کے طعنے نہیں دیتی۔
پُتر عورت بیٹی ہے تو رب کی رحمت ہے۔ ماں ہے تو قدموں تلے جنت لیے پھرتی ہے۔

بابا جی کی باتیں سُن کے پتہ چل رہا تھا کہ عورت دنیا کی کتنی انمول دولت ہے
وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
”وجود زَن سے ہے کائنات میں رنگ “

پھر بابا جی بولے کہ جا پتر گھر چلا جا تیرا چہرہ بتا رہا ہے کہ تو سب سمجھ گیا ہے اور اب تیرا جلدی گھر جانے کو دل کر رہا ہے۔

میں بابا جی کے قدموں میں بیٹھ گیا اور بابا جی کے ہاتھ چوم کے بولا کے شکریہ بابا جی آپ نے میری غلطی کو
دیکھ کے کوئی سزا نہیں سنائی بلکہ میری غلطی کو سدھارا اور احساس کروایا کہ میں غلط ہوں
مجھے سب کی عزت کرنی چاہیے

بابا جی مسکرائے اور میرے سر پہ ہاتھ پھر کے بولے جیتا رہے پُتر اور اب گھر جا ،گھر والے تیرا انتظار کررہے ہونگے۔

واپس گھر جاتے ہوئے میرے قدموں میں اعتماد تھا اور دل مطمئن۔

الله ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے
واسلام
 

Azhar Hussain Bhatti
About the Author: Azhar Hussain Bhatti Read More Articles by Azhar Hussain Bhatti: 9 Articles with 7399 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.