…… بیشتر علماء حضرات مساجد یا دینی مدارس سے جڑے ہیں، اس
لئے ہمیں چاہئے کہ حسبِ سابق زیادہ سے زیادہ امداد اِن تک پہنچائی جائے
تاکہ یہ متاثر نہ ہوں۔ عمومی طور پر غریب، مساکین، یتیم،بیوہ، ضرورتمندوں
کی شناخت کرنا آسان رہتا ہے لیکن ایسے خود دار طبقہ کی پریشانیوں کو سمجھ
لینا مشکل رہتا ہے، لہٰذا کوشش کی جائے کہ متاثرین کی امداد کرتے کرتے کہیں
اِس خود دار اورحساس طبقہ کے ساتھ ہم زیادتی نہ کربیٹھیں۔!
عید سادگی سے منائیں!
الطاف حسین جنجوعہ
ماہ رمضان جس کی برکت اور عظمت کی گواہی خود اﷲ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم
میں دی ہے ، کا دوسرا عشرہ آخری مراحل میں ہے۔آخری عشرہ جوکہ جہنم سے آزادی
کا ہے ، سے ہی اہل ِ اسلام عید الفطر کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ تیاریاں
بجا بھی ہیں کیونکہ یہ مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔اِس پر خوب
خریدوفروخت ہوتی ہے۔ ہرامیر وغریب کی کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے
مطابق کم سے کم اِس دن تو بچوں سے لیکر بزرگوں تک نئے ملبوسات خریدے جائیں،
چونکہ عید کے پیش نظر ہرقسم کے سازوسامان پر خصوصی رعایت بھی دی جاتی ہے ،
تو اِس لئے گھریلو ضرورت کی چیزیں بھی خریدی جاتی ہیں، خاص سجاوٹ ہوتی ہے۔
سفیدی کی جاتی ہے۔ رشتہ داروں، عزیز واقارب کے لئے تحفے خریدے جاتے ہیں،
مٹھائیوں کے کئی کئی ڈبے آتے ہیں لیکن اِس مرتبہ عید کافی مختلف ہونے والی
ہے۔عالمی وباء کورونا مخالف جاری لڑائی میں احتیاط کے طور جاری لاک ڈاؤن سے
بازارویران اور سڑکیں سنسان ہیں۔ بازاروں میں روایتی چہل پہل ، رونق دکھائی
نہیں دیتی، ہرطرف خوف ومایوسی کا عالم ہے۔ اِس مرتبہ رمضان میں مساجد کے
اندر لگنے والی رونقیں بھی نظر نہیں آئیں، جمعہ کے اجتماعات نہ ہوئے۔
اجتماعی افطاری کے روح پرور مناظر دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں۔ روزگار ٹھپ
ہونے سے زندگی کے ہرشعبہ سے جڑا طبقہ متاثر ہوا ہے مزدور طبقہ جس کی تعداد
اکثریت میں ہے، سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ چھوٹے کاروبارسے جڑے لوگ،
کارخانوں، فیکٹریوں میں کام کرنے والا محنت کش طبقہ اور ہنریافتہ ورکرز
سبھی پریشان ِ حال ہیں۔ روزگار چھین گیا ہے، کھانے کے لالے پڑے ہیں!
عید الفطر کے پیش نظر یہ محنت کش ، مزدور جہاں کہیں بھی تلاشِ معاش میں گئے
ہوتے تھے، اپنے گھر لوٹتے ہیں تاکہ خوشی کے اِس خاص موقع کو اپنے اہل خانہ
کے ساتھ انجوائے کیاجائے۔وہ ساتھ ہی بچوں کے لئے کپڑے و کھلونے بھی لے آتے
کیونکہ اِس دن پر سب سے زیادہ خوشی بچوں کو ہی ہوتی ہے اور اُنہیں عیدی کا
بڑی بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔کورونا لاک ڈاؤن نے صورتحال یکسر مسترد کر
دی ہے، انڈیا میں اکثریتی آبادی کی عید کی خوشیاں اِس مرتبہ پھیکی پڑنے
والی ہیں۔وہ مزدور اور محنت کش طبقہ جو عید کے موقع پر ہزاروں روپیوں کے
علاوہ اچھے خاصے سازوسان سے بھرے تھیلوں سے گھر پہنچتے تھے، وہ خود دو وقت
کی روٹی کے لئے پریشان ہوچکے ہیں۔ اب انہیں بخیر وعافیت خود ہی گھر پہنچ
جانے کی فکر ستا رہی ہے۔ جموں وکشمیر میں بیرونِ ریاست کے ہزاروں مزدور ہیں،
اِسی طرح یہاں سے ہزاروں مزدور ملک کے مختلف حصوں میں کام کی غرض سے گئے
ہیں، جن کی واپسی کو یقینی بنانے کے لئے اگر چہ حکومت نے اقدامات اُٹھائے
ہیں اور خصوصی ٹرینوں اور روڈ ٹرانسپورٹ کے ذریعے اِن کی گھرواپسی ہورہی ہے
لیکن تعداد اتنی زیادہ ہے کہ قلیل مدت میں اِن کاگھر لوٹ آنا ممکن نہیں
دکھائی دے رہا۔ مزید برآں بیرون ریاست وبیرون ِ ممالک سے لوٹنے والے ہرفرد
کو کم سے کم14دن قرنطینہ میں رکھاجائے گا اور خدانخواستہ ٹسٹ مثبت آیاتو
پھر اسپتال آئی سولیشن میں صحت یابی تک کئی ہفتے گذارنے پڑسکتے ہیں۔ایسے
میں اُن کا گھروالوں کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹنے کے امکانات بھی کم ہی
ہیں۔
جو مزدور، محنت کش اور تاجر طبقہ گھرپر ہی ہے، وہ بھی پریشان ہے کیونکہ
روزگار کا سلسلہ ٹھپ پڑا ہے، اب مشکل سے اہل وعیال کے لئے کھانے کا بندوبست
ہورہاہے اور بہت ساروں کو تو یہ بھی میسر نہیں۔اِس صورتحال کے تناظر میں
اِس مرتبہ سیاسی، سماجی، مذہبی تنظیموں کی طرف سے یہ اپیل کی جارہی ہے کہ
عید کا اہتمام سادگی سے کریں اور خریدوفروخت پرکئے جانے والے اخراجات کو
بچا کر اپنے پڑوس، محلہ اور گاؤں میں موجود غرباء، یتیم، مساکین اور
ضرورتمندوں میں تقسیم کردیاجائے ، ایسا کرنے سے ہرگھر میں اِس دن کی خوشی
کا احساس ممکن ہوسکتا ہے۔
آپ بھی خوب خوشیاں منائیں نئے کپڑے نئے جوتے خریدیں اور بڑوں سے عیدی بھی
لیں اور چھوٹوں کو عیدی بھی دیں لیکن،لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری ذمہ داری یہ
بھی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بھی نہ بھولیں،
حسب توفیق انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔عید اصل میں ہے
ہی دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں
شریک ہونے کا نام ہے۔اسلام کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں اور پھر اسی
مبارک مہینے میں زکٰو ۃ نکالی جاتی ہے یعنی امیر لوگ غریبوں کو دینے کے لئے
ضرورت مندوں کی مددکرنے کے لیے اپنی جمع پونجی (آمدنی)میں سے اسلامی قوانین
کے مطابق کچھ رقم نکالتے ہیں اور غریبوں میں اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ بہت
سے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لئے
کپڑے خرید لئے جاتے ہیں اور یوں سب عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
اسی ماہ صدقہ فطر دیا جاتا ہے جو ہر امیر،غریب،غلام پر واجب ہے۔
علماء حضرات ، دینی شخصیات نے بھی اِس کی خاص تاکید فرمائی ہے۔ہر روز
مفتیان ِ کرائم اور کئی نامور دینی اداروں کی طرف سے بیانات جاری کر کے
عوام سے عید کا اہتمام سادگی سے کرنے کی اپیل ہورہی ہے۔ہم جموں و کشمیر کی
بات کریں تو ماشا اﷲ سیاسی، سماجی، تجارتی ، ملازم، اور غیر سرکاری
تنظیموں، فلاحی اداروں اور دینی انجمنوں کے ساتھ ساتھ اہل ِ مخیرحضرات اور
صاحبِ ثروت افراد نے جس جذبہ کے ساتھ غرباء تک امداد پہنچانے کی مہم چلائی
ہے ، وہ قابلِ ستائش ہے۔اس مرتبہ امدادی سرگرمیوں کے جومناظر دیکھنے کو
ملنے ، اُنہیں دیکھ کر اﷲ تبارک وتعالیٰ کو بھی ’اشرف المخلوقات‘کی اِس ادا
پر رشک آیا ہوگا۔ حکومتی سطح پر بھی جتنا ممکن تھا اقدامات اُٹھائے گئے
لیکن اِس سب کے باوجو د بھی بہت لوگ امداد سے محروم رہے ہیں۔ اس میں ایک
طبقہ وہ ہے جوبظاہر تو خوش اور مالی طور بہتر لگتے ہیں لیکن حقیقت میں
انہیں سخت مالی دشواریوں کا سامنا ہے۔ خود داری کی وجہ سے یہ کسی کے آگے
ہاتھ بھی نہیں پھیلاتے اور نہ ہی اپنی حالت کسی پر ظاہر ہونے دیتے ہیں۔ اِس
حلقہ میں مذہب کی ترویج وترقی اور تبلیغ، وعظ ونصیحت سے جڑے لوگوں کی ہے
جوکسی بھی مذہب سے ہوسکتے ہیں۔ علماء دین، ائمہ مساجد، موزوں اور مدرسین ِ
مدراس اسلامیہ کی بات کریں تو یہ کافی حساس طبقہ ہے جو مرجائے گا لیکن
خوددار ی کی وجہ سے کسی کو اپنی ضرورت بتانا گوارہ نہیں کریگا۔ ماہِ رمضان
میں امت مسلمہ خوب خیرات وصدقات کرتے ہیں، زکوۃ کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے۔
ہمیں چاہئے کہ اپنے اپنے علاقوں میں اِس حساس طبقہ کی ضرورتوں کا بھی خیال
رکھیں۔ چونکہ بیشتر علماء حضرات مساجد یا دینی مدارس سے جڑے ہیں، اس لئے
ہمیں چاہئے کہ حسبِ سابق زیادہ سے زیادہ امداد اِن تک پہنچائی جائے تاکہ یہ
متاثر نہ ہوں۔ عمومی طور پر غریب، مساکین، یتیم،بیوہ، ضرورتمندوں کی شناخت
کرنا آسان رہتا ہے لیکن ایسے خود دار طبقہ کی پریشانیوں کو سمجھ لینا مشکل
رہتا ہے، لہٰذا کوشش کی جائے کہ متاثرین کی امداد کرتے کرتے کہیں اِس خود
دار اورحساس طبقہ کے ساتھ ہم زیادتی نہ کربیٹھیں۔!
ٰحقیقی معنوں میں خوشی تو وہ ہوتی ہے، جودوسروں کو خوش دیکھ کر ملتی ہے۔
اُس خوشی کا کیا فائیدہ کہ آپ اچھا سے اچھا کھانا کھائیں، مہنگے کپڑے
پہنیں، قیمتی کھلونے اپنے بچوں کو خرید کردیں اور پڑوس ، محلہ یاگاؤں میں
کسی کا چولہا نہ جلا ہو، اچھے کپڑے پہننے کے لئے نہ ہوں۔ایسے میں ایک غریب
بچے کے دل کی آہ، آپ کی بدنصیبی بھی بن سکتی ہے۔اگر ہمارے پڑوس میں خاندان
میں کوئی عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہو سکتا غربت کی وجہ سے تو اس کی مدد
کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گئیں ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ
کورونا لاک ڈاؤن نے ہر غریب کیا ، متوسط طبقہ کو بھی پریشان کر کے رکھ دیا
ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں
جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں
اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی
خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے
وہ لازوال ہوتی ہے۔ اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں
اور اگر ہو سکے تو ابھی سے ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے
خرید سکے ،یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اﷲ کی طرف سے ہم پر فرض
ہے۔ اﷲ نے ہم کو دیا ہے تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے۔
اصل میں یہ سب آزمائش تو ہے۔ یہ سب اﷲ کے رنگ ہیں۔ کسی کو دولت ، کسی کو
طاقت، کسی کو عزت ، کسی کو علم،کسی کو عمل تو کسی کو شہرت دیکر آزماتا ہے۔
وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ میرا ’بندہ ‘جس کو میں نے اشرف المخلوقات کا اعزاز
دیا ہے، میری دی ہوئی نعمتوں، مہربانیوں، مراعات کا کسِ قدر استعمال کرتا
ہے۔یہ موقعے بھی کبھی کبھی ملتے ہیں۔آیئے کوشش کریں کہ اِس مرتبہ دوسروں کو
خوشی دیکر خود خوش ہوں ۔جب رمضان کا با برکت مہینہ جب ختم ہو چاند کی 29شام
ہوتو تو غروب آفتاب کا وقت ہرمسلمان کے لئے قابل دید ہواورخوشی کی نوعید
لیکر آئے!!
آؤمل کر مانگیں دعائیں ہم عید کے دن
باقی نہ رہے کوئی بھی غم عید کے دن
ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اترے
اور چمکتارہے ہر آنگن عید کے دن
٭٭٭٭٭٭ |