شادی، بیاہ اور پیسے پھینکنا

جنج (بارات)کے چلنے اور پہنچنے پر ڈھول کی تھاپ، باجا، گھوڑ ناچ وغیرہ پر دلہا کے سر سے مقابلے کی فضا پیدا کرتے ہوئے پیسے پھینکنا، جب کرنسی کی اہمیت تھی تو دھات کے بنے ہوئے سکے پھینکے جاتے،جیسے جیسے کرنسی کی گرتی گئی سکّوں کی جگہ نوٹوں نے لے لی،

اللہ تعالیٰ کی تخلیق پر غور کریں تو عقل، سوچ اور دانشوری دنگ رہ جاتی ہے کہ اشرف المخلوقات کا خالق کتنا عظیم تر ہے، جس کی ایک چھوٹی سے چھوٹی تخلیق بھی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر دُنیا میں بھیجا گیا، اس کے لیے بے شمار چیزوں کو پیدا کیا اور ساتھ ہی معاشرے کے بگاڑ سے بچنے اور سیدھی راہ پر چلنے کے لیے انبیاء کرام کا سلسلہ جاری ہوا تاکہ یہ انسانی مخلوق خود سر اور معاشرے کا بگاڑ نہ بن جائے۔ لیکن اشرف المخلوقات نے اپنا ہی الگ رنگ دکھانے کی کوشش کی۔ معاشرہ بڑا ہوتا ہوا گاؤں، شہر اور ملکوں میں بٹتا گیا۔ان کی پہچان کے لیے مختلف قبیلے، گروہ، اور پیشے معرض وجود میں آئے،پھر انہوں نے اپنے رسم و رواج کو عروج بخشا،انسان کی تخلیق اور افزائش نسل کے لیے میل اور فی میل کے جوڑے بنائے، بطور مسلمان ہم نے سنت محمدیﷺ کو اداکرتے ہوئے شادی کرتے ہیں، شادی کی تقریب کے موقع پر مختلف رسومات ادا کی جاتی ہیں، یہ علاقائی طور پر مختلف ہوتی ہیں، کہیں ہوائی فائرنگ کا مقابلہ، کہیں وزنی پتھر اٹھانے کی رسم وغیرہ وغیرہ لیکن جو اس موقع پر قدرے مشترک رسم ہے وہ ہے جنج (بارات)کے چلنے اور پہنچنے پر ڈھول کی تھاپ، باجا، گھوڑ ناچ وغیرہ پر دلہا کے سر سے مقابلے کی فضا پیدا کرتے ہوئے پیسے پھینکنا، جب کرنسی کی اہمیت تھی تو دھات کے بنے ہوئے سکے پھینکے جاتے،جیسے جیسے کرنسی کی گرتی گئی سکّوں کی جگہ نوٹوں نے لے لی، سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس رسم کا آغاز کیسے ہوا۔ ہم جس یہودی انگریز کو بڑا تہذیب یافتہ شہری گردانتے ہیں، دُنیا میں ترقی یافتہ سمجھاجاتا ہے، اور اس قدر چھا چکا ہے کہ ہم اس کی پیروی کرنا فخر محسوس کرتے ہیں، اور پھرا ن کی نسلوں سے تہذیب سیکھنے کے دعوے کرتے ہیں کیونکہ اس نے اس تہذیب کو اس انداز سے فروغ دیا کہ ہم دیوانے ہو گئے، تو پیسے پھینکنے والی غلامانہ اور جہالت والی رسم اس انگریز کی پیدا کردہ ہے، جو اس زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے، اس نے غربت کا مذاق اڑانے، جہالت کو فروغ دینے اور غلامانہ ذہن کو اجاگرنے کی رسم پیسے پھینکنے سے شروع کی،اس ر سم کو ہم اکثرہندو رسم کہتے ہیں، کیونکہ ہم نے دَور ہی ہندو کا دیکھا ہے، انگریزمردوں یا عورتوں کا جب غربت کا تماشا دیکھنے کو جی چاہتا تو وہ اپنے گھر یا شاہی محل سے باہر نکل کر پیسے پھینکنا شروع کر دیتے، غریب، غربا لوگ ان پیسوں کو پکڑنے کے دوڑتے اور پھر ایک دوسرے سے چھیننے کے لیے لڑ پڑتے، اس طرح یہ بظاہر تہذیب یافتہ بے تہذیبی قوم نے اس کلچر کو جنم دیا اور آج ہم بڑے فخر سے اس کلچر کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں، اسی رسم کی ترقی یافتہ رسم پروٹوکول ہے جو ہمارے خون کا حصہ بن چکی ہے، یہ پروٹوکول کلچر بھی غلامی اور برتری کی تہذیب کو جنم دے چکا ہے، جسے ہم اور ہمارے اداروں نے بخوبی یوں کا توں قبول کرتے ہوئے لاگو کر دیا ہے اور آج اربوں روپیہ پروٹوکول کی نظر ہو جاتا ہے۔ پیسے پھینکنے والی رسم کو آپ خود بھی مشاہدہ کر چکے ہوں گے کہ بچے، بڑے، سب ان پیسوں کی طرف لپکتے ہیں، ایک دوسرے سے چھیننے کے لیے لڑتے، جھگڑتے ہیں، پھر ہم بڑے فخریہ انداز میں ان کو ٹھوڈے مارتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں اوے میرے کپڑے خراب کردئیے، کیا یہ بچے، بڑے ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں کیا پیسے پھینکنے والا کسی اور مخلوق سے تعلق رکھتا ہے، اگر پیسے لوٹانے کا اتنا ہی شوق ہ تو پھر ان کا تماشا دیکھنے کی بجائے ان کو اکٹھا کرکے ایک لائن میں لگا کر یہی پیسے ایک اچھے انداز میں تقسیم کر دیئے جائیں، شاید اسطرح ہم ایک رسم اور برائی کو اچھے انداز میں تہذیب کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں بجائے۔ یہ سوچ کر ہی کچھ کر جائیں شاید کل ان بچوں کی جگہ میرے بچے ایسے ہی ذلیل نہ ہوں ایک دوسرے کا گریبان نہ پھاڑیں، کیونکہ تخت و تاج زمین بوس ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس غلامانہ اور کم تری والی رسم یا تہذیب سے چھٹکارا پانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 156625 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More