فٹبال اور ہاکی کے برعکس کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں کپتان کا کردار
نہایت کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ڈریسنگ روم سے جتنی مرضی ہدایات بھیج
لی جائیں، بہت سے چھوٹے چھوٹے فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو صرف کپتان کو ہی کرنا
پڑتے ہیں۔
پاکستان میں کرکٹ ٹیم کی کپتانی ہمیشہ ایک دلچسپ موضوع رہا ہے کیونکہ اس کے
اثرات بہت دور رس ہوتے ہیں۔ کرکٹ بورڈ سے کہیں زیادہ کردار میڈیا کا ہوتا
ہے جو دیگر شعبوں کی طرح یہاں بھی اپنی خواہش کو خبر بنانے کی بھرپور کوشش
کر چھوڑتا ہے۔
میڈیا کی خواہش ہوتی ہے کہ کپتان ایسا ہو جو گراؤنڈ سے زیادہ رونق میڈیا
کیمروں کے سامنے لگائے۔ میڈیا کو مصباح جیسے 'بورنگ' کپتانوں سے زیادہ شاہد
آفریدی جیسے 'متحرک' کپتان مرغوب ہوتے ہیں جو گاہے بگاہے کوئی نہ کوئی
شگوفہ خبروں کی پلیٹ میں ڈالتے رہیں۔ یا پھر اظہر الدین جیسے کپتان ہوں کہ
پریس کانفرنس کے بیچوں بیچ ٹانگیں میز پہ دھر کے ناخن تراشنے لگیں۔
پاکستان کرکٹ میں، لگ بھگ ہر دور میں، کپتانوں کے تقرر اور برطرفیوں میں
میڈیا نے اپنی اہمیت ثابت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مصباح کا سات سالہ 'بے
خبرا' دور ختم ہوا تو ان سے زیادہ بے خبرے اظہر علی کے تقرر پہ میڈیا نے
بھرپور دُہائی دی۔
|