بات کچھ ایسے شُرُوع ہوئی کے ایک بہت بڑے چینل کے ایک بہت
معروف اینکر نے سندہ حکومت کے ایک نامور وزیرِ کے خلاف کچھ باتیں کہہ دی جو
کے کافی حد تک صحیح بھی تھیں لیکن اس کے بعد اس پورے چینل نے یہ سلسلہ
شُرُوع کر دیا اور بات یہاں تک جا پہچی کے اس وزیرِ کے سوشل میڈیا گروپ نے
بھی ان کی مخالفت میں مہم کا آغاز کر دیا. ان وزیرِ کی سوشل میڈیا ٹِیم اور
ان کی طرف سے بات لعنت ملامت تک جا پہنچی۔
خوب دو چار دن تک آپس میں لگے رہے دونوں۔
اِس دوران سندھ میں کورونا وائریس میڈیا کے مطابق بے قابو نظر آنے لگا اور
ہو بھی کیوں نہ کیوں کہ کروباری مراکز کو جزوی طور پر کھولنے کی اِجازَت جو
مل گئی اب اِس میں کتنی سچائی ہے یہ معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں لیکن اِس
غریب عوام میں ایک امید کی نئی کرن سی نظر آئی کے شاید اب اپنے بچوں کا پیٹ
پال سکے گے کیوں کے پتہ نہیں کتنے ارب روپے کا راشن تو شاید چاند یا مریخ
ہی گیا ہے یا ہو سکتا ہے بھٹو صاحب لے گئے ہوں کیوں کے سندھ کے لیے بھٹو تو
زندہ ہی ہے اب زندہ آدمی کو راشن کی ضرورت تو پڑتی ہی ہے۔
میں جس جگہ رہتا ہوں وہاں کے ایک موٹر بائیک مکینک جس کو دو مہینے کا کرایہ
اپنی دکان کا دینا تھا اس نے کچھ ہمت پکڑ کر اپنی دکان کھولنے کی کوشش کی
تو اسے بھی کچھ کالی وردی والے بھائی اٹھا کر لے گئے اور کچھ ہزار روپے
لینے کے بعد چھوڑ دیا یہ تو صرف ایک کہانی ہے ایسی آپ کے ارد گرد کتنی
کہانیاں ہوں گی جو ہم دیکھتے ہی نہیں ہیں کیوں کے ہم منافق لوگ ہیں لیکن
ہماری سندھ حکومت کی نظر میں سب نے اپنی دوکانوں کے کرائے معاف کردیئے ،
بجلی کے بِل ختم کروا دیئے ، مالی پیکجز سے نواز دیا ، کتوں کے کاٹنے کی
ویکسین کی تو بھر مار لگی ہوئی ہے اور جلد ہی کورونا وائریس کی ویکسین بھی
سندھ سے ہی دُنیا بھر میں جائے گی۔
واپس آتا ہوں ان اینکر کی طرف تو آج ان کا ایک ویڈیو پیغام دیکھا جس میں وہ
ان ہی وزیر صاحب کو ساتھ مل کر کام کرنے کی آفر کر رہے ہیں جو کہ ایک اچھی
بات تو ہے لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بات کچھ ہضم نہیں ہوی۔ میں سمجھ
سکتا ہوں کے مجبوری انسان کے ساتھ ہو سکتی ہے لیکن اگر ہم خود کو بھی
دیکھیں تو ہم سب وہ لوگ ہیں کے جس کو برا بھلا کہتے ہیں اور نجی محفلوں میں
کیا کیا نہیں کہہ دیتے لیکن جب وہی انسان اپنی بڑی سی گاڑی میں آتا ہے اس
کے بیس پچیس گارڈ دیکھتے ہیں اور شان و شوکت سے خوش ہو کر اسی کے سا تھ
سیلفیی لینے کے لیے بھی سب سے پہلے لائن میں کھڑے ہو جاتے ہیں کیوں کے ہم
منافق لوگ ہیں۔ جس ٹی وی چینل کی برائی کرتے ہیں رات کو وہی چینل لگا کر
بیٹھے ہوتے ہیں کیوں کے ہم منافق لوگ ہیں۔
آج سعادت حسن منٹو کا یوم پیدائش تھا میں بس لوگوں کے لیے ان ہیکی ایک بات
کہوں کا کہجو لوگ اخبار پڑھتے ہیں وہ بے وقوف ہیں اور جو لوگ اخبار پڑھ کر
اُس میں لکھی ہوی باتوں پر یقین کرتے ہیں وہ سب سے بڑے بے وقوف ہیں. جن
لوگوں کی اپنی زندگی ہنگامے پر ہو ان کو چھپے ہوئے چیتھڑوں سے کیا مطلب
|