اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

پروفیسر آرنلڈ نے اپنی کتاب ”دعوت اسلامی“میں تذکرہ کیا ہے کہ اسلام سب سے پہلے برصغیر کے ساحلی علاقوں میں تاجروں کے ذریعے پھیلا۔اس کے علاوہ انڈونیشیا‘ملائیشیا اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اشاعت اسلام میں مسلم تاجروں کا اہم کردار رہا ہے۔اس زمانے کے تاجر نہایت ہی بلند کردار کے حامل ہوتے تھے۔ مقامی افراد ان کے افعال و اقوال میں ہم آہنگی دیکھ کر متاثر ہوئے بناء نہ رہ سکتے تھے۔ان کا نصب العین محض دولت کا حصول ہی نہیں بلکہ اسلام جیسا بیش قیمت خزانہ اولاد آدم کے سپرد کرنا بھی ہوتا تھا۔ اس کے برعکس دور حاضر میں معاشی رسہ کشی عروج پر ہے۔ہم اس قدر اخلاقی پستی اختیار کر چکے ہیں کہ معاشر ے میں عزت و وقار نیک طینت اشخاص کے بجائے مال و زر کے پجاریوں کو ملنے لگا ہے۔آدم کی اولاد ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہے۔مسلم ‘مسلم کا معاشی استحصال کرنے پر تلا ہے۔تجارت میں اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔فریب ‘دھوکہ دہی‘خیانت‘بلیک مارکیٹنگ‘اسمگلنگ‘راہزنی‘اور منشیات نے انسانی حیات کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔انسان سائنسی ترقی و آسائش کے باوجو د بے چین و بے سکون ہے۔ان سب مسائل کا حل پیش کرتے ہوئے آئر لینڈ کا عظیم مصنف جارج برنارڈ شا کہتا ہے”اگر دنیا میں امن چاہتے ہو تو محمدﷺ کا قانون نافذ کر دو“۔نیز کسی نے حق و باطل ‘اچھے اور برے کی تمیز کرنے کیلئے یہاں تک کہہ دیا”دنیا میں فقط دو ہی مذہب ہیں ۔ہندو اور مسلمان نہیں بلکہ نیک اور بد“۔اس کی بات حقیقت کے قریب تر نظر آتی ہے۔کم و بیش دنیا کے تما م مذایب میں گناہ سے نفرت اور نیکی کی طرف رغبت کی تعلیمات مشترک نظر آتی ہیں۔چند ادیان کے علاوہ تمام مذہبی پیشواﺅں نے اخلاقیات و فلاح انسانیت کی پر کشش مذہبی پالیسی اپنائی۔لیکن اسلام جیسی ابدی تعلیمات جو فطرت بشر کے عین مطابق ہیں کی مثال لانے سے دنیا قاصر ہے۔اگر آج ہم بے وقعت و بے وقار ہیں‘اگر آج ہم معاشی غلام اور اقتصادی طور پر بد حال ہیں‘اگر آج مسلمان کی حیات ارزاں ہو گئی ہے‘اگر آج مومن کی عزت اچھل رہی ہے(جو رب کریم کو حرمت کعبہ سے بڑھ کر عزیز ہے)‘اگر آج دنیا کا چوتھائی حصہ اور معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود عالمی تجارت میں ہمارا حصہ کم و بیش صرف ٪5ہے‘اگر آج ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم اپنے آشیانوں میں محفوظ نہیں ‘اگر آج اندرون ملک و بیرون ملک ہماری مصنوعات کی قدر نہیں تو اس کی وجہ دین حق سے دوری ہے ۔بقول شاعر
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

مٹھی بھر خائن ٹولے نے اسلامی معاشی نظام کو لاغر و برباد کر دیا ہے۔دولت کے پجاری قیادت کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں ۔افلاطون نے کہا تھا”قیادت تاجر وں کے ہاتھ میں نہیں دینی چاہیے کیونکہ وہ محض اپنا مفاد مدنظر رکھتے ہیں“۔ٍ “۔امت مسلمہ کو اس کا ادراک ہی نہیں ۔عوام بار بار خائن افراد کو حق نمائندگی عطاء کر کے بہتری کی امید رکھتے ہیں ۔اور اس سے بڑی خام خیالی کیا ہو سکتی ہے۔جس کی مثال تیونس کے زین العابدین‘مصر کے حسنی مبارک ‘لیبیا کے معمر قذافی ہیں۔بھیڑوں کی نگہبانی اگر بھیڑیئے کے حوالے کر دی جائے تو بھیڑیں کسی طور بھی باحفاظت نہیں رہ سکتیں۔معاشی نظام کسی بھی قوم کی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔جن ممالک کے بزنس مین دروغ گو‘کرپٹ‘بے ایمان و بددیانت ہوں ان ممالک کی اقوام در در بھیک مانگنے پر محض مجبور بنا دیئے جاتے ہیں۔ خائن افراد کے بارے میں ارشاد ربانی ہے :”بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کر نے والے کو پسند نہیں کرتا(سورہ انفال ۔آیت نمبر58)“۔ذخیرہ اندوز کے بارے میں سرور کائناتﷺ کا فرمان عا لیشان ہے”تاجر کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ کرنے والا لعنتی ہے“۔اسی ضمن میں حضر ت علی ؓفرماتے ہیں”جو شخص 40دن تک غلہ روک کر رکھتا ہے اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے“۔ھل من مزید کا نعرہ لگانے والوں کیلئے ارشار نبوی ﷺ ہے”سب سے برا شخص وہ ہے جو ذخیرہ اندوزی کرتا ہے اگر خدا نر خ کم کر دیتا ہے تو غمگین ہوتا ہے اگر نرخ زیادہ ہو تو خوش ہوتا ہے(بیہقی)“۔بنی آدم زیادہ سے زیادہ زر اینٹھنے کی سعی میں معاشر ے کو جہنم کدہ بنا دیتا ہے ۔جس سے اللہ تعالیٰ سخت ناپسند کرتے ہیں ۔نیز مارکیٹس اور منڈیا ں ذخیرہ اندوزی کی بھینٹ چڑھ کر ویران ہو جاتی ہیں۔مہنگائی عروج پر پہنچ جاتی ہے اور اشیائے صرف عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہیں۔ راہزنی اور جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔جو کہ پر سکون معاشرے کیلئے زہر قاتل سے کم نہیں۔ذخیر ہ اندوزی کے ساتھ ساتھ دور حاضر میں عیب دار اشیاء کی فروخت کو بھی فن تصور کیا جاتا ہے۔بڑے بڑے نیک نام لوگ بظاہر اس میں ملوث نظر آتے ہیں۔عوام الناس کے بقول ”یہ کاروباری تکنیک ہے اس کا دین سے کیا تعلق“۔حدیث مبارک ہے”جو شخص کسی عیب دار چیز کو فروخت کرے اور اس کا عیب نہ بتائے وہ ہمیشہ اللہ کی ناراضگی میں رہتا ہے یا فرشتے ہمیشہ اس پر لعنت کرتے ہیں(ابن ماجہ)“۔ایک مرتبہ ایک اونٹ بغیر عیب بتائے فروخت ہو گیا۔تو رحمت اللعالمینﷺ نے خریدار کو ڈھونڈ کر عیب سے آگاہ کیا اور خریدار کو واپسی کی پیشکش کی۔اس نے محبوب خدا ﷺکی دیانت سے متاثر ہو کر اونٹ کی واپسی سے انکار کر دیا۔مسلم امہ کی اقتصادی بدحالی کی بڑی وجہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا ہے۔جس کے باعث باہمی اعتماد پارہ پارہ ہو گیا ہے۔وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔جب ہم خود اس کو بھگتتے ہیں تو زمانے کی بے رحمی کا ذکر کرتے کرتے ہماری زبان ہی نہیں تھکتی لیکن جب ہمیں بددیانتی کا موقع میسر آئے تو بلا تامل اپنے بھائی کو لوٹ لیتے ہیں یہی ہمارے زوال کی حقیقی وجہ ہے۔ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے ایک ایسے انسان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکا ر کر دیا جس نے مال غنیمت میں سے معمولی نوعیت کی انگوٹھی رکھ لی تھی۔ایک انگوٹھی کی بددیانتی پر اس کو اتنی بڑی سزا سے ہمکنار ہونا پڑا۔اگر آج بددیانت اور خائن افراد کے جنازوں کا عوام اور علماء حق بائیکاٹ کریں تو کرپٹ لوگوں کو عبر ت حاصل ہوگی۔عین ممکن ہے کہ پھر تاجر اسلام کے زریں تجارتی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر معاشرے کو دوبارہ جنت کدہ بنا دیں۔۔نیک تاجر کے بارے میں آپﷺ کا ارشاد پاک ہے”سچا اور ایمان دار تاجر (روز محشر)انبیاء‘ صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا“۔اس سے نہ صر ف ان کی آخرت سنوریں گی بلکہ کاروباری سطح پر بھی انقلاب آئے گا۔(واللہ اعلم بصواب)
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174766 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.