کورونا وائرس اور تعلیمی ادارے

کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں دیگر نظام زندگی درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے وہاں اس سے کچھ زندگی میں تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں مثلاََ نجی تعلیمی اداروں کی بندش وغیرہ ایک دور تھا کہ سوائے دس بارہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے پھر ایک دور آیا کہ وہ بھی نیشنلائز کرلئے گئے اور یوں تمام اسکولز سرکاری ہوگئے مگر پھر مختلف طریقوں سے ان تعلیمی اداروں میں سے کچھ تعلیمی ادارے واپس ان کی نجی انتظامیہ کو دے دیئے گئے پھر رفتہ رفتہ نجی تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیااور ان کی تعدادہزاروں تک پہنچ گئی ان میں سے کچھ تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو ایڈ میشن کے وقت والدین سے نہ صرف ہزاروں ہزاروں روپے فیس وصول کرتے ہیں بلکہ معروف ہونے کی وجہ سے کئی کئی لاکھ روپے ڈونیشن بھی مانگتے ہیں اس کی وجہ ان اسکولوں میں انگریزی ذریعے تعلیم ہے یعنی ہر سبجیکٹ انگریزی میں پڑھایا جاتا ہے دوسرے جن اسکولوں کی فیس اتنی زیادہ ہو وہاں کم آمدنی والے افراد اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا تصور ہی نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ان تعلیمی اداروں کی فیس ادا نہیں کر سکتے ان زائدفیس لینے والے اسکولوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اسکول کا تمام اسٹاف انگریزی بولتا ہے اور چونکہ ہم پر سو سال انگریزوں نے حکومت کی ہے تو ہم اس لحاظ سے آج بھی ذہنی طور پرانگریزوں کے غلام ہیں یہاں میں ایک اور بات بتاتی چلوں کہ آپ انگریزی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اگر آپ اخبارات کی ردی فروخت کرنا چاہیں تو اردو اخبارات کی دری 2 روپے کلو میں فروخت ہوگی جبکہ انگریزی اخبار کی ردی10 روپے کلو میں فروخت ہوتی ہے اس لئے پاکستان میں کسی کا کسی بھی زبان سے تعلق ہو اور وہ کہیں پر بھی رہتا ہومگروہ چاہئے گا کہ اس کا بچہ انگریزی ہی اسکول میں پڑھے اب جبکہ سرکاری اسکولز تو اردو میڈیم ہوتے ہیں وہاں جو انگریزی پڑھائی جاتی ہے وہ ایسی ہی ہے جیسے کوئی غیر زبان والا اردو بولنے کی کوشش کر رہاہوہاں ان سرکاری اسکولوں میں پڑھانا والے ٹیچرز کی تنخواہیں 60,60 ہزار ہوتی ہیں اور اکثر کا تعلق بھی سندھ کے دیہی علاقوں سے ہی ہوتا ہے جہاں کے سرکاری اسکولوں میں بھینسوں کے باڑے یا اوطاق بنے ہوتے ہیں جن کوپڑھنے پڑھانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ تو صرف رشوت ، لسانیت اور سیاسی جماعت سے تعلق کی بنیاد پرمحکمہ تعلیم میں بھرتی ہوجاتے ہیں جن میں سے اکثرسائیں سائیں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ہیں اور جہاں سائیں ہووہاں سائیں کا کتا بھی سائیں ہو تا ہے لہذا وہاں کسی دوسرے کی کیا اہمیت ہاں اگر کوئی غیر جانبدار ادارہ ان ٹیچرز کا ٹیسٹ یا امتحان لے تو ان کی ساری قابلیت دھری کی دھری رہ جائے گی ہمارے یہاں سرکاری اسکولوں اور کالجز کے طلباء اس لئے ٹیوشن سینٹروں میں داخلہ لیتے ہیں کیونکہ انہیں امتحانات دے کر کامیاب ہونا ہے ورنہ انہیں معلوم ہے کہ وہ کن قابل ترین لوگوں سے ان تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں محکمہ ایجو کیشن واحد محکمہ ہے جہاں بغیر رشوت کے ملازمت مل ہی نہیں سکتی اور جس کے لئے بھاری رشوت دینی ہی پڑتی ہے ورنہ وہ سرکاری ملازمت کے لئے امیدوارارضی دیتے دیتے اس کی عمر شادی کی طرح ملازمت کے لئے بھی نکل جاتی ہے جس سے وہ وہ کبھی بھی سرکاری اسکول یا کالج میں نوکری حاصل نہیں کر پاتا سرکاری اسکولوں کی کارکردگی یہ ہے کہ اربوں روپے کی عمارتیں طلباء کی تعداد نہ ہونے کی وجہ سے خالی پڑی ہیں اور بعض جگہ تو طلباء کی تعداد سے زیادہ وہاں پر ٹیچرز ہیں جو اسکول وقت میں سوائے خوش گپیوں ،سموسے کھانے ،چائے پینے اور اپنے اپنے گھروں کی ساس نندوں کی شکایتیں اور کہانیاں سنانے سنے میں صرف کر دیتی ہیں اسی طرح جو اسکول نیشنلائز ہو گئے تھے ان میں سے آج بھی بڑی تعداد محکمہ ایجوکیشن کے پاس ہے جن کا کرایہ اسکولز اونر کو ملتا رہتا ہے ان اسکولوں کی حالات انتہائی نہ گفتہ بے ہے چونکہ سرکار ان اسکولوں کی مرمت یا دیکھ بھال پر ایک پیسہ خرچ کرنا نہیں چاہتی جس کی وجہ سے ان اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء اور ٹیچرز کی زندگی خطرے میں رہتی ہے کہ مخدوش چھت کب ان پر آ گرے سرکاری اسکولوں کی اکثر عمارتوں میں نہ بجلی ہے اور نہ ہی پانی جس کی وجہ سے واش روم بھی موجودنہیں ٹیچرز کہتی ہیں کہ ہم دوپہر میں گھر سے کھانا کھا کے نہیں آتے کہ اگر واش روم جانا پڑے تو کہاں جائیں گے جبکہ اسکول کی طالبات نے جھاڑیوں میں بیت الخلا ء بنائے ہوئے ہیں اسی طرح بہت سارے سرکاری اسکولز ایسے ہیں جہاں طلباء نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مرج کردیا گیا ہے اس طرح ایک اسکول کی عمارت میں چار چار پانچ پانچ اسکولوں کو ضم کر دیا گیا ہے جسے کیمپس کا نام دے دیا جاتاہے اور جو خالی اسکول ہو جاتے ہیں ان میں لینڈ مافیا کی نظریں جمی ہوئی ہوتی ہیں کہ کب وہ ان پر قبضہ کریں یا اس کی عمارت کو توڑ کر فلیٹ یا پلازہ بنائیں


 

Sonia Ali
About the Author: Sonia Ali Read More Articles by Sonia Ali: 34 Articles with 37469 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.