یہ کرہِ ارض انسانی زندگی کی ابتداء سے لے کر آج تک
ہزاروں آسمانی آفات و بلیات، اور طرح طرح کے حادثات، وباؤں اور بلاؤں کو
دیکھ چکا، چشم فلک نے کبھی تو یہاں بلند وبالا پہاڑوں کو سمندروں میں غرق
ہوتے دیکھا اور کبھی پتھروں کی بارش سے کبر و ریا میں لتھڑے سرکشوں کو
کچلتے دیکھتے- کبھی دوسری ارضی آفات زلزلوں آندھیوں طوفانوں سے بڑے بڑے
عالیشان شہروں اور پرشکوہ محلات کو زمین بوس اور کھنڈرات بنتے دیکھا اور
کبھی بھوک قحط، امراض و بیماریوں سے انسانوں کے نرم و نازک سجے سجائے وجود
گلتے سڑتے دیکھے- یقیناً یہاں جب تک زندگی کے آثار باقی ہیں، پتا نہیں اور
کیا کیا کچھ دیکھنا ابھی باقی ہے-
حالیہ دور میں لگ بھگ پچھلے چار پانچ ماہ سے دنیا مسلسل ایک نئی آفت کرونا
وائرس کے زیر عتاب ہے- لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے اور مزید لاکھوں اموات
کی پیش گوئیاں کی جا چکی ہیں- دنیا کے بڑے بڑے سربراہان اور نامی گرامی
شخصیات سمیت عالمی ادارہ صحت بھی یہ کہہ کر اپنی بے بسی کا اظہار کر چکا ہے
کہ دنیا کو اب کرونا کے ساتھ ہی جینا پڑے گا- اس بحث سے قطع نظر کہ دنیا کے
ساڑھے سات ارب انسان اس بلا سے کب چھٹکارا حاصل کر پائیں گے یا دنیا کی وہ
قابل رشک اکانومی جو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے... دوبارہ
کیسے بحال ہو گی، یا یہ کہ موت کو شکست دینے کے لئے قائم کی گئی بڑی بڑی
بائیولوجیکل ریسرچ لیبارٹریز دوبارہ کب فعال ہوں گیں- صرف اتنا کہنا چاہوں
گا کہ اس کائنات سے ماوراء بھی کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو صاحبِ اختیار ہے
اور جس کے کارخانہہِ قدرت سے یہ تمام عوامل ظہور پذیر ہو رہے ہیں - جو
انسانیت کی تمام تر مادی و سائنسی ترقی کے باوجود اسے عاجز، بے بس اور
لاچار کر سکتی ہے- یقیناً یہ وہی ھستی ہے جو بنی نوع انسان کی ابتدا سے لے
کر آج تک اس کائنات میں ہونے والے تمام ارتقاء و تغیر کا سبب بھی ہے اور
جوکسی بھی لمحے اس کے فانی پن کو آشکار کر کے رکھ دیتی ہے-
اگرچہ موضوع یہ نہیں کہ اس عالمی وبا کے خلاف کیے جانے والے اقدامات سے
دنیا پر کون سے مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور نہ ہی اس امر سے
دلچسپی ہے کہ اس سے لوگوں کی انفرادی یا اجتماعی زندگیاں کس حد تک متاثر
ہوئیں، البتہ اتنا مدعا ضرور ہے کہ ایسی ارضی و سماوی آفات دنیا کے ہر دور،
ہر عہد اور ہر علاقے اور خطے میں آتی رہیں، اور یقیناً ساری انسانی تاریخ
گواہ ہے کہ ہر زمانے کا عالمی ادارہ صحت ہر بار ہر ممکن معرکہ آرائی کے بعد
اپنے دور کے انسانوں کو انہی مصائب و آلام کے ساتھ ہی زندگی بسر کرنے کا
مژدہ سناتا نظر آیا- آج جب کہ جدید دنیا کی جدید ٹیکنالوجی اور مادی وسائل
ایک معمولی اور حقیر سی مخلوق کے ہاتھوں عاجز آ چکے ہیں- دنیا کے طاقتور
ترین افراد، لاکھوں سائنسدان، ریسرچر ڈاکٹرز اور ماہرین نہ صرف انگشت
بدنداں ہیں،بلکہ بے بسی سے سر پیٹتے نظر آ رہے ہیں تو یقیناً اس حقیقت کے
اظہار میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ یہ وبائیں اور بلائیں ایک ایسا میکنزم
ہیں جسے خالقِ حیات نے انسانی زندگی کی برق رفتار گاڑی میں کچھ ایسے فٹ کر
دیا ہے کہ راستہ بھٹکتے ہی فطرت کے بے رحم تھپیڑوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسے
بالآخر راہ راست پر آنا پڑے- اور یقیناً روز ازل سے یہی فطری اصول کارگر
رہا کہ انسان زندگی کے ہر دور میں ایسی ارضی و سماوی آفات سے نبرد آزما
رہے، اور ہر بار انہیں خالقِ کائنات کے بنائے گئے اصول و ضوابط کے دائرے
میں ہی پناہ ملی- یہی وہ آفاقی سچ ہے جسے جھٹلانے کے سبب ہر دور کے
فرعون،ہامان اور شداد جیسی سپرپاورز نیست نابود ہوئیں- اور عاد و ثمود جیسی
قومیں نشانِ عبرت بنیں-
آج یہ امر مسلم ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب و مسالک اپنے اپنے انداز و اطوار
سے ایک ایسی مافوق الفطرت ھستی کو پکار رہے ہیں جو اس کائنات کا خدا ہے- جو
ہر دم متحرک اور بالادست ہے اور جس کے نام کی گونج آج بڑی سپر پاورز کے
ایوانوں میں سننے کو مل رہی ہے- آج کرونا کی شکل میں ایک بار پھر دنیا کی
گاڑی کو سرکشی اور بغاوت کے لق و دق،درشت اور خاردار راہ سے بچانے کے لئے
وہی فطری میکنزم اپنا اثر دکھا رہا ہے، جو ہمیشہ سے ایسے وقت میں بالکل
ایسے ہی قابل عمل رہا- اور شائد اس وقت تک موثر رہے جب تک انسانی زندگی
نظام فطرت کے اصولوں کے تابع نہیں ہو جاتی- بحیثیت انسان یہی وہ کلیہ ہے جس
سے انسانی زندگی کو ایک موثر اور پائیدار طریقے سے بسر کیا جا سکتا ہے-
|