باسی روٹی

یہ جو باسی روٹی آپ اس تصویر میں دیکھ رہے ہیں ناں، اسے کھانا کچھ عرصہ پہلے تک میری مجبوری ہوا کرتی تھی۔ لیکن آج میں نے بڑے پیار سے اسے اپنے کھانے کیلئے تیار کیا ہے، کیونکہ اس روٹی کے ساتھ میری بڑی یادیں جڑی ہیں۔

یہ جو باسی روٹی آپ اس تصویر میں دیکھ رہے ہیں ناں، اسے کھانا کچھ عرصہ پہلے تک میری مجبوری ہوا کرتی تھی۔ لیکن آج میں نے بڑے پیار سے اسے اپنے کھانے کیلئے تیار کیا ہے، کیونکہ اس روٹی کے ساتھ میری بڑی یادیں جڑی ہیں۔

اکثر میں رات میں ناشتے کا سامان منگوانا بھول جایا کرتی تھی، اب صبح ہی صبح جب کچن کا رخ کرو تو خالی کیبنٹ منہ چڑا رہا ہوتا تھا۔ کچھ ناشتے کیلئے بھی چاہئے ہوتا تھا اور ساتھ اسکول لے جانے کیلئے بھی کیونکہ ماشاءاللہ میں ایک استانی ہوں اور میرے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے (شاگرد) مجھے اپنے پیچھے اتنا دوڑاتے ہیں کہ دس بجتے ہی غضب کی بھوک لگ جاتی ہے۔ اب جب مجھے کیبنٹ میں کچھ نہیں ملتا تھا تو باقی باورچی خانہ کھنگالا جاتا تھا۔ تو ملتی تھی یہ باسی روٹی اور انڈے۔

تو جناب ہم اس روٹی سے ہی دو دو ہاتھ کرنے کے عادی ہو گئے تھے، باسی روٹی کو گرم کرنے کے بعد اصلی دیسی گھی لگایا اور انڈے کے ساتھ لے کر بیٹھ گئے کھانے۔ آدھی روٹی ناشتے میں کھائی اور آدھی اپنے ٹفن میں رکھ لیا کرتے تھے۔

رستے بھر یہی خیال رہتا کہ اب سے یاد رکھوں گی اور ناشتے کا سامان رات میں ہی منگوا کر رکھ لیا کروں گی۔ اب آج بھی چائے کے ساتھ یہی گھر والی روٹی اور انڈہ کھانا پڑے گا، جو کہ بریک کے وقت چائے پیتے ہوئے اور بچوں کی ہوم ورک ڈائریز چیک کرتے ہوئے کھانا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔آج جب میں نے بھوک لگنے پر باورچی خانے کا رخ کیا تو دنیا بھر کی تمام نعمتیں موجود ہونے کے بعد بھی میرا ہاتھ اس باسی روٹی کی طرف گیا اور بالکل اسی انداز میں انڈہ اور گھی والی روٹی ساتھ کھانے کیلئے بیٹھی تو مجھے اس کا ذائقہ بڑا مختلف سا لگا۔ ایسا لگا جیسے آج کی روٹی میں کچھ کمی سی ہے، جیسے میں کچھ بھول رہی ہوں، جیسے ماحول بدلنے پر وہ چیز اپنا ذائقہ کھو چکی ہو۔کیا ایسا ممکن ہے؟

جی ہاں، ایسا ممکن ہے کیونکہ یہ میرا آج کا اور ابھی کا تجربہ ہے۔ جب میں اپنے پیارے پیارے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا کرتی تھی، ایک ہاتھ سے چائے کا مگ بھی بچا رہی ہوتی تھی جس پر لکھا تھا (آئی نیڈ ویکیشن) اور بچے گاہے بگاہے چائے کا اتنا بڑا مگ میرے ہاتھ میں دیکھ کر مسکرا رہے ہوتے تھے، کبھی کبھی پوچھ بیٹھتے تھے کہ " مس، کیا آپ کو چھٹیاں بہت پسند ہیں؟" اور میرا جواب ہمیشہ ’’ جی ، بہت زیادہ ‘‘ہوا کرتا تھا۔بچے اپنے اساتذہ کی ایک ایک چیز، ایک ایک بات نوٹ کیا کرتے ہیں، میں نے ایک بار ایک ورک شاپ کروائی جس میں کھانے کے آداب اور کھانے کی سنتیں بچوں کیلئے بتائی گئی تھیں، اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب بچے کھانے کے وقفے کے دوران میری ایک ایک حرکت پر نظر رکھنے لگے تھے، میں کیسے کھاتی ہوں، کیسے پیتی ہوں۔ ایک ایک بات ان کی نظر میں ہوتی تھی۔ کھانے کی سنت میں سے ایک یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھائیں، پانچویں انگلیوں سے نہیں۔ اب یہ تھا میرا سب سے بڑا ٹاسک۔ تو میں نے اس ٹاسک کو اس طرح پورا کیا کہ بچوں کے سامنے یہ روٹی رکھ کر میں نے کہا، کہ میں آج سے تین انگلیوں سے کھانے کی مشق کر رہی ہوں، کون کون اس مشق میں میرا ساتھ دے گا؟ اور ماشاءاللہ میری پوری فوج میرے ساتھ اس میں شریک ہو گئی۔ اس کے بعد کیا استانی جی اور کیا ان کے بچے، سبھی تین انگلیوں سے کھانا کھانے کی عادت ڈالنے لگے۔ لیکن اب کافی وقت ہو گیا، میری یہ عادت بدل رہی یے، وہ بچے میرے سامنے ہیں ہی نہیں جو مجھے کھانا کھاتے وقت ٹوک دیا کرتے تھے اور میں معذرت کر کے دوبارہ تین انگلیوں سے کھایا کرتی تھی۔ اب یاد آیا، میری روٹی کا ذائقہ کیوں بدلا بدلا سا ہے۔ میرے سامنے وہ ننھے فرشتے ہی نہیں جن کے پیچھے بھاگتے بھاگتے میں روٹی اور چائے ٹھنڈی کر دیا کرتی تھی۔ پھر بدلے میں مصنوعی غصہ بھی تو دکھانا ہوتا تھا کہ کب آئےگا وہ وقت جب مجھے سکون سے روٹی کھانا نصیب ہوگا۔ چلو، صبح کی چائے گرم ہی نصیب ہو جائے۔کل کس نے دیکھا ہے، کیا پتا تھا کہ جو بات اتنی بے دھیانی میں زبان سے نکل رہی ہے وہ کبھی پوری ہو جائے گی اور اس طرح پوری ہو گی کہ آنکھوں میں آنسو لے آئے گی۔یہ وقت عام وقت تو نہیں ہے اور نہ یہ چھٹیاں عام گرمیوں کی چھٹیوں جیسی۔آخری بار اپنے بچوں کو چھبیس فروری کے دن دیکھا تھا، اس کے بعد دو دن کی چھٹیاں ہوئیں اور بڑھتی ہی گئیں۔ کل اپنے سکول کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں تمام بچوں کو اگلی جماعت میں پروموٹ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

دل بجھ سا گیا، اب کبھی ان بچوں کو ایک ساتھ ایک جماعت میں نہیں دیکھ پائیں گے، ان بچوں کو تو اللّٰہ حافظ بھی نہیں کرسکے، پیار بھی نہیں کر سکے، نہ دعائیں دے سکے۔میری اس شعبے کی بہت ہی خواتین رول ماڈل ہیں، ان کی کافی باتیں مجھے یاد ہیں، ایک بات اب شدت سے یاد آرہی ہے کہ ’’یہ بچے اللّٰہ تعالیٰ نے تھال میں رکھ کر ہمارے حوالے کیے ہیں، کہ ان کی تربیت کرو اور انہیں اپنے لئے صدقہ جاریہ بنا لو‘‘ پتا نہیں، تربیت اچھی طرح کر سکے یا نہیں، نہیں معلوم کہ اتنی محنت کے بعد بھی اللّٰہ راضی ہوا یا نہیں،کیا معلوم اچھی اور نیک نیت ہونے کے بعد بھی کہیں کوئی کوتاہی تو نہیں ہو گئی۔وہ معصوم بچے، ہماری کوئی بات ان کے دلوں کو زخمی تو نہیں کر گئی۔اللّٰہ سے بہت دعا ہے ان تمام بچوں کیلئے کہ ان کی زندگیاں پھر سے اپنی اصل ڈگر پر واپس لوٹ آئیں۔ اللّٰہ پاک انہیں اپنے رستے کیلئے اپنے دین کیلئے چن لے۔ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت واپس تو ہر گز نہیں آسکتا، وقت واپس کب آتا ہے۔ وقت تو گزرتا جاتا ہے۔

بہت منتشر خیالات کے ساتھ یہ تحریر لکھنے بیٹھی، کیونکہ کل ایک الوداعی پیغام اپنے بچوں کیلئے لکھا، سب بچوں نے پڑھا،ان کی ماؤں نے پڑھا، کتنے ہی بچوں کے اور ان کی ماؤں کے روتے ہوئے لہجے وائس میسج میں سنے۔ جن کی آواز چہچہایا کرتی تھی وہ بھی دل گرفتہ تھے۔جو نہ کبھی سنا، نہ دیکھا، نہ کبھی سوچا، ایسا وقت آیا ہے۔ لیکن اللّٰہ کے رسول کی حدیث ذہن میں آتی ہے کہ ’’میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘ اور ہم بھی علم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں تو ہر ہر معاملے میں اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی ہے، تاکہ اپنے بچوں کو وہ سبق آسانی سے سکھا سکیں جس پر خود بھی عمل کرتے ہیں، تو جیسا کہ اللّٰہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی غم کی کیفیت میں یہ الفاظ کہے تھے، ہم بھی یہی کہتے ہیں:" آنکھ آنسو بہاتی ہے، دل غمگین ہے مگر اس کے باوجود ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔"بس اس زندگی کا مقصد اللّٰہ کو ہر حال میں راضی رکھنا ہے۔ غم تو بہت ہے اپنے طلبہ سے بچھڑنے کا مگر دعائیں بھی ڈھیروں ڈھیر ہیں۔
 

Kanwal Fatima
About the Author: Kanwal Fatima Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.