دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیان
تخلیقِ انسانیت پر اگر غور کیا جاۓ تو یہ بات سا منے آتی ہے کہ انسان کی
تخلیق ایک دوسرے انسان کے ساتھ محبت ،مروت،اخلاق و اخلاص اور ایثار قربانی
پر منحصر ہے۔قران مجید اور حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی تعلیمات
سے ہمیں یہ بات سیکھنے کو ملتی ہے کہ سب سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں
کو فاٸدہ پہنچاۓ اور کسی کو تکلیف نہ دے۔غریبوں،مسکینوں اور عام لوگوں کے
دلوں میں خوشیاں بھرے،ان کی زندگی سے تکلیفوں کو دور کرے اور خوشیاں بھکیر
دے۔
اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم نے فر مایا کہ
”بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسان کی لیے نافع و مفید ہو“
ایک اور جگہ پر حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم نے فر مایا ” جو کسی
مسلمان کے رنج و غم کو دور کرے گا اللہ تعالی قیا مت کے دن اس کی مصیبت کو
دور کر دے گا“
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف و المخلوقات بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔حضرت
علیؓ فرماتے ہیں کہ انسان اور جانور میں فرق صرف عقل کا ہے اگر انسان عقل
کو دبا لے تو جانور اور اگر انسان خواہش کو دبا لے تو فرشتہ بن سکتا ہے
جانور اپنے مفاد کے لیے دوسرے جانور کو نقصان پہنچا تا ہے انسان بھی کچھ اس
طرح کا کام کر رہا ہے۔اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو قتل کر نے میں بھی کوٸی
عار نہیں محسوس کرتا۔غر ض یہ کہ اپنے مفاد کے لیے انسان کچھ بھی کرنے کو
تیار ہے۔
پاکستان جیسے ملک کی مثال لے لیں یہاں اکثریت آبادی مسلما نوں کی ہے ۔اللہ
کو مانتے تو ہیں مگر اللہ کی اک نہیں مانتے ۔اسلام میں خلقِ خدا سے محبت پر
بہت زور دیا گیا ہے لیکن مسلمان اس بات پر عمل نہیں کرتے۔ہر شخص دوسرے کو
نیچا دیکھانے کی کوشش میں لگاہوا ہے چا ہے وہ ریڑھی والا ہو ،سیاست دان ہو،
ڈاکٹر ہو، پولیس آفیسر ہو، کو ٸی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہے۔ ذاتی مفاد کے
لیے گورنمنٹ کے اداروں میں ایک فاٸل دوسرے ٹیبل پر نہیں جا سکتی۔ پیسہ
کماناان کی زندگی کا آخری مقصد ہے جس کے لیے وہ ہر قدم اٹھانے کو تیار ہیں
اس کے مثال موجودہ صورتحال سے لے لیں کہ کرونا جیسا مرض نقصان دہ تو ہے ہی
مگر اس سے زیادہ وہ لوگ معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں جو اپنے مفاد کے لیے
کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔خدا ہمارا ہامی و نا صر رہے آمین
غالب کی اک نظم قارٸین کی نظر
کو ٸی امید بر نہیں آتی
کوٸی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جُو چُپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہما ری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبے کس مُنھ سے جاٶ گے غّا لب
شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
|