وبا میں زندگی کی تلاش

پچھلے دس دن اس نے بڑے کرب میں گزارے تھے۔اس کے اپنے گھر میں کوئی اس سے بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اسے سب وبا کا مریض قرار دے رہے تھے۔ اس کے کمرے کے باہر تالا تھا کہ کہیں وہ باہر نکل آیا تو سب بیمار ہو جائیں گے۔ دن میں دو وقت تالا کھلتا۔ تھوڑا سا دروازہ وا ہوتا اور اس میں سے ایک ملازم بڑی احتیاط سے اس کے دھوئے ہوئے برتنوں میں کھانا ڈال دیتا اور دروازے کو دوبارہ تالا لگ جاتا۔وہ کھانے کھانے کے بعد برتن دھو کر وہیں رکھ دیتا تا کہ دوبارہ کھانا انہی برتنوں میں ڈالا جا سکے۔ وبا کے ڈر نے سارے اپنوں کو بیگانہ بنا دیا تھا ۔دس دن پہلے وبا کے ہاتھوں جب وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تو وہ اس وقت ساری احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرتا وہ اس کے پاس تھا، اس نے اس کے ہاتھوں میں دم دیا تھا۔ پہلے ہسپتال والوں نے اسی جرم میں اسے وہیں رہنے کا پابند کیا ۔ اسے اسی بستر پر زبردستی لٹا دیا گیا کہ مرض کو خود اس نے بیوی کو چھو کر اپنا لیا ہے۔ اس کے سامنے مرنے والی کو پلاسٹک کے تھیلوں میں پیک کیا گیا اور پھر ایک تابوت میں بند کرکے وہ تابوت ایمبولینس میں قبرستان کو لے کر چلے۔خا ندان کے دو تین لوگوں اپنی گاڑی میں اس کے ہمراہ تھے۔اس نے وارڈ میں گھس کر اپنی بیوی سے آخری وقت میں ملاقات کی تھی، اسے چھوا تھا اس لئے ڈاکٹروں کی سخت ہدایت تھی کہ وہ اب مریض ہیےہاں سے کہیں نہیں جا سکتا۔ حد تو یہ تھی کہ وہ اپنی رفیق کے آخری سفر میں اسے الوداع کہنے بھی نہیں جا سکتاتھا۔مگر یہ کیسے ممکن تھا۔ اک عمر ساتھ گزارنے والی کے لئے آدمی اتنا بھی نہ کر سکے۔ یہ کیسی بے بسی تھی۔

وہ بالکل ٹھیک تھا، تندرست تھا مگر ایک مریض کو چھونے کی پاداش میں ہسپتال میں زبردستی لٹا دینے اور سختی سے وہاں سے نہ ہلنے کی ہدایات کے باوجود اس کا ذہن فقط ایک ہی سوچ میں مگن تھا کہ وہ کسی طرح اسے اپنی آنکھوں کے سامنے الوداع کہہ سکے۔ دروازے پر اس کی نظر پڑی تو چوکیدار موجود نہیں تھا۔ اس نے داہیں باہیں دیکھا اور ہر ایک کو اپنے حال میں مگن پا کر تیزی سے بھاگ نکلا۔اس پتہ تھا کہ وبا کے مارے لوگوں کے لئے قبرستان کا ایک علیحدہ گوشہ مخصوص ہے پوچھتا ہوا وہ قبرستان کے اس حصے میں پہنچا تو اس کی تدفین جاری تھی۔ ایک لمبے کپڑے میں لپٹا اس کا تابوت ہاتھ لگائے بغیر قبر میں پھینکا جا رہا تھا۔ قبر کیا بس ایک گڑھا تھا، جس میں اسے ڈال کر اوپر مٹی ڈال دی گئی۔ قبر سے کافی ہٹ کر اس کا بیٹا اور دوسرے عزیز کھڑے تھے۔ جو ایک دم اسے دیکھ کر یوں بھاگ کر اس طرح پرے ہٹے جیسے کوئی بھوت پریت دیکھ لیا ہو۔ اس کا بیٹا اس سے ناراض دور ہی سے گویا ہوا،’’آپ نے وبا کو چھو لیا ہے ، آپ اب یہاں کیوں آئے ہیں، آپ چاہتے ہم سب بھی وبا کے ہاتھوں بیمار ہو جائیں‘‘۔ اس نے سنی ان سنی کر دی وہ کیا بتاتا کہ اس نے وبا کو نہیں زندگی کو چھوا تھا۔ وہ جو اسے چھوڑ کر چلی گئی وہی تو اس کی زندگی تھی۔ اس کے بغیر زندگی کیا ہر چیز ہی بے معنی تھی۔ وہ اسی سوچ میں مگن رہا اور اسے پتہ بھی نہ چلا ، کب وہ لوگ اسے دفنا کر چلے گئے۔

وہ قبر کے پاس بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کہاں جائے، کون اسے پوچھے گا، کون اس کا خیال رکھے گا، وہ جو اس کی زندگی تھی، وہ جس کے دم سے زندگی میں رونق تھی وہ تو اسے چھوڑ کر یہاں لیٹی تھی اور اس کے چاہنے کے باوجود اس کے ساتھ واپس گھر نہیں جا سکتی تھی۔ اس کی غیر موجودگی میں زندگی کیا ہو گئی۔شاید چند سانسیں جنہیں زندگی تو نہیں کہا جا سکتا۔جینے کے باقی لمحے شاید اسی ڈور کے ٹوٹنے کا انتظار تھا اور کچھ بھی نہیں۔ آدھی رات بیت گئی تو وہ اٹھا اور تھکے تھکے قدموں سے گھر کو چل پڑا۔

جب تک وہ زندہ تھی تومعمولی سی تاخیر پر گھر میں ہنگامہ بپا کر دیتی کہ پتہ کرو، وہ کہاں ہے ، دیر کیوں ہوئی۔ سب ڈھونڈھ رہے ہوتے۔ آج کسی کواحساس ہی نہیں تھا کہ وہ کس قدر تنہا اور کس قدر بے بس قبرستان میں زندگی تلاش رہا ہے۔یہ عجیب قبرستان تھا یہاں دفن ہونے والوں کے لئے بعد میں کوئی فاتحہ خانی کے لئے بھی نہیں آتا ۔ اس قدر ویرانی اور خوف میں کوئی اس کی خبر لینے کیسے آتا۔شاید گھر والے بھی چاہتے تھے کہ وہ اب گھر نہ آئے مگر وہ کہا ں جاتا۔گھر کافی دور تھا۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا رہا ۔ گھر پہنچا تو صبح ہو چکی تھی اور سورج پوری طرح چمک رہا تھا۔ دروازہ کھلا تھا۔ وہ گھر میں داخل ہوا اوراپنے کمرے میں جا کربے سدھ اپنے بیڈ پر گر گیا۔ اسے لگا کہ اس کی آمد پر گھر میں کچھ شور اٹھا ہے اور پھر اس کے کمرے کا دروازہ کسی نے بند کرکے باہر سے تالا لگا دیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد اس کے بیٹے نے بند دروازے سے اسے ہدایات دیں کہ اب وہ باہر نہیں نکلے گا۔ کھانے کے جو برتن پہلی دفعہ اندر رکھے جائیں گے، انہیں وہ دھو کر دروازے کے پاس رکھ دے گا تاکہ ملازم اگلے وقت کا کھانا انہی برتنوں میں انڈھیل دے۔اس بیماری کا علاج فقط تنہائی ہے ۔ اور اسے تنہا رہنا ہے۔

دس دن بعد اسے بتایا گیا کہ ابھی ایمبولینس آ رہی ہے اور اسے ٹیسٹ کے لئے جانا ہے۔ ایمبولینس آئی تو کمرے کا دروازہ کھلا اور اسے حکم ہوا کہ جلدی سے ایمبولینس میں چلا جائے۔ وہ باہر نکلا،شاید ملازموں سمیت سب گھر کے لوگ اس کے ڈر سے چھپ گئے تھے۔ وہ سیدھا ایمبولینس میں سوار ہو کر ایک لیبارٹری پہنچ گیا۔ اسے ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھا کر کچھ خلائی مخلوق نما لوگوں نے اس کا ٹیسٹ لیا اور رزلٹ آنے تک اسی کمرے میں بند کر دیا۔ شام تک وہ اسی طرح بند رہا۔اس دوران کسی نے کچھ کھانے یا پینے کے لئے اسے نہیں پوچھا۔ شاید اس کی بھوک اور پیاس بھی مر چکی تھی۔ اس لئے اسے کچھ محسوس نہیں ہوا۔ شام کو اس بند کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک ڈاکٹر اس کی رہائی کا پروانہ لے کر آیا۔ اسے مبارک دی کہ آپ کا ٹیسٹ نیگیٹو آیا ہے ،آپ اپنے گھرجا سکتے ہیں۔

گھر کونسا گھر، وہ گھر جو پندرہ دن پہلے واقعی اس کا گھر تھا، اب وہ گھر کہاں۔ گھر تو انسانوں سے ہوتا اور بستا ہے۔ اکیلا تو اکیلا ہوتا ہے اور اس کے اکیلے دم سے گھر کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔پندرہ دن پہلے وہ اپنی ہمدم ، اپنی ساتھی کو لے کر ہسپتال آیا تھا۔اسے تین چار دن سے کھانسی اور بخار تھا۔ بدلتے موسم میں یہ عام سی بات ہے مگر وہاں موجود ڈاکٹر نے اسکو چیک کئے بغیر وبا کی مریض قرار دے کر وبا کے مریضوں کی وارڈ میں زبردستی بھیج دیا۔وارڈ کے باہر چوکیدار گیٹ کو تالہ لگائے بڑا مستعد بیٹھا تھا۔ اس کی بیگم وارڈ کے اند ر اور وہ باہر شور مچاتے رہے کہ وہ ٹھیک ہے ، اسے کوئی وبا نہیں ، اس نے ڈاکٹروں کی منتیں کیں کہ وہ اکیلی مر جائے گی، اسے مجھ سے جدا نہ کریں ۔ مگر کوئی سننے کو تیار نہیں تھا۔ وہ پانچ دن اس نے وارڈ کے باہر ٹرپتے ہوئے گزارے۔ہسپتال کے عملے سے اسے پتہ چلتا رہا کہ اس کی بیگم کی حالت انتہائی خراب ہو رہی ہے مگر وہ بے بس تھا۔ پانچویں دن وارڈ اٹنڈنٹ نے اسے بتایا کہ اس کی بیگم قریب المرگ ہے ۔

وہ ترپ اٹھا ۔ بڑی مشکل سے جوڑ توڑ کرنے کے بعد وہ کسی طرح اس کے پاس پہنچ گیا۔ وہ بے ہوش پڑی تھی، چہرے پر شدید کرب لئے وہ بے ہوش پڑی تھی۔ اس نے اسے پکارا۔ وہ شاید اسی انتظار میں تھی۔اس نے آنکھیں کھولیں اور بازوپھیلا دئیے، اس کے چہرے پہ اب مسکراہٹ اور بلا کا سکون عود آیا۔ اس نے تیزی سے اسے اٹھایا ۔ وہ اس کے سینے سے لگ گئی اور اتنا کہا، ’’آپ آ گئے، میں بڑی دیر سے آپ کی منتظر تھی، ‘‘ پھر مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور اس کی گردن ڈھلک گئی۔ شاید اس کی موت کو بھی اس کا انتظار تھا۔ وہ اسے ہاتھوں میں اٹھائے پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگا۔وارڈ میں شور مچ گیا۔ مریضہ فوت ہو گئی مگر یہ شخص اس سے ملنے اندر کیسے آ گیا۔ کچھ ڈاکٹر موقع پر پہنچ گئے اور گرجنے برسنے لگے کہ تم نے موت کو چھو لیا ہے تم وبا کے مریض ہو ، اسے زبردستی اسی بیڈ پر اس کی بیگم کی جگہ لٹا دیا گیا۔ وہ کیا بتاتا اس نے موت کو نہیں زندگی کو چھوا تھا۔ وہ زندگی جس کے بغیر اس کا جینا بے معنی تھا۔ وہ چپ چاپ اور بے سدھ دیکھتا رہا اس کے سامنے اسے لفافوں میں لپیٹ کر لے گئے۔ اچانک کسی احساس نے اسے جگایا اور وہ داؤ لگا کر وہاں سے بھاگ نکلا۔

اس کے جانے کے بعد اس کا کوئی گھر نہیں تھا۔ کوئی اپنا نہیں تھا۔ اسے اسی حال میں بس زندگی کے کچھ بچے ہوئے دن گزارنے تھے۔ ڈاکٹر اسے زندگی کی مبارک دے رہا تھا۔ اسے گھر جانے کا کہہ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کونسی زندگی ، وہ زندگی جو پندرہ دن پہلے اس سے روٹھ گئی تھی۔ وہ زندگی جسے وہم کی بنیاد پر ان ڈاکٹروں نے قتل کی سزا دی تھی ۔ جس کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ وبا کے دنوں میں بیمار ہو گئی۔ شاید وہ خود بھی قصور وار تھا۔ اس نے جلد بازی میں اپنی زندگی خود کچھ جلادوں کے سپرد کی تھی۔ زندگی تھی تو گھر تھا۔ اب نہ زندگی ہے اور نہ کوئی گھر ۔ وہ جو زندگی ہار چکا تھا اب کہا ں جائے۔ وہ چھوٹے سے کمرے سے باہر آ کر بنچ پر بیٹھ کر سوچنے لگا ، گھر تواسی زندگی کے دم سے تھا۔ اب زندگی ہو تو گھر ہو، وہ کہاں جائے ، زندگی کو کہاں تلاش کرے ، وہ گھر اور زندگی کی تلاش کے بارے سوچتے سوچتے اسی بنچ پر پتہ نہیں کب سو گیا۔ آدھی رات کو صفائی والے نے اسے وہیں سویا دیکھ کر آواز دی ، اٹھو اور گھر جاؤـ‘‘۔ جواب نہ پا کر اس نے اس کا کندھا ہلایاتو وہ اس کے بازو پر جھول گیا۔ شاید زندگی اور گھر کی تلاش میں بہت دور ، بہت ہی دورنکل گیا تھا۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 441205 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More