کسی بھی ریاستی نظام میں سرکاری ملازمت ایک بہت بڑا تحفظ
ہوتی ہے، شیڈول جاب کے اوقات کار، بر وقت سیلری کا ملنا، میڈیکل تقریباً
فری وغیرہ وغیرہ،یہ سب کچھ ریاست میں بسنے والی رعایا برداشت کرتی ہے،
کیونکہ تصور کیا جاتا ہے کہ سرکاری ملازم رعایا کی خدمت کرتا ہے، سروسز
دینے والے کا حق بھی بنتا ہے کہ اس کی سروسز کے عوض اسے کچھ نہ کچھ دیا
جائے لہذا اس کے لیے تنخواہ کا کیٹیگری وائز انتظام کیا گیا تاکہ یہ رعایا
کا ملازم خادم اپنے فرائض منصبی بھر پور محنت اور خندہ پیشانی سے سر انجام
دے سکے تاکہ ریاستی نظام بہتر سے بہتری کی طرف گامزن رہے۔ لیکن ہمارے ہاں
ایسا کیوں نہیں ہو پارہا ہے؟؟ رعایا کا ایک ملازم ہزاروں یا لاکھوں میں
تنخواہ لینے والا چند ہزار یا سو کمانے والے سے رشوت کیوں مانگتا ہے جبکہ
مانگنے والے کو ایک معقول ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ مقررہ کردہ تنخواہ سے
زیادہ رعایا سے کیوں وصول کرتا ہے؟کیا وہ مقررہ وقت سے زیادہ کام کرتا
ہے؟جو مقررکردہ وقت سے زیادہ کام کرتے ہیں انہیں اوور ٹائم دیا جاتا ہے
جبکہ اکثریت اوور ٹائم بھی نہیں کرتی لیکن اوورٹائم کا معاوضہ رعایا سے
وصول کرتی ہے، ایسا کیوں؟؟میرے غریب وطن کے کچھ ایسے ادارے بھی ہیں جہاں
پبلک ڈیلنگ ہوتی ہے، ریاستی اور جمہوری نظام میں بسنے والے ان پبلنگ ڈیلنگ
دفاتر سے ڈائریکٹر اپنے معاملات نبٹانے کے لیے ان دفاتر کا وزٹ کرتے ہیں،
لیکن وہاں ریاستی ملازم اپنے اختیار ات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پبلک
کو ذلیل و خوار، بھتہ خوری، رشوت خوری، جنسی حراست اور نہ جانے کیا کیا
کرتے ہیں؟ یہ سرکاری ملازم بعض اوقات سرکاری بدمعاش معلوتے ہوتے ہیں، اپنے
اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے فرعون ہونا ثابت کرتے ہیں، ان
اختیارات کی ایما پریہی رعا کے خادم خود سر اور خدا بن جاتے ہیں، جو ان کی
پکڑ میں نہ آئے، ناجائز کام کے لیے تیار نہ ہو، ان کی ناجائز نہ مانے تو
پھر اس شخص کا ریاست میں جینا حرام کر دیتے ہیں، وہ بیچارہ ساری زندگی ملک
پاکستان کو گالیاں دیتے ہوئے گزار دیتا ہے صرف چندان کالی بھیڑوں کی وجہ سے،
کیونکہ جس ملک و ریاست کا قانون اندھا ہو جائے وہاں مکڑی کے جال کی طرح ایک
کمزور اور بے بس ہی پھنستا ہے اور وہ ساری زندگی ایک ضمانت کے لیے جیل میں
ہی گزار دیتا ہے جبکہ فرعون، فرعون کے لیے چھٹی والے دن بھی ضمانت دے دیتا
ہے، پولیس مقابلہ میں مارا جا سکتا ہے، کاروباری مد میں ٹیکس کا بہانہ بنا
کر کسی کا روزگار چھینا جا سکتا ہے، ناجائز مقدمہ میں گرفتار ہو سکتا ہے،
بلاوجہ چارج شیٹ اور ٹرانسفر ہو سکتا ہے، معطل کیا جا سکتا ہے وغیرہ
وغیرہ،کورونا کے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن منظر عام پر آتا ہے، ترتیب وار تمام
ادارے کھول دیئے جاتے ہیں، لیکن تعلیمی اداروں کو ریلیف نہیں ملتا الٹا
پرائیویٹ اداروں کو یہ کہہ کر ذلیل کر دیا جاتا ہے کہ ان کو اپنے لاکھوں،
کروڑوں کمانے کی پڑی ہوئی ہے۔ والدین بھی آنکھیں موندے ہیں، یہ ایسی باتیں
کون کر سکتا ہے جو اختیارات رکھتا ہے، جے اپنے سوا ان کی کوئی فکر نہیں جو
بمشکل سفید پوشی میں رہتے ہوئے اپنا روزگار کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں، مجھے
شک تھا کہ جب کبھی پرائیویٹ سکول والوں نے حکومت سے احتجاجاً سکول کھولنے
کا کہا تو ان پر بے روزگاری کے علاوہ حکومتی اختیارات کا پریشر بھی آئے گا
وہی ہوا، کہ اب محکمہ تعلیم کے ذریعے سکول مالکان کو انڈر پریشر کیا جائے
گا، رجسٹریشن ختم ہونے کا کافی چانس ہے، اس طرح اس سفید پوش کو ذہنی دباؤ
میں مبتلا کیا جائے گا اور وہ مجبور ہوکر سکول برائے فروخت کا بوڑ آویزاں
کر دے گا، جس کی ریاست کو کوئی فکر نہیں ہوگی، ریاست کا م صرف ذہنی دباؤ
اور بے روزگار پیدا کرنا مقصد ہو گا۔جبکہ وہ اپنے طور پر معاشرہ کی اصلاح
اور شرح خواندگی میں اپنا بھر مثبت کردار ادا کر نے کے ساتھ ساتھ حکومت پر
بوجھ بننے کی بجائے اپنی فیملی کی کفالت بھی کر رہا ہے۔ اگر ریاستی خادمین
اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایسے لوگوں کا معاون بننے کی
بجائے فرعون بن کر اختیار ات کا استعمال کریں تو لا محالہ طور پر معاشرے
میں بگاڑ پیدا ہو گا، اس بگاڑ کا کون ذمہ دار ہو گا؟ کوئی بھی نہیں کیونکہ
ان سب کو اختیارات کا ناجائز استعمال کرنا ہی تو سکھایا جاتا ہے، اور شاید
ٹریننگ دی جاتی ہے کہ اب تم سرکاری ملازم ہو اس رعایا یا قوم کے خادم نہیں،
اب یہ عوان تمہاری غلامی کرے گی اور تم اس پر حاکم بن چکے ہو، اور اسے ہی
سیاسی جمہوری نظام کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے سرکاری ملازمین کو اپنے
ناجائز اختیارات استعمال کرنے کی توفیق نہ دے جس سے فرعونیت ثابت ہو اور
معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنے۔آمین
|