میرے ساتھ بہت ساری خواتین جڑی ہوئی ہیں جن کی طرف سے
رمضان المبارک اور شوال کے موقع پر کثرت سے یہ سوال آتا ہے کہ جن عورتوں کے
رمضان کے بعض روزے عذرکی وجہ سیچھوٹ گئے ہیں کیا وہ شوال میں پہلے ان چھوٹے
ہوئے روزوں کی قضا کرے گی یا قضا سے پہلے بھی شوال کے نفلی چھ روزے رکھ
سکتی ہیں ؟ عذر (سفر؍بیماری)کی وجہ سے مردوں سے بھی رمضان کے روزے چھوٹ
جاتے ہیں ان کا بھی مسئلہ ہے کہ وہ فرضی روزوں کی قضا سے پہلے شوال کے نفلی
روزے رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
اس مسئلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ پہلے رمضان کے
چھوٹے روزوں کی قضاکرنی ہوگی تب ہی شوال کے روزے رکھ سکتے ہیں اور بعض کہتے
ہیں کہ نہیں ، قضا سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھ سکتے ہیں ۔میں نے جہاں تک
اس مسئلے کو سمجھا ہے اس لحاظ سے میرا ماننا ہے کہ جس کے ذمہ رمضان کے قضا
روزے ہیں وہ پہلے قضا کرے پھر شوال کے چھ روزے رکھے ۔ دلیل نبی ﷺکا مندرجہ
ذیل فرمان ہے :
عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ، - رضی اﷲ عنہ - أَنَّہُ حَدَّثَہُ أَنَّ
رَسُولَ اللَّہِ صلی اﷲ علیہ وسلم قَالَ :مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ
أَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْر(صحیح مسلم:1164)
ترجمہ: ابوایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیاکہ نبی ?
نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے
تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے (کے ثواب)کی طرح ہیں۔
ہم سبھی یہ جانتے ہیں کہ نبی ? کے کلام میں اعجازاور جامعیت ہے، آپ کے
کلمات کی جامعیت پر دین کا انحصار ہے اور قیامت تک رونما ہونے والے مسائل
اس خوبی کی وجہ سے حل ہوتے رہیں گے ۔ آپ کے فرمان کا ایک ایک لفظ حکمت
وبصیرت سے بھرپور ہے اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایک حدیث کی شرح میں
مستقل کتاب لکھی گئی ہے ۔
شوال کے نفلی روزوں سے متعلق آپ کے فرمان کے جامع کلمات بھی مذکورہ مسئلے
کی حقیقت واضح کرتے نظرآتیہیں ۔آپ ﷺفرماتے ہیں " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ "کہ
جس نے رمضان کا روزہ رکھا یعنی رمضان کا مکمل روزہ رکھا ۔آگے فرماتے ہیں"
ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ" پھررمضان کے روزوں کے بعد شوال کے
چھ روزے رکھا ۔ "کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْر" اس کے لئے عمر بھرروزہ رکھنے کا
ثواب ہے۔
اس حدیث میں وارد الفاظ پر غور کریں اور زیرغورمسئلے کی حقیقت معلوم کریں ۔
۱۔" مَنْ صَامَ رَمَضَانَ "کے کلمات میں رمضان کے مکمل روزے داخل ہیں یعنی
جس نے رمضان کا مکمل روزہ رکھا۔
۲۔" ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ" کے کلمات میں ثم کا لفظ ترتیب
کے طورپر ہے ، مراد ہے رمضان کے روزوں کے بعد ۔اس بات کو رسول اﷲ کے جامع
کلمہ" أَتْبَعَہُ" نے مزید مؤکد کردیا ہے یعنی متبع وہی کہلائے جو رمضان کا
مکمل روزہ رکھنے کے بعد شوال کا روزہ رکھے گا کیونکہ متبع کہتے ہیں پیچھے
چلنیوالے کو۔اسی سے اتباع ؍تابع؍تبع تابعین کے الفاظ نکلے ہیں۔اتباع کا
مطلب ہے اﷲ اور اس کے رسول کے پیچھے چلنا،تابعین یعنی صحابہ کے بعد آنے
والے اور تبع تابعین ان کے بعد آنے والے۔اسی لئے اﷲ تعالی مومنوں کو اﷲ اور
اس کے رسول سے آگے بڑھنے سے منع کیا ہے ، فرمان الہی ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللَّہِ
وَرَسُولِہِ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ (الحجرات:1)
ترجمہ:اے ایمان والے لوگو! اﷲ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اﷲ سے
ڈرتے رہا کرو ، یقینا اﷲ تعالی سننے والا ، جاننے والا ہے۔
۳۔ "کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْر" جو رمضان کا مکمل روزہ رکھنے کے بعد شوال کے
چھ روزہ رکھے گا اسے عمربھر یعنی سال بھر کا اجر ملے گا۔ چنانچہ حضرت ثوبان
رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
صِیامُ شہْرِ رمضانَ بِعشْرَۃِ أشْہُرٍ ، و صِیامُ سِتَّۃِ أیَّامٍ بَعدَہُ
بِشہْرَیْنِ ، فذلِکَ صِیامُ السَّنۃِ(صحیح الجامع:3851)
ترجمہ:رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں
کے برابر ہیں ، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں۔
اس وضاحت کے بعد حدیث کے الفاظ " ثُمَّ أَتْبَعَہُ"سے معلوم ہوتا ہے کہ جس
نے رمضان کا مکمل روزہ رکھا پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھا اسے سال
بھر کا ثواب ملے گا ۔ اسی طرح جس کے ذمہ رمضان کے چند روزے باقی ہوں ،وہ
پہلے رمضان کے فوت شدہ روزے رکھے پھر شوال کے چھ روزے رکھے اس کو بھی
مذکورہ اجر ملے گا کیونکہ اس نے حدیث کے مطابق پہلے رمضان کا مکمل روزہ رکھ
لیا اور اس کے بعد شوال کیچھ روزوں کو ملایا۔یہاں پر ثم کا لفظ اسی ترتیب
کے لئے اور بعد کے معنی میں آیا ہے ۔ اگر آپ ثم کو ترتیب اور بعد کے معنی
میں نہیں مانیں گے تو قرآن وحدیث کے بہت سارے نصوص میں معانی بدل جائیں گے
۔ ایک حدیث سے مثال پیش کرتاہوں ، اس سے اندازہ لگائیں کہ ثم سے معنی میں
کیا فرق پیدا ہوتا ہے؟
حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ نبی ﷺسیروایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:لا
تقولوا: ما شاء اﷲُ وشاء فلان، ولکن قولوا: ما شاء اﷲُ، ثم شاء فلانٌ(صحیح
أبی داود:4980)
ترجمہ:تم یوں نہ کہو: جو اﷲ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہو: جو اﷲ چاہے
پھر فلاں چاہے۔
"ما شاء اﷲُ وشاء فلان" والے جملہ میں اﷲ کے ساتھ غیراﷲ کی شرکت ہوجاتی ہے
اس لئے اس کلام سے منع کیا گیا اورواؤ کی جگہ ثم لگانے سے شرکت ختم ہوجاتی
ہے کیونکہ یہ بعد کے معنی ہے اس لئے ثم کے ساتھ کہنا جائز ہے۔
جب آپ نے یہ بات جان لی کہ جس کے ذمہ رمضان کے روزے باقی ہوں اگر وہ شوال
کے روزوں کا مذکورہ اجر لینا چاہے تو پہلے ان روزوں کی قضا کرنی ہوگی پھر
شوال کے روزے رکھیں گے ۔ اب چند باتیں مزید جان لیں جو اس مسئلے میں
اطمینان کا باعث ہیں پھر اس پر وارد ہونے والے اعتراضات کا مختصر جواب بھی
دوں گا۔
٭ شوال کے چھ روزے نفلی ہیں ، ان کا رکھنا ضروری نہیں ہے اس لئے جس کے حق
میں یہ روزے باعث مشقت ہوں وہ نہ رکھے اوراس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں
ہے ،ہم دیکھتے ہیں کہ شوال میں بھی بہت سارے کو سفر؍مرض؍حیض؍نفاس کا عذر
لاحق ہوجاتا ہے اور وہ یہ روزہ نہیں رکھ سکتے پاتے ہیں۔
٭ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلاعذر بھی رمضان کے چھوٹے روزوں کی قضا شعبان
تک مؤخرکرسکتے ہیں لیکن اگر شوال کے چھ روزوں کا مخصوص اجر لینا چاہتے ہیں
تو پہلے قضاروزیرکھنے ہیں کیونکہ ہمیں ایسے ہی حکم ملا ہے ۔
٭ جس نے رمضان کے روزے رکھ لئییاچھوٹے روزوں کی بعد میں قضائی کرکے پورے
کرلیں گے اس نے اﷲ کی طرف سے عائد کی گئی ذمہ داری کو ادا کردیا ،اﷲ تعالی
اسے ان روزوں کا پورا پورا بدلہ دے اور شوال کے نفلی روزے نہ رکھنے سے
رمضان کے روزوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی ۔
٭ جو ہمیشہ شوال کے روزے رکھتا رہا مگر کسی سال ان روزوں کو رکھنے کی خواہش
کے باوجوددشواری پیداری ہوگئی اور وہ نہ رکھ سکا تو اﷲ تعالی نیت کے مطابق
ثواب دے گا۔
٭ رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے ماسواشش عیدی روزے دیگر نفلی روزے رکھے
جاسکتے ہیں مثلا سومواروجمعرات کے روزے، ایام بیض کے روزے ، ذوالحجہ
وعاشوراء اورعرفہ کے روزے ۔ یہاں پہ مذکورہ مسئلے میں قضا کا تعلق صرف شوال
کے چھ روزوں سے ہے دیگر نفلی روزوں سے نہیں کیونکہ شوال کے روزوں کی طرح
دوسرے نفلی روزوں کے ساتھ ترتیب کا ذکر نہیں ہے بلکہ عام ہے۔
٭ جو اہل علم قضائی روزوں سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھنے کے قائل ہیں وہ
بھی یہ مانتے ہیں کہ قضا والے روزے دوچندہوں یعنی جن کی قضا آسان ہو تو
پہلے ان کی قضا کرلی جائے پھر شوال کے روزے رکھے جائیں ۔ان کے یہاں مشقت کی
صورت میں قضا سے پہلے نفلی کا جواز پیش کیا جاتا ہے کیونکہ قضا میں وسعت ہے
جبکہ وقتی نفل روزوں میں وسعت نہیں ہے۔
اب ان اعتراضات کی حقیقت جانتے ہیں جواس مسئلے میں اہل علم کی طرف سے منقول
ہیں اورخوف طوالت کے باعث صرف اہم اعتراضات اوران کے مختصرجواب پر ہی اکتفا
کروں گا۔
(۱)ایک اہم اعتراض سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہاکے عمل سے وارد ہوتا ہے کہ وہ
رمضان کے قضا روزے شعبان میں رکھتی تھیں ۔ ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے
عائشہ رضی اﷲ عنہا سے سناوہ فرماتی ہیں:کانَ یَکونُ عَلَیَّ الصَّوْمُ مِن
رَمَضَانَ، فَما أسْتَطِیعُ أنْ أقْضِیَ إلَّا فی شَعْبَانَ(صحیح
البخاری:1950)
ترجمہ: مجھ پر رمضان کے جوروزے قضا ہوتے تھے تو میں ان کی قضا کرنے کی
استطاعت نہیں رکھتی تھیں مگر شعبان میں۔
اس اثر کے الفاظ پرغور کریں ،ان میں کہیں مذکور نہیں ہے کہ عائشہ رضی اﷲ
عنہانے رمضان کی قضا سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھی ہیں اس لئے یہ حدیث اس
بات کی قطعی دلیل نہیں بن سکتی کہ قضا سے پہلے شوال کا روزہ رکھنا صحیح ہے
، اس کے لئے خاص دلیل چاہئے۔آپ رضی اﷲ عنہا کا عرفہ کا روزہ رکھنا امر مانع
نہیں ہے کیونکہ نفس مسئلہ کا تعلق محض شوال کے چھ روزوں سے ہے جیساکہ میں
نے اوپر ذکر کیا ہے، مزید برآں " فَما أسْتَطِیعُ" کے الفاظ سے اشارہ ملتا
ہے کہ آپ کو نفلی روزوں کی استطاعت زیادہ نہیں ملتی اور ممکن ہے کہ شوال کے
روزوں کے لئے بھی استطاعت نہیں پاتیں تاہم صوم عرفہ کی استطاعت کا ثبوت
ملتا ہے۔
(۲)ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ جس شخص سے رمضان کے چند روزے چھوٹ گئے ان کا
شوال میں قضا کرنا بھی رمضان کا مکمل روزہ رکھنے والا نہیں کہا جائے گا۔ اس
کا جواب یہ ہے کہ رمضان کے روزے ادا اور قضا دونوں صورت میں رمضان کا مکمل
روزہ رکھنے والا قرار پائے گا ، یہاں اصل مسئلہ رمضان کے روزوں کو شوال کے
روزوں پر تقدم کا ہے جو ادا مع قضا سے صادق آرہا ہے ۔
(۳)ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ شوال کے روزوں سے متعلق دوسری روایات
میں ترتیب یعنی ثم کا ذکر نہیں ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک حدیث دوسری
حدیث کی وضاحت کرتی ہے اس لحاظ سے جس حدیث میں ترتیب کا ذکر نہیں ہے اس کو
ثم کے لفظ سے خاص کیا جائے گا یہی اصول حدیث ہے۔
(۴)ایک اعتراض یہ ہے کہ قضائی روزوں میں وسعت ہے،اسے شعبان تک رکھا جاسکتا
ہے جبکہ شوال کے چھ روزوں میں وسعت نہیں ہے ۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ شوال
کے چھ روزوں میں بھی ایک ماہ کی وسعت ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ شریعت جس
بات کو کسی امر سے خاص کردے اس کو اسی طرح انجام دینا چاہئے مثال کے طور پر
کسی کو اشراق کی نماز سے حج وعمرہ کا اجرحاصل کرنا ہے تو فجر کی نماز جماعت
سے پڑھنے اور اسی جگہ بیٹھا سورج نکلنے تک ذکر کرنے کی شریعت نے قید لگائی
ہے اس لئے بغیرجماعت کے فجر پڑھنے والا مرد یا گھر میں نمازفجر پڑھنے والی
عورت ، سورج نکلنے کے بعد دورکعت ادا کرے تو مذکورہ اجر نہیں ملے گا۔
(۵)ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جوپہلے شوال کے روزے رکھ لے اوربعد میں
قضاروزے رکھے تو وہ بھی نفس مسئلہ سے متعلق صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث میں
داخل ہے جیساکہ من صام رمضان ایمانا واحتسابا۔۔۔ والی حدیث اور دیگر نصوص
سے معلوم ہوتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عام نص کی روشنی میں شوال کا روزہ
منفک کرکے عذرکے تحت چند روزہ چھوڑنے والا بھی "من صام رمضان "میں داخل ہے
لیکن جب رمضان کو شوال کے روزوں سے جوڑتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ اس کے لئے
حصر وقید آیا ہے لہذا مقید نص کو عام نص پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ۔
آخر میں گزارش ہے کہ مجھے دلائل سے جو موقف قوی الاستدلال معلوم ہوا اس
کودلائل سے واضح کردیا ہے، اگر آپ کو دوسرے اہل علم کے موقف پر اطمینان
ہوتو اسی پر عمل کریں اور تذبذب کا شکار نہ ہوں۔
|