”اِس معاشرے کو زیادہ خطرہ بانجھ عورتوں سے نہیں بلکہ
بانجھ دِلوں سے ہے۔“
کوئی زمانہ تھا کہ بانجھ عورتوں کی بیماری بڑی خطرناک سمجھی جاتی تھی مگر
پھر وقت نے پانسہ پلٹا، انگڑائی لی اور اِس بانجھ پن کی بیماری کو عورت کی
کوک سے اُٹھا کر لوگوں کے دِلوں میں منتقل کر دیا۔
ہمیں یہ ماننے میں قطعاً کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ ہمارا معاشرہ
اِس وقت اِس بانجھ دِل کی خطرناک اور بھیانک بیماری سے دو چار ہے۔
ہمارے دِل کی کوک سے اب محبت نہیں پھوٹتی۔ نفرت، غیبت اور تعصب نے ہمارے
دِلوں کو زنگ آلود کر دیا ہوا ہے۔
بانجھ دِل اَنا کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور حسد کے ایسے سیاہ چشمے پہنے
ہوئے ہیں کہ اپنوں کا دُکھ درد نظر ہی نہیں آتا۔
بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے۔ سَگے رشتے ہی ایک دوسرے کا قتل کر رہے ہیں۔
ہر گھر پریشانی کا شکار ہے اور خاندانوں کے خاندان گھریلو ناچاقیوں کا
سامنا کر رہے ہیں۔
ہماری بدنصیبی کہہ لیں کہ ہم اِس بیماری کو سنجیدگی سے لے ہی نہیں رہے۔
یہ بیماری تو کینسر سے بھی زیادہ بھیانک ہے اور اِس کو پھیلانے والے جراثیم
تکبر،طاقت کا نشہ،احساس کا مر جانا،غرور اور سنگدلی وغیرہ یہ سب جراثیم تو
بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں اور پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔
دِل کا کام تو محبتیں پیدا کرنا ہے، محبتیں بانٹنا ہے مگر افسوس صد افسوس
کہ ہم سب ہی بانجھ دِل کی بیماری کا شکار بن چکے ہیں۔
دِلوں نے محبتیں پیدا کرنا بند کر دیا ہوا ہے۔
کیا اِس بانجھ دِل کی بیماری سے یہ معاشرہ کبھی نجات پا سکے گا؟
خیر مجھے تو دور دور تک ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔
واسلام
|