کیا زلیخا بننا آزادی ہے؟

آج سے چند مہینے قبل کی بات ہے فلک شگاف نعرے تھے میرا جسم میری مرضی میں ایسے بیٹھنا چاہتی ہوں ایسے اٹھنا چاہتی ہوں کھانا اپنا خود گرم کرلو تم جو چاہو وہ میں کیوں کروں وغیرہ وغیرہ اور ان کو کچھ عورتوں نے عورتوں کی آزادی کا نام دیا تھا ۔ لیکن کیا یہ واقعی آزادی ہے؟ سڑکوں پر بے حجاب گھومنا مردوں کو اپنی جانب متوجہ کرنا کیا یہ آزادی ہے؟ میں ایک مسلمان عورت ہو مجھے میرے اللہ نے ہر قسم کا حق دے دیا لیکن میں پھر بھی آج نکلی ہوئی ہوں گھر سے باہرمعاشرتی اقدار کے منافی نعرے لگا کر اپنے حقوق مانگنے ؟یہ نئی نسل بجائے خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نقش قدم پر چلنے کے زلیخا کو اپنا آئیڈیل بنائے بیٹھی ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ مرد اپنی نگاھیں نیچی کرلیں اور ہمیں آزادی ہو کہ ہم جس قسم کا لباس پہننا چاہیے پہنے لیکن سامنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمیں غلط نگاہ سے نہ دیکھے ۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ حضرت یوسف علیہ السلام کی مثالیں دی جاتی ہیں کہا جاتا ہے کہ مردوں کو ان کی طرح ہونا چاہیے جو بھٹکے نہیں سہمے نہیں اللہ پر توکل رکھ کر اپنی عزت بچا گئے۔زلیخا کی جانب سے غلط کام پر اکسانے کے باوجود انہوں نے حیا کا دامن نہ چھوڑا۔لیکن یہ مثال بتا کرکیا آپ زلیخا بننے کی آزادی جاتی ہے؟ زلیخا کی حرکت کو جائز سمجھتی ہے؟

اللہ نے عورتوں پر ایک بہت ہی اہم ذمہ داری رکھی اور وہ ذمہ داری ہے حیا کی پاکدامنی کی جس کی مثالیں ہمارے دین کا اثاثہ ہے۔میری پیاری حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میرا جنازہ بھی دن میں نہ اٹھانا کہ کہیں کسی غیر مرد کی نگاہ پڑ جائے ہم ان مثالوں کو نہیں دیکھتے ۔ہمیں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ یاد رہتا ہے۔ہم مردوں سےحضرت یوسف علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی امید تو رکھتی ہیں لیکن خود حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حیا اختیار کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ ہم نے منافقت کی چادر اوڑھی ہوئی ہے ہم چاہتی ہیں کہ ہم زلیخا بنےمردوں کو اپنی جانب متوجہ کریں ,اللہ نے ہمیں جس چار دیواری میں رہنے کا حکم دیا اسے پامال کریں لیکن ہمارا واسطہ ہر بار ایک یوسف علیہ السلام کےنقش قدم پر چلنے والے مرد کے ساتھ پڑ جائے تو ایسا تو ممکن نہیں ہے جب ہم عورتیں بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حیا ہی اختیار نہیں کر سکتی تو مرد حضرت یوسف علیہ السلام کے نقشے قدم پر کس طرح چلے گا ۔معاشرے میں پھیلی بے راہ روی صرف کسی مرد کی ذمہ داری نہیں ہے کچھ عورتیں بھی اس کی بھرپور ذمہ داری رکھتی ہیں ۔

وہ اسلام جس نے عورت کووراثت میں حق دے دیا وہ مسلمان عورت آج دو دو ٹکے کی نوکریوں کے لیے مردوں سے مقابلہ کرنے چلی ہے ۔ باتیں تلخ ضرور ہیں اور آئینہ دیکھتے ھی غصہ بھی آ جاتا ہے جو یہ سب کہے اسے شدت پسند ہونے کا خطاب بھی مل جاتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کے آج کی عورت صرف زلیخا بننے کی آزادی چاہتی ہے۔

 

Memoona Arif
About the Author: Memoona Arif Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.