تحریر:اساس کھوکھر
میری صحافت کا عرصہ اتنا لمبا نہیں ہے اور ابھی میرا صحافت میں بہت زیادہ
تجربہ بھی نہیں ہے ابھی تو صرف 2 سال ہی ہوئے ہیں ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھنے
کو ملتا ہے ہرروز قتل،ڈکیتی،چوری،منشیات فروشی،ایکسڈینٹ جیسی دیگر خبریں
ملتی ہیں لیکن ان سب خبروں میں ایک بات بڑی اہم ہوتی ہے میں نے خود زیادہ
تر واقعات دیکھے ہیں کے مدعی اور ملزم کی جانب سے یہ ہی رائے ہوتی ہے کے ان
تمام واقعہ میں قصور پولیس کا ہی ہے چاہے کسی کا قتل ہو جائے ڈکیتی ہوجائے
چوری ہوجائے خودکشی جیسا واقعہ ہوجائے یہاں تک کہ روڈ پر ٹریفک حادثہ بھی
ہوجائے تو زیادہ تر سب کا سب ملبہ پولیس پر ہی ڈال دیا جاتا ہے مثال کے طور
پر کسی کا قتل ہو جائے تو قتل کرنے والا ایک شخص ہوتا ہے تو مدعی پورے
خاندان کا نام ایف آئی آر میں دے دیتا ہے اور ساتھ میاں 3 یا 4 کس نامعلوم
افراد بھی رکھتا ہے تاکہ اگر کوئی ان بے گناہ افراد کے ساتھ تھانے کچہری
جائے اسے بھی بلاوجہ نامزد کروادیا جاتا ہے اور اگر پولیس کہے کے یہ تو
ملزم نہیں اسی پولیس والے کے خلاف افسران کو درخواستیں دی جاتی ہیں کے اس
نے ملزمان سے پیسے لے لیے ہیں اور دوسری طرف مدعی کی جانب سے ایف آئی آر
میں نامزد کرائے گئے ملزمان پر اگر پولیس ریڈ کرے یا پکڑے تو ملزمان بھی
کہتے ہیں تفتیشی بلاوجہ ہمیں پھنسا رہا ہے اب یہاں پولیس کیا کرے اور اگر
کسی کی چوری ڈکیتی ہوجائے تو جس کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کے چوری اور ڈکیتی
میں کیا فرق ہے وہ بھی کہہ رہا ہوتا ہے جب سے ایس ایچ او تھانے میں تعینات
ہوا ہے ڈکیتی اور چوری بڑھ گئی ہے یہ سب ایس ایچ او کروا رہا ہے کیوں کے یہ
ہمارے معاشرے کارواج بن چکا ہے کچھ بھی ہو قصور صرف پولیس کا ہی ہوتا ہے
اور پولیس اگر کسی ملزم کو پکڑ لے اور وہ اعتراف جرم نہ کرے تو اگر پولیس
اس کے ساتھ سختی کردے تو لوگ پھر شور مچا دیتے ہیں کے پولیس نے تشدد کیا
اور روڈ بند کردیا جاتاہے افسران مجبور ہوکر معطل جیسی سزا سنا دیتے ہیں
اگر پولیس ملزمان پر تشدد نہ کرے تو کون چور بتائے گا کے اس نے چوری کی ہے
پولیس کے پاس کون سا جادو ہے کے صرف پیار سیپوچھنے سے ملزم سچ بتادے دوسری
طرف اگر کوئی روڈ پرٹریفک حادثہ بھی ہوجائے تو ورثاء کی جانب سے روڈ بند
کردیا جاتا ہے اور روڈ بند ہونے باعث ہزاروں مسافروں کو مشکلات کا سامنا
ہوتا ہے تو پولیس اگر روڈ کھلوانے کے لیے کہے تو پولیس کے ساتھ مزاحمت شروع
ہوجاتی ہے جیسے ایکسڈینٹ پولیس نے کروایا ہو اس واقعہ میں بھی قصور وار
پولیس کو ہی بنا دیا جاتا ہے اگر پولیس تحقیقات کے باعث ایف آئی آر جلد درج
نہ ہوتو ورثاء روڈ بند کر کے احتجاج شروع کردیتے ہیں پولیس کے خلاف نعرے
بازی شروع کردی جاتی ہے لیکن شام کو ایف آئی آر ہوتے ہی صبح اسٹام تھانے
آجاتا ہے کے مدعی نے صلح کرلی ہے اگر صلح ہی کرنی تھی تو پولیس کے خلاف
نعرے بازی اور احتجاج کیوں اب دوسری طرف میرے ضلع قصور میں یہ بات بہت عام
سی ہوگئی ہے کے اگر کسی کا بچہ والدین کی مار پیٹ یا سکول یا مدرسہ جانے کے
خوف سے گھر سے بھاگ جائے تو بس پولیس کی شامت آگئی والدین بچہ نہ ملنے کے
باعث پولیس کے خلاف نعرے بازی اور احتجاج روڈ بند کرنا ٹائر جلانا عام سی
بات ہوگئی ہے چاہے بچہ اگلے ہی روز خود گھر واپس آجائے والدین خود زمداری
نبھانے کی بجائے پولیس کو ہی کیوں قصور وار بناتی ہے کیا اب ہر گھر کے باہر
کسی پولیس والے کی ڈیوٹی لگادینی چاہیے کے وہ بچوں کو سکول چھوڑ کر بھی آئے
اور سکول سے واپس لے کر بھی آئے افسوس ہے ہم اپنی لاپرواہی کا بھی قصور وار
پولیس کو ہی ٹھہراتے ہیں ہمیں بھی اپنی ذمداری نبھانی ہو گئی ان اداروں پر
تنقید کی بجائے حوصلہ افزائی کرنی ہوگی جو دن رات ہماری حفاظت کے لیے
سڑکوں،ناکو،تھانوں میں دھوپ چھاو کی پروا کیے بغیر ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں
عید کی نماز، جمعہ کی نماز اور دیگر تقریبات کے موقع پر یہ مسجدوں ،گھرجا
گھروں کے باہر دروازے پر کھڑے ہر خطرے سے لڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں تاکے
ہماری حفاظت ہوسکے ان کے کے بھی بیوی بچے بھائی بہن ماں باپ رشتہ دار ہوتے
ہیں یہ بھی کسی کے بیٹے بھائی شوہر والد ہوتے ہیں ہمیں ان کی حوصلہ افزائی
کرتے ہوئے ان کا ساتھ دینا چاہیے پولیس کی وردی میں چھپی چند کالی بھیڑوں
کے خلاف آواز ضرور اٹھائیں لیکن اس پورے ادارے کو بدنام نہ کریں
سیلیوٹ پنجاب پولیس
سیلیوٹ قصور پولیس
|