ہم اور مستقبل

صلاح الدين الايوبي کے وہ تاریخی الفاظ تو آپ نے سنے ہوں گے کہ کسی قوم کو بغیر شکست کے ہرانا ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلا دو۔ کیا لگتا نہیں کہ آج یہ بات ہم پر ثابت ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں فحاشی بند کمروں سے دریچوں تک آن پہنچی ہے ۔ کبھی خبر سنتے ہیں بچے ساتھ زیادتی ، کبھی زینب ، کہیں دو سال کی بچی، کہیں آج کوئی کہیں کل کوئی ۔ کیا یہ سب یونہی ہے یا یہ ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ سچ کڑوا تو لگتا ہے لیکن سچ کو بدلا بھی نہیں جا سکتا۔ اس سب معاملات کے ساتھ ہمارا مستقبل کیا ہے میرا، آپ کا ،آپ کے بچوں کا۔ کیا وہ بھی یہ سب ہی دیکھیں گے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں کیا ان کا مستقبل بھی گھر ، ڈگری، نوکری ، کپڑا روٹی پر وقف ہو جائے گا۔ میں سوچتی ہوں کہ یہ اندھیر جو آن پڑا ہے اس کے چلتے ہمارا مستقبل کیا ہے روز کا رونا۔ ہمارے معاشرے کا اصل مسلئہ وہ رواج ہے جو ہم نے دوسروں کا اپنا لیا ہے، مسلئہ وہ تاریخ ہے جو ہم بھلا بیٹھے ہیں، وہ روایات ہیں جنہیں ہم نے بوسیدہ کہہ کہ پیچھے چھوڑ دیا ہے، مسلئہ غریب کی خواہش ہے جس کے ہاتھوں وہ مجبور ہے۔ ناجانے اس قوم کا مستقبل کیا ہے جس کا حال ہی فقط قابل رحم ہے۔ ہم نے فحاشی جب سے اپنائی سب بکھر گیا۔ اس کا صرف ایک حل روایات کی اپنائیت،اپنے رواج کی واپسی ہے
دلوں کو نور بخشو تا کہ سچ مچ کا اجالا ہو
چراغوں سے اگر ہو بھی تو کتنی روشنی ہو گی

اس کے بغیر آنے والا وقت ہمارے لیے معاشرتی تباہیاں سمیٹ کر لائے گا۔ اس کو اگر نہ روکا ہمارا مستقبل حال سے زیادہ بدتر ہو گا پھر پچھتاوے کے سوا کوئی چارا نہ ہو گا۔
میں نے جو کچھ بھی کہا فقط محبت میں کہا
مجھ کو اس جرم محبت کی سزا مت دینا۔
 

Arooj Irfan
About the Author: Arooj Irfan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.