ناکامی سے جو تجربات حاصل ہوتے ہیں وہ ہماری سوچ کے دھارے
کو تبدیل کر دیتے ہیں۔پریشانیاں تکلیف دہ ضرور ہیں، مگر دیر پا نہیں۔ہر
مشکل کے بعد آسانی کا آنا قدرت کا اٹل فیصلہ ہے۔ناکامی اور پریشانی کچھ کر
گزرنے کے جذبات سے آشنائی دیتی ہیں.
زندگی میں پیش آنے والے ایسے معاملات یا حالات جو غور طلب ہوں اور جسے ٹھیک
کئے بغیر ہم سکون سے نہ رہ سکیں یا ایسے معاملات جو ہماری روز مرّہ زندگی
میں بے سکونی اور بے آرامی کا باعث بنیں، انہیں ہم مشکلات یا پریشانی کا
نام دیتے ہیں۔مشکلات، پریشانیاں، مصیبتیں، دکھ، تکلیفیں،ازیتیں، آزمائشیں،
ناکامیاں کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور آتی ہیں۔
جس طرح ہر وہ شئے جس میں روح ہو، وہ کبھی نہ کبھی موت کا شکار ضرور ہوگی،
بالکل اسی طرح ہر زندہ شئے مشکلات کا بھی سامنا ضرور کرے گی۔ اگر ہم صرف
انسانوں کی بات کریں تو پیدائش سے موت تک کے سفر میں ہمیں بارہا پریشانیوں
اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص چاہے وہ ایک ادنٰی
انسان ہو یا ایک عالم،فاضل،ولی کامل یا کوئی پیغمبر و رسول انکی زندگیوں
میں لازمی پریشانیاں آتی ہیں بلکہ اچھے لوگوں کی زندگیوں میں پریشانیاں
زیادہ ہوتی ہیں تاکہ انکی آزمائش ہو سکے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں پریشانیاں کیوں آتی ہیں اسکا جواب اگر ہم
قران و حدیث میں تلاش کریں تو ہم پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ ہماری زندگی
میں پیش آنے والے تمام معاملات چاہے وہ اچھے ہوں یا برے ہوں، ان کا تعلق
خود ہمارے اعمال سے ہوتا ہے۔ یعنی اگر ہم اچھے اعمال کرتے ہیں تو نتائج
اچھے دیکھنے کو ملتے ہیں اور اگر برے اعمال کریں تو نتائج برے۔
کچھ ماہرین اسے ایک کائناتی قانون لا آف کاؤز اینڈ افیکٹ قرار دیتے ہیں
یعنی جیسی کرنی ویسی ہی بھرنی۔ لیکن ہمارا یہ بھی مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ
ہم بعض مرتبہ کرتے اچھا ہیں اور نتائج بالکل الٹ نکلتے ہیں۔اسکا جواب ہماری
مقدس کتابوں کے مطابق کچھ یوں ہے کہ اگر ہم اچھا کرتے ہیں اور انجام غلط
پاتے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمارا اللہ یا قدرت ہمیں آزمانہ چاہتی ہے
کہ ہم اپنے قول اور فعل میں کتنے کھرے ہیں۔
یعنی یہ ایک آزمائش ہوتی ہے۔لہٰذا ہم پر جتنی مشکلات آتی ہیں یا تو وہ
آزمائشیں ہوتی ہیں یاعذاب۔
دنیا کا ہر شخص مشکلات سے گھبراتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ساری زندگی عیش و
آرام سے بسر ہوجائے۔لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ یہ قدرت کا اٹل قانون
ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی میں مشکل حالات سے ضرور گزرے گا۔ لیکن کیا یہ
مشکلات اور پریشانیاں صرف ہمارے لئے اذیت کا سامان ہی پیدا کرتی ہیں یا ان
کے آنے کا کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے۔
اسکا جواب یہ ہے کہ جی ہاں جناب! مشکلات اور پریشانیاں بھی کئی ایسے فوائد
کو ساتھ لاتی ہیں جس کا اندازہ ایک عام انسان ہر گز نہیں کرسکتا۔آئیے ہم ان
ہی فوائد کا جائزہ لیتے ہیں۔
صلاحیتوں سے آگاہی:-
اگر ہم یوں ہی آسانی سے اپنی ساری زندگی گزار دیں تو یقین کریں ہمیں کبھی
بھی اپنی ذہنی و جسمانی صحت اور اسکی طاقت کا اندازہ ہو ہی نہ پائے۔
اگر مبالغہ آرائی نہ ہو، تو صحیح معنوں میں ہمیں اپنی صلاحیتوں کا صحیح
اندازہ مشکلات کے موسم میں ہی ہوتا ہے جب ہم بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں تو
ہمارا دماغ اس ازیت سے نکلنے کی راہیں تلاش کرنے لگ جاتا ہے۔جس کے نتیجے
میں یا تو ہم اس مصیبت سے بچنے کے لئے حقیقت سے نظریں چرانے لگ جاتے ہیں یا
اس سے نمٹنے کے لئے نئی نئی اسکیمیں بناتے ہیں۔اگر ہم حقیقت سے نظریں چرانے
لگ جائیں توہمارے اندر اس پریشانی سے نمٹنے کی خاطر خواہ صلاحیتیں کبھی
پیدا ہی نہ ہوں۔
مثلاً ایک شخص پریشانی آنے پر ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے اور پھر وہ اس
ڈپریشن سے بچنے کے لئے منشیات کا سہارا لیتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ
اس شخص میں اس صلاحیت کا فقدان ہے جو اسے اس پریشانی سے نکلنے میں مدد کر
سکے۔لہٰذا ہر قسم کی پریشانی اور مصیبت ہمیں اپنی زات کی خوبیوں اور خامیوں
سے آگاہی دیتی ہیں۔
لوگوں کے بارے میں آگاہی:-
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ زیادہ تر مرد حضرات شادی سے پہلے اپنی منگیتر یا
محبوبہ کو یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ میں تو تمہارے لئے آسمان سے تارے توڑ
کر لا سکتا ہوں یا یہ کہ میں تمہارے لئے جان بھی دے سکتا ہوں لیکن جب یہی
عاشق صاحب شوہر کا روپ دھارلیتے ہیں تو یہ صاحب گلی کے نکڑ سے اپنی بیگم کے
لئے گول گپے تک لانے سے ہچکچاتے ہیں!۔
بالکل اسی طرح ہمارے ارد گرد بسنے والے اکثر لوگ،چاہے وہ رشتے دار یا دوست
احباب ہی کیوں نہ ہوں عام حالات میں ہم سے محبت کا دعوی کرتے ہیں لیکن جب
ہم پرپریشانیاں آئیں اورہم ان سے ان پریشانیوں سے نجات کے لئے مدد مانگیں
تو عین اس وقت انکی محبت اور شفقت کے دعوں کی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ
کون ہمارے ساتھ مخلص تھااور کون صرف مخلصی کا ڈھونگ رچائے ہوئے تھا.
ظرف کا امتحان:-
پریشانیاں آپکے اپنی شخصیت کا راز آپ پر عیاں کرتی ہیں۔ یہ آپ کے ظرف کا
امتحان بھی لیتی ہیں اگر آپ پریشانیوں کے گزر جانے کے بعد مدد کرنے والے
دوست اور رشتے دار وں اور اپنے پروردگار کے زندگی بھر احسان مند رہیں تواس
کا مطلب یہ ہے کہ آپ واقعی با ظرف اور باوفا ہیں اور اگر پریشانیوں کے دن
ختم ہونے کے بعد انہیں بھول جائیں تو سمجھیں کہ ابھی آپ کو اپنے اخلاق پر
مذید محنت کی ضرورت ہے۔
ایک اچھا انسان ہر حال میں اپنے رب کا شکر گزار رہتا ہے اور ان بندوں کا
بھی جو ہر اچھے اور برے حالات میں اسکا ساتھ دیتے ہیں اور اسکی ہمت بڑھاتے
ہیں۔
صبر و استقامت پیدا کرتی ہے:-
پریشانیوں اور مصیبتوں میں یہ خاص خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شکار کو لازوال
خوبیاں عطا کرتی ہیں۔ اگر ہمیں کسی قسم کی جانی مالی پریشانیوں کو سامنا
کرنا پڑے اور ہم اسے مثبت انداز میں لیں تو آپ یقین کریں یہی مصیبت اور
پریشانی ہم میں ایک حیرت انگیز خوبی پیدا کر کے رہے گی جسے حرف عام میں
استقامت کہتے ہیں۔
روحانی خوشی عطا کرتی ہے:-
زندگی بہرحال گزر ہی جانی ہے عیش و آرام سے یا پریشانی سے۔یہ ہمارا مشاہدہ
اور تجربہ بھی ہے کہ ہماری پوری زندگی میں حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں
رہتے ہیں، کبھی ہماری زندگی کے دن انتہائی سہولت کے ساتھ گزر رہے ہوتے ہیں
تو کبھی ہمارے روز و شب میں بیقراری اور بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔
لیکن جو شخص پریشانی کو پازیٹو لیتا ہے اور ان سے کچھ سیکھنے کی صلاحیت
رکھتا ہے اور اپنے پروردگار سے ان دنوں شکوہ کی بجائے مدد طلب کرتا
ہے،دعائیں کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی تدبیریں بھی آزماتا رہتا ہے تو ایسے
لوگوں پر سے جب پریشانی ختم ہوجاتی ہے تو انہیں دوہری خوشی محسوس ہوتی
ہے۔ایک خوشی پریشانی کے ختم ہوجانے پر ہوتی ہے تو دوسری خوشی اس پریشانی کے
وقت ثابت قدم رہنے اور اس سے حاصل ہونے والے تجربات کی ہوتی ہے۔
تجربہ حاصل ہوتا ہے:-
انسان پیدائش سے موت تک مسلسل مشاہدات اور تجربات سے گزرتا رہتا ہے۔ ہماری
زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی تجربے یا مشاہدے میں گزر رہا ہوتا ہے۔ انسان
سب سے زیادہ تجربہ پریشانی کے دور میں حاصل کررہا ہوتا ہے۔یہی تلخ تجربات
ہماری بعد کی زندگی کو آسان بناتے ہیں۔زرا سوچئے تو سہی کہ ایک بچہ اپنی
زندگی میں جب پہلی بار گرتا ہے تو کتنا ڈر سا جاتا ہے اگر وہ اس ڈر اور درد
کی وجہ سے دوبارہ چلنے کی کوشش نہ کرے تو زندگی میں وہ کبھی چل ہی نا پائے
گا۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پھر کچھ ہی دیر بعد چلنے کی کوشش میں لگ جاتا
ہے۔بار بار کا گرنا اور اس گرنے کی وجہ سے پریشان ہونا، بچوں کو چلنے کا
تجربہ عطا کرتا ہے۔پھر ایک دن ضرور آتا ہے جب یہ بغیر کسی سہاریکے چلنے کے
قابل ہوجاتے ہیں۔بالکل اسی طرح ہماری زندگی میں اچھے برے واقعات رونما ہوتے
ہیں اگر ہم اسے مثبت انداز میں لیں اور ان مشکلات کو آنے والے دنوں کے لیے
تجربات کا ذریعہ سمجھنے لگ جائیں تو ہمارے تمام غم دور ہوجائیں گے۔
جیسا کے غالب نے کہا تھا کہ: #مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں!
اعتماد پیدا ہوتا ہے:-
تکلیفیں اور پریشانیاں ہمیں صرف عاجزی اور انکساری ہی عطا نہیں کرتیں بلکہ
یہ ہم میں خود اعتمادی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ مشاہدات اور تجربات ہمیں با
اعتماد بناتے ہیں۔زندگی میں ہمیں صرف کامیابیاں ہی نہیں ملتیں بلکہ اکثر
ناکامیوں کا منہ بھی دیکھنا پڑتا ہے جو ہماری پریشانیوں کا سبب بھی بنتی
ہیں لیکن جب یہی پریشانیاں ہمیں بار بار پیش آتی رہیں تو ہم میں ان
پریشانیوں سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے جسے ہم تجربہ کہتے ہیں اور
یہی تجربات ہم میں اعتبار اور اعتماد کا ذریعہ بنتے ہیں۔
قربِ خدا اور عاجزی کا زریعہ:-
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ خدا ہمیشہ ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہے۔ایک پریشان
اور ٹوٹا ہو دل رب کا گھر ہوتا ہے۔پریشانی اور عارضی ناکامی، عاجزی پیدا
کرتی ہے۔اگر ہم مسلسل کامیاب ہوتے رہیں تو ہم میں ہو سکتا ہے تکبر پیدا
ہوجائے لیکن کبھی کبھی کی ناکامی ہمارا غرور توڑتی ہے اور ہمیں یہ باور
کراتی ہے کہ ہماری عقل،ہماری محنت اور ہمارا پیسہ ہی صرف ہماری زندگی کی
آسودگی کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ذات ایسی ہے جو اگر چاہے تو آپ کے پاس یہ سب
کچھ رہتے ہوئے بھی پریشان، بیماراور ناکام کر دے۔
پریشانیاں اور تکلیفیں خود شناسی کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ خدا شناسی کا
بھی سبب ہے۔
حقیقت شناس بناتی ہے:-
پریشانیاں اور ناکامیاں ہمیں فرضی اور خوابی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا سے
روشناس کراتی ہیں۔رشتوں کے پہچان اور دوستوں اور دشمنوں سے آگاہی دیتی ہیں۔
یہ ہمیں سیلف میڈ انسان بناتی ہے۔قوت فیصلہ پیدا کرتی ہے۔
اچھے برے کی تمیز ماضی کے تلخ تجربات کی بنا پر ہی تو آتی ہے۔
سوچ میں تبدیلی کا سبب:-
ناکامی سے جو تجربات حاصل ہوتے ہیں وہ ہماری سوچ کے دھارے کو تبدیل کر دیتے
ہیں۔پریشانیاں تکلیف دہ ضرور ہیں، مگر دیر پا نہیں۔ہر مشکل کے بعد آسانی کا
آنا قدرت کا اٹل فیصلہ ہے۔ناکامی اور پریشانی کچھ کر گزرنے کے جذبات سے
آشنائی دیتی ہیں۔آپ نے اکثر ناکامی کے سبب لوگوں کے نظریات اور سوچ کو
بدلتے دیکھا ہوگا۔ ناکامی اور پریشانی ایک ایسی آگ ہے جو ہمیں کندن بناتی
ہے۔جس طرح سونا آگ میں جل کر کندن بن جاتا ہے اسی طرح ناکامی کی آگ سے جو
تکلیف اور کرب کے تجربات حاصل ہوتے ہیں وہ ہماری سوچ کے دھارے میں تبدیلی
اور مثبت نظریات کی پختگی کا سبب بنتے ہیں۔
|