لاک ڈاون کھلنے سے سب نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ اب
معمولات زندگی دوبارہ شروع ہو گی۔ حکومت وقت نے بہت ساری مجبوریوں کی بناء
پر لاک ڈاون میں نرمی برتی ایس او پیز کی کڑی شرائط کے ساتھ عوام کی آگا ہی
کے لئے سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ موجودہے ۔لیکن! افسوس عوام نے اب تک کرونا
وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لیا شائدتبا ہی کاصیح ادارک نہیں یا پھر عوام کو
درست انداز سے گا ئیڈ نہیں کیا جا سکا۔ اس وقت پا کستا ن میں کرونا سے شکار
ہو نے والوں کی تعدادمیں روز بروز اضا فہ ہو رہا ہے اموات کی شرح بڑھ گئی
ہے۔ دنیا میں عا لمی وبا کا پھیلنا کو ئی نئی با ت نہیں ہسپانیہ کے بلیک
ڈیتھ میں پا نچ کروڑ افراد لقمہ اجل بنے ۔ایسی وبا ئیں مختلف ادوار میں آتی
رہی ہیں جن پر کہا نیاں ناول بھی لکھی گئی اپنی تھیوریاں سا ئنس دانوں نے
پیش کی اس کے سد با ب کی کو شش ہوئیں یہ ایک خاص مدت کے بعد خود تھم گئی
مگراپنے سا تھ قیمتی جا نیں لے گئی انسان فقط کف افسوس کر تا رہ گیا لیکن
موجودہ حالات میں ہم چونکہ ایک گو بل ولیج میں رہتے ہیں اپنے تئیں خود کو
بہت ترقی یا فتہ اور عقل قل سمجھتے ہیں اس لئے اب تک اس وبا کو تسلیم نہیں
کر پا رہے ۔آج کے دور میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے دنیا اتنی تر قی کر گئی ہے
ہم نے جدید ھتیار بنا لئے چا ند پر کمندے ڈال لی طب کی دنیا میں ٹرانسپلانٹ
کئے ربوٹ و ٹیسٹ ٹیوب بے بی جیسے معجزے سر کر لئے لیکن چھوٹے سے وا ئرس نے
ہم سب کو چیلنج کر دیا سر توڑ کوششوں کے با وجود نکلنے کا کو ئی را ستہ اب
تک ہما ری سائنس نہیں نکال سکی کئی ماہ سے جدیدقیمتی آلات سے لیس بہترین
دماغ سا ئنس داں تجربوں میں مصروف ہیں ۔
پوری دنیا ایک الگ قسم کے مسا ئل کاشکا ر ہے۔ جن ممالک کے پاس وسائل وافر
مقدار میں دستیاب تھے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے خون آشام جبلتیں طاقتور
کی خاصہ تھیں اب ان کی ساری تگ ودوایک چھوٹے سے وائرس کو شکست نہیں دے سکتی
سرد جنگ کی کیفیت دنیا پر طاری ہے قدرت نے دنیا کوانہونی آزمائش میں مبتلا
کر دیا ہے۔ یہ گریٹ ڈپریشن سے آگے بڑھ کر کسی کیفیت کا نام ہے ۔مارگریٹ کے
لکھے ناول ائیر آف دی فلڈ میں ایک رقاصہ کردار کہتی ہے کہ آپ اگر زیا دہ دن
تنہا رہیں تو اپنے آپکو بھول جا تے ہیں شائد ایسا ہو ہم حساس ہو گئے ہیں
زندگی کے وہ پہلو جنھیں ہم نے نہیں سمجھا تھا ان کی اہمیت شدت سے محسوس کی
جا رہی ہے۔ چند ماہ قبل کون سکتا تھا کہ ذریعہ معا ش اپنی محنت کے بل پر
کما نے کے لئے بھی باہر جا نے پر پا بندی لگ سکتی ہے۔ جو محنتی افراد کبھی
گھر بیٹھنے کا تصور نہیں کر سکتے تھے انھیں گھر بیٹھنے کی سزا ملے گی طالب
علموں کو اسکول غیر حاضری پر سزائیں ملتی تھیں اب مہینوں سے اسکول بند ہیں۔
مریض ہا سپٹل جا نے سے کترا رہے ہیں کہیں کرونا کیس میں دھر نہ لئے جا ئیں
اور ہا سپٹل والے ایک خاص تعداد کے بعد مریضوں کو ایڈ مٹ کر نے سے گریزاں
ہیں۔ جیب میں پیسے ہو نے کے با وجود آپ فلا ئٹ پکڑ کر کسی دوسر ے ملک نہیں
جا سکتے عمرہ کرنے کی اجازت نہیں علاج کے لئے بیرون ملک جا نے کی ممانت ہے
گلشن کا تما م کا روبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ رشتہ داروں نے میل جول پر پا بندی
لگا رکھی ہے لوگ تیما داری کو بھول گئے ہیں مر نے والوں کی میت پر اقرباء
جا نے سے گریزاں ہیں یا شیخ اپنی دیکھ کے مصداق ہر ایک اپنی فکر میں مصروف
ہے ہر فرد اپنی بقا کی جنگ میں لگا ہو اہے ۔اسپتال اورکچھ فلا حی ادارے ان
حالات میں بھی اپنی جا ن جو کھوں میں ڈال کرمریضوں اور مستحقین کی مدد میں
کو شا ں ہیں ۔ پوری دنیا کرا ئسس سے دوچا ر ہے کہ لا ک ڈاون نے اکثر یت کو
ذہنی دبا ؤ کاشکا ر بنا دیا ہے ہم پر ایک عجیب طرح کا موڈ طا ری ہے بنا ء
کسی وجوہ کے ہم امید و یاس میں مبتلا ہیں۔ اس وقت مظبوط اعصاب کے حامل
افراد کی اشد ضرورت ہے خا ص کر وطن عزیز میں جس طرح بد احتیاطی کے ریکارڈ
ہماری قوم توڑ رہی ہے اس میں یو گنڈاکے صدرکی تقریر ہم سب کو سننی چا ہیے
جس میں انھوں نے بہت نپے تلے خطاب میں کرونا وا ئرس کو ایک جنگ سے تشبیہ دی
ہے ۔جس طرح جنگ کے دوران ہم گھروں میں اپنی مر ضی سے مقید ہو جا تے ہیں اگر
گھر میں کو ئی خندق کھودی ہو تو اس میں رہنا زیادہ پسند کر تے ہیں۔ گھر سے
آزادی کی فکر نہیں کرتے جو مل جا ئے کھا لیتے ہیں اس میں کسی سے کو ئی شکوہ
کا پہلو نہیں ہو تا کہ کبھی نہ کبھی حالات بہتر ہوں گے تو پھراچھی خوراک مل
جا ئے گی۔ اپنے کام اور کاروبار کی فکر نہیں کرتے جنگ کے بعد حالات ٹھیک
ہوں گے تو پھر بزنس شروع کر سکتے ہیں ۔بچے اسکول نہیں جا تے تو بھی کو ئی
شکوہ نہیں کر تے کہ ہما ری نظروں کے سامنے ہیں ہم سب ایک جگہ رہ رہے ہیں
روزایک نئی صبح جا گ کر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جنگ کے با وجود ہم زندہ
ہیں ساتھ ہیں۔ بلکل کرونا کا موزانہ بھی ہم سب کو اسی طرح کر نا ہو گا۔
بلکہ اب حالات جنگ سے زیا دہ بر ے ہیں کہ دشمن بہت بے رحم سفاک ہے اسکو صرف
اپنی تبا ہ کا ریوں سے غرض ہے کو ئی فرقہ مذہب نسل یا نظریہ سے غرض نہیں
کسی بوڑھے بچے کی تفریق نہیں سر حد کی کو ئی قید نہیں یہ دشمن نقل وحرکت
میں آزاد ہے کو ئی اصول نہیں بلا روک ٹوک موت تقسیم کر رہا ہے۔ ہم اسے اسی
صورت میں شکست دے سکتے ہیں جب ہم صبر کا مظا ہرہ کر یں وا ئرس سے محاذآرائی
نہ کر یں اپنے سما جی روابط کو محدود رکھیں ماہرین کی بتا ئی گئی ہدا یت پر
عمل کر یں ۔
اس وقت ضروری ہے کہ اپنی ایمان کی طا قت کو اپنا ھتیار بنا یا جا ئے۔
بحیثیت مسلما ن اس با ت کو سمجھا جا ئے کہ یہ دنیا خالق کا ئنات نے
دارلاامتحان کے طور پر بنا ئی ہے اور یہ بھی اسی کا اصول ہے کہ وہ کسی پر
اسکی بساط سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا ۔کسی کی محنت کو رائیگا ں نہیں کر تا
کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں اس کوثمر ضرور عطا فر ماتا ہے۔ انسانی روا بط
میں ریفلیکشن کا اصول کار فر ما ہے ۔آپ کی محبیتں خلوص نفرتیں عداوتیں حسد
رشک سب دوسری جانب اثر ضرور کرتی ہیں اگرایسا نہیں ہو تا تو بھی دوسری صورت
میں رب تعالیٰ آپ کی بساط سے زیادہ نواز دیتا ہے۔ آپ جس چیز کے اہل نہیں ہو
تے وہ بھی عطا کر دیتا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں اس رب نے ہم سب کے لئے
کچھ اچھا ضرور رکھا ہو گا ۔تنگی وآزمائیشیں زندگی کاحصہ ہیں انسان ہمیشہ سے
ارتقا کی جانب ما ئل رہا ہے ۔خوب سے خوب تر کی جستجو اس کی فطرت میں شا مل
ہے جو آج حالات ہیں ضروری نہیں کہ کل بھی ہوں بس فی الحال قاتل سے الجھنے
کی ضرورت کیا ہے۔ |