اگریہ کہا جائے کہ کرونا وائرس نے دنیا کا لائف
سٹائل بدل کررکھ دیاہے توبے جانہ ہوگا اس میں کوئی شک نہیں اس مرض اﷲ کو اﷲ
کا عذاب بھی کہاجاسکتاہے جہاں دنیابھرمیں زبردست خوف و ہراس سے لوگ سہمے
سہمے ڈرے ڈرے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں درجنوں ممالک میں لاکھوں انسان
لقمہ ٔ اجل بن گئے ہیں متاثرین کی تعداد30 لاکھ سے بھی تجاوزکرچکی ہے وہاں
اس کے کچھ مثبت پہلو بھی سامنے آئے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ شرمیں بھی
خیر کے کچھ پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں یہ الگ بات کہ ہمیں اس کاادراک نہیں ہے
بہرحال اس ورلڈ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا سب سے بڑی بات
یہ ہوئی کہ دین ِ فطرت اسلام کی حقانیت کھل کر دنیا کے سامنے آشکارہوگئی
نبی ٔ برحق ﷺ کے ارشادات سے غیرمسلموں نے بھی رہنمائی لینا شروع کردی۔ اﷲ
تعالیٰ کے منکرین بھی مساجد میں آکر سجدے کرنے پرمجبورہوگئے کئی چرچوں میں
آذان کی پرکیف صداگونجتی رہی،عیسائی بھی اﷲ کے99 اسمیٰ حسنیٰ کا وردکرنے
لگے، متعددممالک میں سڑکوں پر نماز اداکی گئی ۔ایک بات ثابت ہوگئی کہ اﷲ
تبارک تعالیٰ کی ذات ِ بابرکات ہی سب سے بڑی سپرپاور ہے تمام دنیا اس کے
سامنے ہیچ ہے بلاشبہ وہ ہر چیزپر قادرہے ۔دنیا پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ
امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک نہیں ہے2۔ چین نے ایک بھی میزائیل یا گولی
چلائے بغیر کرونا وائرس کے خلاف تیسری عالمی جنگ جیت لی ہے 3۔ یورپیئن اتنے
تعلیمیافتہ نہیں جتنے وہ دکھائی دیتے ہیں 4۔ غریب آدمی، امیر آدمی سے زیادہ
مضبوط ہوتاہے 5۔ دنیا میں انسان ہی انسان کے لئے سب سے بڑا وائرس خود ہے 6۔
کوئی پجاری، پادری مریض کو شفا نہیں دے سکتا 7۔ دنیا بھر لاک داؤن پر اب سب
کو احساس ہوا کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے ۔مقبوضہ کشمیر،فلسطین،عراق ،برما
میں ریاستی جبر کتنا خوفناک فعل ہے۔ 8۔ اب اس بات کا احساس ہوگیا کہ گھروں
میں رہ کر بھی کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ 9۔یہ بھی سب پر واضح ہوا کہ صرف
سادو خوراک ہی انسان کی اصل ضرورت ہوتی ہے فاسٹ فوڈ اور غیر ضروری سرگرمیوں
کے بغیر بھی انسان زندہ رہ سکتے ہیں۔ 10۔ سماجی بھلائی کے کام کرنے والے،
لوگوں کے لئے خوراک، ادویات اور احساس کرنے والے اچھے لوگ اس دنیا میں اب
بھی موجود ہیں۔11۔اس لاک ڈاؤن نے یہ بھی فیصلہ کردیا کہ اگر ہم زیادہ سکول
بنائیں گے تو زیادہ ہسپتال بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی 12۔ یہ بھی پوری
دنیا پر آشکارہوا کہ گاڑیوں کے بنا بھی ہم چل پھرسکتے ہیں۔ 13۔ جو وقت اﷲ
کی یادسے غافل کردے وہ ضائع ہوگیا ہما رے پاس وقت ہے تو اگر ہم اسے انسانیت
کی فلاح کے لئے ستعمال کریں۔ 14۔کرونا وائرس نے ہمیں اس بات کااحساس بھی
دلادیا ضرورت سے زیادہ پیسہ بیکار چیز ہے اس سے کم وسائل،مستحقین اور
سفیدپوش لوگوں کی مشکلات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔15۔ سب سے بڑھ کریہ ہے کہ
قدرت کے بنایا ہوا نظام ہی سب سے بہتر ہے اور اسی میں انسان کی بھلائی ہے
اسی لئے آج ماہرین اس بات کے قائل ہوتے جارہے ہیں کہ پوری دنیا میں کرونا
وائرس کے جہاں منفی اثرات دیکھنے کو ملے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس
کے کچھ مثبت اثرات بھی نظر آئے ہیں جو دنیا کی معیشت کے لیے خوش آئند ثابت
ہو سکتے ہیں کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں صنعتی سرگرمیاں
بند ہیں جس کی وجہ سے پیٹرول کی مصنوعات کی طلب میں کمی آ نے سے عالمی سطح
پر پٹرول کی قیمتوں میں کمی کر دی گئی کرونا وائرس سے متاثرہ تمام ممالک
میں صنعتوں کو بند کر دیا گیا، پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی لگا دی گئی ہے جس
کی وجہ سے میں فضائی آلودگی میں نمایاں کمی آئی ہے آج دنیا کے بیشتر ممالک
میں سرکاری و نجی اداروں نے اپنے40سال سے زیادہ عمر کے ملازمین کو یہ موقع
فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے دفتری کام گھروں میں بیٹھ کر کر سکتے ہیں تاکہ وہ
کرونا وائرس سیمحفوظ رہیں جو لوگ ان دنوں میں گھروں میں دفتری کام کر رہے
ہیں انہیں ٹیکنالوجی کے نئے طریقے بھی سیکھنے کو مل رہے ہیں۔چونکہ کئی
ہفتوں سے لاک ڈاؤن جاری ہے اور تفریحی مقامات کو عوام کے لئے بند ہیں اس
لئے تفریحی مقامات اور سڑکیں صاف ستھری ہیں دنیابھرمیں آلودگی کی شرح
انتہائی کم ہوگئی ہے ۔ کرونا وائرس سے بچنے کے لئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن
نے لوگوں کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے ہاتھ دھونے کی تلقین کی ہے تاکہ وہ
اس وائرس سے محفوظ رہ سکیں ہیلتھ آرگنائزیشن کی اس بات پر عمل کرتے ہوئے
لوگوں کو یہ ایک اچھی عادت پڑرہی ہے جو صحت کے لئے بہت زیادہ مفید ہے۔ اس
لئے بلامبالغہ کہاجاسکتاہے کہ دنیا کتنی بھی ترقی کر لے لیکن وہ قدرت کا
مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ۔امریکی ادارہ صحت نے انتہائی حیران کن انکشاف کرتے
ہوئے کہاہے کہ کرونا وائرس کے چار مریضوں میں سے ایک مریض ایسا ہوتا ہے جس
میں کرونا وائرس کی کوئی علامات بظاہر نظر نہیں آتی اور وہ شخص اس بات سے
بالکل بے خبر ہوتا ہے کہ یہ بھی کرونا وائرس کا شکار ہے اسی شخص کی کرونا
وائرس میں مبتلا ہونے سے لاعلمی اس وائرس کو دوسرے لوگوں تک پھیلانے کا سب
سے بڑا سبب بنتی ہے انہوں نے اس بات کی بھی پیشن گوئی کی ہے کہ ممکن ہے کہ
یہ وائرس اس دنیا میں دو سال تک موجود رہے گا ایک ماہر ڈاکٹر رابرٹ نے کا
کہنا ہے کہ 25 فیصد لوگوں میں کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں جن
لوگوں میں کرونا وائرس کی کوئی بھی علامات ظاہر نہیں ہوتیں یہی لوگ کرونا
وائرس کے آگے سے آگے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب ہے کیونکہ انہیں خود بھی صبح
بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کرونا وائرس کا شکار ہیں اور اسی وجہ سے
دوسرے لوگ بھی اس وائرس سے متاثر ہوتے جاتے ہیں اسی لئے ہم لوگوں کو بار
بار یہ ہدایت کررہے ہیں کہ بلاضرورت بالکل گھر سے باہر مت نکلیں اور ایک
دوسرے سے ملنا جلنا ختم کردیں جس شخص نے کرونا وائرس کی کوئی علامت بھی
نہیں ہے اس سے بھی چاہئے کہ وہ گھر سے باہر نہ نکلے چاہے وہ کتنا ہی صحت
مند کیوں نہ ہو اور ان حالات میں ایک دوسرے سے ملنے سے پرہیز کریں. ان کا
مزید کہنا تھا کہ مختلف ممالک میں کرونا وائرس کی ویکسین کے لئے ٹرائل جاری
ہیں. اگر کوئی ملک اس کی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو اس
کو مارکیٹ میں آنے تک 12 سے18 مہینے لگ سکتے ہیں. ویکسینیشن کے آنے سے پہلے
اس وائرس سے بچنے کا واحد حل احتیاط ہی ہے جو اس وائرس کو پھیلنے سے روک
سکتی ہے. لہذا دنیا کے تمام ممالک کے لوگ اس معاملے کو سنجیدہ لے اور
ہدایات پر عمل کریں۔: چینی سائنسدانوں کے مطابق بلیوں اور سفید نیولوں میں
انسانوں سے کورونا وائرس منتقل ہو سکتا ہے تاہم اس کے بعد ان پالتو جانوروں
سے انسانوں میں وائرس منتقل ہونے کا خطرہ بہت کم ہے جبکہ سگریٹ تیار کرنے
والی برٹش امریکی تمباکو (بیٹ) نامی کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ایسے پودوں کی
مدد سے کورونا ویکسین تیار کررہی ہے جن کے ذریعے تمباکو بنائے جاتے ہیں ہم
ممکنہ طور پر رواں سال جون تک ویکسین تیار کر لیں گے، کامیاب تجربے کے بعد
ہر ہفتے ویکسین کی لاکھوں مقدار میں تیاری کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں بہرحال
کرونا وائرس کی موجودہ لہرکے خاتمہ کے بعدیہ بات یقینی طورپر کہی جا سکتی
ہے کہ اس وباء کے دنیا پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے،عالمی سیاست
اورمعیشت کا منظرنامہ تبدیل ہوجائے گایقینادنیا کا لائف سٹائل بدل جائے گا
یہ بھی ہوسکتاہے پوری دنیا میں رات گئے تک کھلنے والے شاپنگ مال، ہوٹل اور
بڑے بڑے سٹوروں کا کاروبار بری طرح متاثرہوجائے ۔یہ بھی ممکن ہے کرونا
وائرس جیسے حیاتیاتی ہتھیار روائتی اسلحہ کی اہمیت اور ضرورت ختم ہی کر
ڈالے ایسا ہوا تو یہ بھی تباہی کا راستہ ہوگا۔
|