گوجری زبان کا تاریخی پس منظر

محمد رفیق شاہد

گوجری زبان برصغیر کی قدیم زبانوں میں سے ایک زبان ہے اس خطے میں گوجروں کے تاریخی شواہد پانچویں صدی عیسوی کے بعد ہی ملتے ہیں اور پھر تیرہویں صدی عیسوی تک ہندوستان میں گجر حکومتوں کے واضح ثبوت دیکھنے میں آتے ہیں یقیناً اُس دور میں گوجری زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہو گی ۔ سرکاری سرپرستی کے زمانے میں ادیبوں اور شاعروں نے کافی مقدار میں گوجری اَدب تخلیق کیا البتہ اس میں شعری اَدب زیادہ ہے اور وہ بھی اکثر صوفیانہ کلام ہے ۔ ان شعراء میں سید نور الدین ست گرو، حضرت امیر خسرو ، شاہ میراں جی، شاہ باجن ،شاہ علی جیوگامی ، برہان الدین جانم ، خوب محمد چشتی ، جگت گرو اور امین گجراتی کے نام قابل ذکر ہیں۔

پندرہویں صدی عیسوی کے بعد ہندوستان میں گوجری حکومتوں کا زوال شروع ہو گیا اس کے ساتھ ہی گوجری زبان کی سرکاری سرپرستی ختم ہو گئی اور یہ زبان مرکزیت سے دور ہوتی چلی گئی جس کے نتیجے میں گوجری زبان مقامی لہجوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی گوجری زبان کی ادبی بنیادوں پر دوسری زبانوں کے ڈھانچے تعمیر ہونا شروع ہو گئے کہیں گجرات کہیں راجھستانی کہیں سندھی پنجابی اور کہیں ہندوستانی کا نام دے کر ہندوی اور اردو زبانوں نے اپنی ترقیاتی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

مرکزیت کھونے کے بعد گوجری زبان کا کوئی مخصوص علاقہ نہ رہا ۔ ریاست جموں وکشمیر میں بولی جانے والی گوجری پر عربی اور فارسی کے واضح اثرات دیکھنے میں آتے ہیں کیونکہ ریاست کے تمام گوجر مذہب اسلام کو ماننے والے ہیں اور ان کا مذہبی لٹریچر عربی اور فارسی زبانوں میں دستیاب تھا مذہبی اور عالم فاضل لوگ درسگاہوں میں عربی فارسی کی تعلیم دیتے تھے اس لئے عام لوگوں کی زبان پر بھی یہ اثرات مرتب ہونے لگے البتہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ آریائی ہندوستان میں داخل ہوئے تو وہ انڈک زبان بولتے تھے باقی زبانیں آریائی اور قدیم ہندوستانی تہذیبوں اور بولیوں کے میل میلاپ سے وجود میں آئیں جنہیں پراکرت کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کی ایک شاخ آپ بھرنس ہے۔

سرکاری سرپرستی کے دور میں گوجری زبان کو گجرات میں مرکزی حیثیت حاصل رہی اردو زبان کے ایک مورخ ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی ” تاریخ اردو ادب “ میں لکھتے ہیں ’ ’ جب دکن میں اردو کے نئے مراکز ابھرے تو وہاں کے اہل علم و ادب نے قدرتی طور پر گوجری ادب کی روایت کو اپنایا۔ دکن میں جب اردو کا چرچا ہوا اور اسے سرکاری دربار کی سرپرستی حاصل ہوئی تو وہاں کے ادیبوں اور شاعروں کی نظر گوجری ادب پر ہی گئی اس ادب کو معیار تسلیم کر کے انہوں نے اس ادب کے تمام عناصر کو اپنے ادب میں جذب کر لیا“۔

ڈاکٹر جمیل جالبی سترہویں صدی تک گوجری زبان کی ادبی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں اردو بولنے والوں کو گوجری سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی یقیناً گوجری زبان اور اردو کا لسانی رشتہ بہت قریبی ہے کیونکہ اردو زبان کی بنیادیں ہی گوجری ادب پر ہیں۔

ریاست جموں وکشمیر میں تخلیق ہونے والا گوجری ادب مقامی لہجوں کا مرکزی روپ ہے گوجری زبان کا اپنا ایک حلقہ ہے ،اپنا ایک ادب ہے، اپنے خالص الفاظ کا ذخیرہ ہے اور اپنی ایک الگ پہچان ہے یہ کہہ دینا کہ گوجری پنجاب یا کسی دوسری زبان کی ذیلی بولی ہے قطعاً درست نہیں بلکہ گوجری زبان کی اپنی ذیلی شاخیں ہیں۔گوجری زبان میں محاورے ، ضرب المثل ، پہلیاں ، لوک گیت، لوک کہانیاں اور لوک بار غیرہ وہ سب مواد موجود ہے جس کے بل بوتے پر اس کو زبان کا درجہ دیا جا سکتا ہے گوجری اپنی قدامت اور وسعت کے لحاظ سے برصغیر کی اہم زبان ہے شروع شروع میں گجرات (بھارت) اور دکن میں اس کو اردو کا نام دیا گیا کیونکہ دراصل اس زبان کے خدوخال سے ہی بعد میں اردو نے نشوونما پائی چوہدری اشرف گوجر ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب” اردو کی خالق ، گوجری زبان“ میں بڑے خوبصورت طریقے سے یہ بات ثابت کی ہے۔

گوجری زبان برصغیر کے میدانوں اور کوہساروں میں بڑی توانائی کے ساتھ زندہ رہی یہ زبان راجھستان ، ہماچل پردیش ، جموں وکشمیر ، صوبہ خیبر پختونخواہ ، شمالی علاقہ جات یہاں تک کہ افغانستان ، روس اور چین کے کچھ علاقوں میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

افغانستان سے آج بھی گوجری زبان میں ہفت روزہ مجلّہ شائع ہو رہا ہے گوجری زبان بولنے والوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے جغرافیائی وسعت کے اعتبار سے برصغیر کی دوسری کوئی زبان گوجری کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پنجاب، مارواڑی اور خاص طور پر سندھی پر اس کا اثرنمایاں ہے۔

گوجری کے تحریری اَدب کی تاریخ تقریباً ساڑھے نو سو سال پرانی ہے کیونکہ سید نور الدین عرف ست گرو جنہوں نے تقریباً1094ءمیں وفات پائی اُس زمانے میں اُن کا گوجری اور سندھی کلام بہت مشہور تھا گوجری زبان و ادب اس بدنصیب اور خود فراموش گوجر قوم کا ورثہ ہے جو برصغیر کی ایک قدیم ترین اور عظیم ترین قوم ہے اس قوم کے بادشاہوں ،راجوں ، مہاراجوں ، سلاطین اور وزرائے نے صدیوں نہیں بلکہ ہزاروں سال دنیا کے وسیع علاقوں اور براعظموں پر حکومت کی ہے ۔

قبل مسیح اور بعد مسیح میں کئی صدیوں تک برسرِ اقتدار رہنے کے بعد پانچویں صدی عیسوی میں یہ قوم وسطی ایشیاء سے ایران ہو کر ایک دفعہ پھر ہندوستان میں نمودار ہوئی تو پنجاب ، سندھ ، راجپوتانہ ، جودھپور وغیرہ میں اپنی سلطنت قائم کرتی آگے بڑھی اور کوہ اراوالی اور آبو کے آس پاس کے علاقوں کو خاص طور پر اپنا مرکز بنایا اور اپنی ایک نوآبادی یا ریاست گوجر اتر منڈل قائم کی جو گجرات کا ابتدائی نام ہے گوجر زیادہ طاقتور ہو کر مالو پر بھی قابض ہو گئے اور پھر مغربی دکن کو بھی زیر تصوف لے آئے۔پھر گنگا کے میدانوں پر قبضہ کر کے آسام تک پہنچ گئے ۔ سورت ، بھڑوچ اور کاٹھیا واڑ پر بھی قبضہ کر لیا۔

641عیسوی میں گجرات کی سلطنت بلہار سورت سے جودھپور تک دورا، کاٹھیا واڑ سے بھلیا تک وسیع تھی جسے گوجر دیش کہا جاتا تھا ۔

گجرات اور دکن پر گوجروں کے چالوکیہ ، کلیانی اور چاوڑہ خاندانوں نے 610ءتا942ءسولنگی خاندانوں نے 941ءتا 1242ءباگھیلا خاندان نے 1242ءتا1304ءتک صدیوں حکومت کی اور پھر گوجر سلاطین گجرات کا عہد حکومت 1407ءتا 1573ءتک 166سال رہا۔ بھلمان کے گوجر راجہ نے 816ءمیں قنوج پر قبضہ کر لیا تھا 840ءمیں اس کا پوتا راجہ مہراج بوج اعظم تخت نشین ہوا جس نے نربدا سے ستلج اور بہار سے سندھ کی سرحدوں تک پچاس سال فقید المثال حکومت کی اس کی حکومت میں ہندوستان کے علاوہ کابل ، قنھار ، بنگال اور خراسان وغیرہ بھی شامل تھے۔

اجمیر،دہلی اور آس پاس کے علاقوں پر چھٹی صدی عیسوی سے 1992ءتک کم وبیش ساڑھے پانچ سو سال چوہان گوجروں کی عظیم الشان حکومت رہی جس کا آخری حکمران پرتھوی راج تھا پانچ سو پچاس سالوں کا یہ دور گوجری دور ہے جناب سید ابو ظفر ندوی کے بقول اس دور میں پورے ہندوستان میں قائم ہونے والی بڑی بڑی ریاستیں گوجر قبائل کی تھیں ۔ بیچ ناتھ پوری شعبہ تاریخ لکھنﺅ یونیورسٹی نے 550ءسے 1577تک کو گوجر عہد قرار دیا ہے۔ ان کے زوال کی انتہا اکبر اور مہارانا پرتات سنگھ کی جنگ ہلدی گھاٹ 1577ءسے ہوئی مہارانا پرتاب اکبر کے ساتھ بیس سال جنگ لڑتا رہا اور مشہور زمانہ چتوڑ کا قلعہ اور کئی دوسری ریاستیں واپس لے لیں وہ ان راجوں خلاف بھی آواز بلند کرتا رہا جوگوجر کے بجائے راجپوت کا نام یا لقب اختیار کرتے تھے اس کی اولاد1947ءتک میواڑ پر قابض رہی اور آج تک اپنے آپ کو فخر کے ساتھ گوجر رانا کہلاتی ہے۔

پنجاب، کابل اور قندھار پر 990ءسے 1013ءتک 113سال راجا جے پال کھٹانہ اور اس کے خاندان کی حکومت رہی جس کی حکومت کا خاتمہ سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں ہوا۔ جموں وکشمیر اور پونچھ میں کئی گوجر قبائل برسراقتدار رہے کشمیر پرپنوار گوجروں نے کئی سوسال حکومت کی ۔ پونچھی گوجروں کے سردار رانی دیدا کے سپہ سالار تنگ نے ترلوچن پپال کھٹانہ کی مدد سے کشمیر پر محمود غزنوی کا حملہ پسپا کیاتھا۔

رانی کوتاہ دیوی کے قتل کے بعد شاہ میر جورانی کا وزیر تھا۔ سری نگر کے تخت پر بیٹھا اور شمس الدین کا لقب اختیار کیا اس کے چار بیٹے یکے بعددیگرے کشمیر کے حکمران بنے ۔خانقاہ ِ معلی کی تعمیر ان ہی گوجروں کے زمانے میں ہوئی اسی گوجر خاندان کا مہاراجہ ادھیر راجہ زین العابدین 1406ءتا1484ءکی حکومت کی یاد آج بھی کشمیر کی وادی میں تازہ ہے ۔ عوام اور خواص اس بادشاہ کو خدا کامقبول ترین بندہ سمجھتے ہیں۔

1618ءمیں غیور گوجر احمد سلطان آوانہ نے40ہزار رفوج جمع کی اورجہانگیر کا راستہ روکا1797ءمیں بہادر خان کے قتل کے بعد اس کے وزیر روح اللہ خان کا بیٹا امیر خان پونچھ کا حکمران بنا جسے 1823ءمیں لاہو رلا کر قتل کر دیا گیا اس طرح گوجر سانگو خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا ۔ سترہویں صدی تک بالا کوٹ ، وادی کاغان اور ہزارہ پر گوجروں کی حکومت رہی متحدہ بنگال ، آسام اور اڑیسہ وغیرہ پر گوجروں کے پال خاندان کی چارسو سال سندھ پر گوجروں کی کئی صدیوں پر محیط حکمرانی رہی حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنے مجموعے ” شاہ جو رسالہ “ کے ایک باب سرمومل رانو میں مومل کے حوالے سے گوجروں کی عظمت اورحشمت کا ذکر کیاہے۔

707ءمیں بنو امیہ کے دور میں اس بیلہ اور بلوچستان پر بھی گوجر راجہ مان سنگھ کی حکومت تھی بلوچستان میں گوجر برادری کی تاریخ پر ایک تفصیلی کتاب انجنیئر محمد اقبال بیلا نے ” زابلستال کے گوجر قبائل “ کے نام سے شائع کی ہے ۔ گوجر برصغیر کے ہر علاقے میں پھیلے ہوئے مختلف زبانوں پر اثر انداز ہو کر انہیں ایک دوسرے کے قریب لائے جس کے نتیجے میں ہندوستانی یا اردو زبانیں نکھر کر ملکی اور قومی زبانوں کے درجہ تک پہنچیں ۔ لسانیات کے بے شمار ماہرین ، محققین اور مورخین اردو اور ہندی کی بنیاد گوجری زبان کو تسلیم کرتے ہیں۔گوجری برصغیر کی واحد زبان ہے جو ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے اس ملک میں گوجروں کا وجود ، ان کا کلچر اور زبان ملکی یکجہتی کا ایک بنیادی عنصر اور علاقائیت کی جگہ قومیت کی بنیادوں کو فروغ دینے کا باعث ہے۔

یوں گوجری زبان زمانہ قدیم سے ابھی تک مختلف مراحل طے کرکے ابھی تک برصغیر کے مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ گزشتہ نصف صدی میں گوجری زبان بولنے والے لکھاریوں نے ازسرنو اسے قلم اور کتاب کا روپ دینا شروع کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سرکاری سرپرستی میں سینکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور انفرادی طور پر بھی لکھنے والوں نے خاصی مقدار میں کتب شائع کی ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں ایک اندازے کے مطابق سو کے قریب گوجری کتب شائع ہو چکی ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد سہ ماہی مجلہ ”گوجری ادب“ کا آغاز بھی ایک نیا قدم ہے۔ حلقہ گوجری ادب ، راولپنڈی نے بھی ماضی قریب میں گوجری زبان کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لاہور چوہدری عبدالباقی نسیم مرحوم کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ گوجر گونج نے بھی گوجری ادب کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117077 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More