اگر کسی قوم کو ڈنڈے کی عادت پڑ جائے تو اس سے احساس ذمے
داری ختم ہو جاتی ہے، اور جب احساس ذمے داری ختم ہو جائے تو دیکھنے والوں
نے دیکھا ہے کہ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے مریض ایک لاکھ سے تجاوز کر گئے ہیں اور روزانہ
کی بنیاد پر 4 ہزار سے زائد افراد کورونا کا شکار ہو رہے ہیں اور سینکڑوں
اموات ہو رہی ہیں۔
حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور وزیر ریلوے شیخ
رشید سمیت بہت سارے اراکین پارلیمنٹ بھی اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔
اگر دیکھنے والے کورونا کا پس منظر دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ لوگوں
میں آگاہی پھیلانے کے لئے ہر ایک نے اپنا کردار ادا کیا خواہ وہ اداکار ہو
یا گلوکار، طلبہ ہو یا اساتزہ، سب نے اپنا حصّہ ڈالا تو یہ تو ہو نہیں سکتا
کہ لوگوں کو پتہ نہ ہو کہ وائرس کیسے پھیلتا ہے۔
توجب دیکھنے والوں نے دیکھا کہ لوگ پھر بھی احتیاط کیوں نہیں کر رہے ہیں تو
پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کو ڈنڈے کی عادت ہو گیی ہے کیوں کہ ہر عام آدمی یہی
کہتا ہوا نظر آرہا ہے کہ حکومت نے لاک ڈاون کھول دیا ہے تو ہم کیا کریں۔
اور دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ چونکہ اوپر سے کسی کا ڈنڈا نہیں ہے تو
لوگ عید بھی منائیں گے، تراویاں بھی پڑھیں گے اور ہر اجتماع کریں گے۔ اور
جس کا نتیجہ آج پاکستان بھگت رہا ہے،
ایک طرف بھوک اور مفلسی ہے دوسری طرف کورونا جیسی خطرناک وبا۔ اب کس طرف
جانا ہے یہ اسی قوم نے فیصلہ کرنا ہے۔
دیکھنے والوں نے دیکھا ہے کہ کسی بھی قوم میں احساس ذمے داری پیدا کرنے کے
لیے کوئی ایک بڑا قومی حادثہ کافی ہے، لیکن اس قوم نے آزادی کے بعد ٦۵، ٧١
، ٩٩ کی جنگیں دیکھیں، ٢٠ سال اپنی سر زمین پر دہشت گردی دیکھی، ہر طرح کی
آمریت دیکھی، سانحہ اے پی ایس دیکھا اور بڑی بڑی وبایں دیکھیں لیکن ایک قوم
نہ بن سکی جس میں احساس ذمے داری ہو۔
تو میرا دیکھنے والوں سے ایک سوال ہے کہ آخر کب تک یہ قوم ڈنڈے کے انتظار
میں رہے گی؟
کبھی تو اس قوم کو اپنی ذمےداری اٹھانی پڑے گی۔۔
کورونا وائرس بہترین موقع ہے ایک ذمےدار قوم بننے کا لیکن اس ذمےداری کا
احساس ہونے سے پہلے اتنی دیر نا ہو جائے کہ دیکھنے والے دیکھیں کہ ہر گھر
سے کورونا کا ایک ایک مریض اس دنیا کو چھوڑ گیا ہے۔
|