مارچ کے دوسرے ہفتے کے اختتام پر ، ملک بھر میں ناول
کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے اسکولوں اور کالجوں کو عارضی
طور پر بند کر دیاگیا۔ تادم تحریر تعلیمی اداروں کو بند ہوئے تقریباً تین
ماہ گزر چکے ہیں اور جو غیر یقینی صورت حال پہلے تھی آج بھی جوں کی توں
برقرار ہے ۔خدا جانے اب کب تعلیمی ادارہ جات کی دوبارہ کشادگی عمل میں آئے
گی۔ تمام تعلیمی شعبوں،بورڈ کے امتحانات، اسکولوں بالخصوص نرسری اسکولوں کے
داخلے،مختلف یونیورسٹیوں کے داخلہ ٹسٹ اور متعدد مسابقتی و پیشہ وارانہ
کورسز کے امتحانات و داخلہ ٹسٹ انھیں ایام میں انجام پذیر ہواکرتے تھے۔وقت
کو گزرنا ہے اور وہ گزرتا جارہا ہے لیکن ابھی تک کوڈ1۔(Covid-19)19وباء کے
پھیلاؤ پر قابو اور روک تھام کا کوئی موزوں و مناسب حل عالمی سطح پر نظر
نہیں آرہا ہے۔ان حالات میں اسکولس اور یونیورسٹی کی مسدودی کی وجہ سے ملک
کے تقریباً 285تا 320ملین سے زیادہ طلبہ کے درس واکتساب کے تسلسل پر مختصر
مدتی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں بلکہ یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ اس کا اثر
طویل مدت تک بھی برقرار رہ سکتا ہے۔اس وباء سے نہ صرف تعلیمی ڈھانچہ بلکہ
معاشی اور سماجی ڈھانچہ پھی بے حد متاثر ہوا ہے۔ ہندوستان بھر میں32کروڑ(
320 ملین) طلبہ COVID-19 کے زیر اثر اسکولوں کی مسدودی سے متاثر ہوئے ہیں ۔
لاک ڈاؤن کے اثرات سب سے پہلے اسکولوں کی روایتی وجود، معنویت ، درس و
اکتساب( سیکھنے) کی ہیت اورتعین قدر و جانچ پرکھ کے طریقوں پر مرتب ہوئے
ہیں۔ صرف مٹھی بھر خانگی اسکول ہی آن لائن تدریسی طریقہ کار کو اپنانے میں
کامیاب ہوپائے ہیں۔جبکہ کم آمدنی(Low Budget) والے خانگی و سرکاری اسکولوں
کی ای لرننگ تک عدم رسائی کے سبب ان مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کے درس و
اکتساب پر اب بھی تعطل کے بادل منڈلا رہے ہیں۔بیشتر طلبہ نہ صرف درس
واکتساب( سیکھنے ) کے مواقعوں سے بلکہ صحت مند غذاسے بھی محروم ہوگئے ہیں
اس کے علاوہ وہ معاشی اور سماجی دباؤ کا بھی شکار ہیں۔ حکومت نے ہنگامی
حالات کے پیش نظر درس و اکتساب کا رخ "آن لائن تعلیم" کی جانب موڑ دیا ہے ۔
یہ کہنے کی قطعی ضرورت نہیں رہی کہ وبائی مرض نے صدیوں پرانے ، چاک اینڈ
ٹاک یا چاک اینڈ ڈسٹر(Chalk and Duster)کے ماڈل کو یک لخت ٹیکنالوجی سے
مربوط نظام تعلیم میں تبدیل کردیا ہے۔ اساتذہ کو بہت کم وقت میں حقیقی کلاس
رومز سے ورچوئل کلاس رومز کی طرف جانے پر مجبور ہونا پڑا ۔ لیکن ان حالات
میں کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہرحال بہت بہتر ہے کیونکہ طلبہ کا وقت نہایت
قیمتی ہوتا ہے۔ اپریل اور مئی کی تعطیلات نے تعلیمی زیاں کو کچھ حد تک کم
کردیا ہے۔لیکن اسکولوں کی کشادگی اب بھی مشکوک ہے۔ ایسے میں اگر ورچول
تعلیمی عمل جاری رکھاجائے توہمیں اسے غنیمت سمجھنا چاہئے۔ماہرین تعلیم کے
مطابق بلاشبہ ورچول درس واکتساب کی موثر انجام دہی کے لئے ابھی بہت کام
کرنے باقی ہیں لیکن اس کے باوجود آن لائن طریقہ تعلیم کو اگر اس کی روح کے
مطابق انجام دیا جائے تویہ اس قدر بھی مشکل نہیں ہے جس قدر کہ اسے مشکل
سمجھا جارہا ہے۔دنیا پہلے ہی آن لائن طریقہ کار کی جانب پیش قدمی کررہی تھی
کوروناوباء(Corona Pandemic) نے اس عمل کو مزید تیزکر دیا ہے۔ جو کام اگلے
دس پندرہ برسوں میں انجام پذیر ہونا تھا اس پر ابھی سے کام شروع ہوگیا ہے۔
آن لائن طریقہ تدریس کی جانب پیش قدمی سے قبل ملک کی تعلیم سے مربوط جدید
ٹیکنالوجی اور طبقاتی نظام پر مبنی زمینی حقائق کو یکسر نظرانداز کردیا
گیا۔ -18 2017 کے قومی تجرباتی سروے (Sample Survey)کے مطابق صرف 23.8 فیصد
گھرانوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔ دیہی گھرانوں (جو کہ ملک کی آبادی
کا 66 فیصد ہے پر مشتمل ہے) میں صرف 14.9 فیصد لوگوں کو ہی انٹر نیٹ تک
رسائی حاصل تھی جب کہ صرف 42 فیصدشہری گھرانوں کو انٹر نیٹ تک رسائی دستیاب
تھی۔ سروے کے مطابق انٹر نیٹ صارفین میں مرد ہی بنیادی صارف کی طور پر ابھر
کر آئے ہیں۔مردوں کے 36 فیصد کے مقابل صرف 16 فیصد خواتین کو موبائل
انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ نوجوانوں کی انٹر نیٹ تک رسائی اس سے بھی کم
پائی گئی ۔حال ہی میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق صرف 12.5 فیصد طلبہ کو
اسمارٹ فون تک رسائی حاصل ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ بیشتر اساتذہ آن لائن
تعلیم سے ناواقف ہیں ۔واقفین کی بیشتر تعدا شد بد علم ہی رکھتی ہے۔ کامل
عبور اور دسترس کے حامل اساتذہ خال خا ل ہی پائے جاتے ہیں۔ملک میں آن لائن
تعلیم کو مقبول، موثر ،مفید ،منظم اور قابل رسا بنانے کے لئے ابھی طویل عمل
سے گزرنا باقی ہے۔اسمارٹ موبائل فون دنیا بھر میں جہاں رابطے کے لئے
استعمال کیا جاتا ہے وہیں ہمارا وہ ہ واحد ملک جہاں اسے تعلیم کے وسیلے طور
پر استعمال کیا جاتا ہے۔. ترقی یافتہ ممالک میں ہر طالب علم کے ہاں الکڑانک
نوٹ بک لیاب ٹاپ یا ڈسک ٹاپ کمپیوٹر لازمی طور پر پایا جاتا ہے۔مزید اس کے
ہاسٹل گھر اور کمرۂ جماعت میں ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ مفت فراہم کیا جاتا ہے۔
ہمارے بیشتر طلبہ کمپوٹر،لیاب ٹاپ یا ڈسک ٹاپ کمپیوٹر اور وائی فائی انٹر
نیٹ کی سہولت سے بھی محرو م ہیں ۔سرکاری مدارس میں زیر تعلیم سو فیصد طلبہ
،سرکاری کالجوں اور جامعات میں زیر تعلیم 50فیصد طلبہ کا تعلق غریب
خاندانوں سے ہوتا ہے جو لیاب ٹاپ تو دور معمولی معیار کا اسمارٹ فون خریدنے
کی بھی اہلیت نہیں رکھتے ۔یا پھر وہ ایسے اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں جو
آن لائن کلاس روم کے اپلیکشنس چلانے کے قابل ہی نہیں ہوتے ہیں۔ایسے میں
یوجی سی اور ایچ آرڈی منسٹری کی جانب سے بغیر کسی تیاری اور سہولتوں کی
فراہمی کے آن لائن ایجوکیشن کی ہدایات کی اجرائی طلبہ ،اساتذہ اور والدین
کی ذہنی کشمش اور اضطراب کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔تعلیمی پالیسی ساز اداروں
پر دباؤ پڑرہا ہے کہ وہ ہنگامی صورت حال میں طلبہ کی تعلیم کو جاری رکھنے
والے مختصر مدتی منصوبوں کے بجائے طویل مدتی جامع لچکدار، ای لرننگ ڈیجیٹل
منصوبوں اور کثیر الجہتی حکمت عملیوں کو وضع کریں تاکہ کسی بھی ناگہانی اور
ہنگامی صورت حال میں ملک کا تعلیمی نظام بحران کا شکار نہ ہوسکے۔
آج کے دور میں آن لائن طریقہ تعلیم کوئی نئی بات نہیں ہے، دنیا بھر میں
ڈسٹنس لرننگ کی یونیورسٹیز موجود ہیں جو آن لائن کورسز پڑھا کر ڈگریاں بھی
فراہم کر رہی ہیں، لیکن موجودہ حالات میں جب ورک فرم ہوم یعنی گھر سے کام
کرنے جیسی اصطلاحات روزمرہ کا حصہ بن چکی ہیں وہیں اب بات گھر سے تعلیم
یعنی گھر سے درس واکتساب تک جا پہنچی ہے۔ آن لائن طریقہ تعلیم کے فوائد اور
نقصانات اپنی جگہ ، کورونا وباء کے دوران یہ ہماری لئے ایک مجبوری بن چکے
ہیں۔اب مسئلہ اساتذہ ، طلبہ اور والدین کا ہے کہ وہ ایک نظام سے دوسرے نظام
کو منتقلی کے دوران درپیش نفسیاتی مشکلات، حقائق اورہنگامی صورت حا ل سے
کتنا جلدی مطابقت پیداکرتے ہیں۔ ای لرننگ اور ڈیجیٹل تکنیک سے لیس افراد
،اساتذہ اور تعلیمی کاز سے وابستہ افراد پر مبنی رضا کار (والینٹرس) کی ایک
جماعت کی تشکیل بہت ضروری ہے جو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی سے محروم طلبہ تک
علم و معلومات بہم پہنچا سکے۔کم ٹیکنالوجی سے آراستہ طلبہ تک اساتذہ صوتی
پیغامات(Audio Messages)یعنی Podocast Technology،ٹیکسٹ میسجز اور فون کالز
کی صورت میں رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ہائی ٹیکنالوجی سے آراستہ طلبہ (یعنی
اسمارٹ فونزوالے طلبہ) تک اساتذہ طویل ویڈیو ز کی صورت میں مختلف ایپس
،یوٹیوب ،فیس بک اورواٹس ایب وغیر ہ کا استعمال کرتے ہوئے رسائی پیداکرسکتے
ہیں۔عموماً یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ لڑکیاں جن کی بیشتر تعدا د فون تک
کی رسائی سے محروم ہیں ان کے والدین بالخصوص والد کو بچیوں کی تعلیم میں
تعاون کرنے کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے تاکہ تعلیمی عمل میں لڑکیا ں
،لڑکوں سے پیچھے نہ رہے کیونکہ ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی لڑکیوں کی
تعلیم میں مضمر ہے۔
آن لائن تعلیم دو طریقوں سے انجام دی جاتی ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے سبق
کے افہام و تفہیم پر مشتمل ویڈیوز ریکارڈ کرلی جائے پھر ان ریکارڈ شدہ
ویڈیوز کو ہر خاص و عام طلبہ کے لئے انٹرنیٹ پر رکھا دیا جائے ۔وسیع پیمانے
پر انجام دیئے جانے والے اس طریقہ کار کو ماسیو اوپن آن لائن کورس(Massive
Open Online Courses-MOOCs) کہا جاتا ہے۔ دوسرا براہ راست آن لائن کلاسز کا
طریقہ کار ہے جو ویب نار(Webinar) ، یا زوم سیشن و دیگر ایپس کے ذریعے
انجام دیا جاتاہے۔ ان امور کی انجام دہی کے لئے مدارس،کالجس اور جامعات کو
تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی کے علاوہ درس و اکتساب کی جدید معلومات
اورمہارتوں سے اساتذہ کو متصف کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ، علاوہ ازیں
مستحکم آئی ٹی انفراسٹرکچر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس فیکلٹی ممبران
جو آن لائن تعلیم سکھانے میں مہارت رکھتے ہیں ان کا تقرر یا خدمات کا حصول
بھی لازمی ہے۔۔ طلبہ کو ان سیشنس میں شرکت کرنے یا پہلے سے ریکارڈ شدہ
کلاسوں کو دیکھنے کے لئے تیز رفتار انٹرنیٹ اور کمپیوٹر / ٹیاب جو بڑے
اسکرین پر مشتمل ہوں کی فراہمی بھی ضروری ہے۔
موجودہ دستیاب وسائل
ملک میں آن لائن تعلیم کے حصول کے لئے کئی پلیٹ فارمس تشکیل دیئے گئے ہیں
جن کی سرپرستی و اعانت وزارت برائے ترقی انسانی وسائل (MHRD) ، نیشنل کونسل
آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (NCERT) ، اور محکمہ تکنیکی
تعلیم(Department of Technical Education) انجام دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ ای
پاٹاشالہ) e-Pathashala (،ای کنٹینٹ(e-Content) اساتذہ کے لئے آن لائن
کورسزسوایم((SWAYAM اور روزگار کی مہارتوں کے فروغ اور ملازمت کے مواقعوں
کی فراہمی کے لئے National Educational Alliance for Technology(NEAT)جیسے
اقدامات بھی حکومت کی جانب سے کئے گئے ہیں۔ آن لائن پلیٹ فارم کے توسط سے
تعلیمی اداروں سے روابط کا فروغ اور نصاب اورمواد تعلیم تک رسائی ای لرننگ
کے دیگر مقاصد میں شامل ہیں۔ وہ دیگر پلاٹ فارمس جو مختلف کورس کے مواد اور
کلاسز ، اور آن لائن ماڈیولس کے لئے استعمال ہوتے ہیں جن میں نیشنل پروجیکٹ
آن ٹکنالوجی انہینسڈ لرننگ (National Project On Technology Enhanced
Learning-NPTEL) ، نیشنل نالج نیٹ ورک ، (این کے اینNational Knowledge Net
Work-NKN) ، اور نیشنل اکیڈمک ڈپازٹری (این اے ڈیNational Academid
Depository-NAD) شامل ہیں۔
ذیل میں ملک کو تعلیمی بحران سے نکالنے میں معاون چند تجاویز تحریر کی
جارہی ہیں۔
تعلیمی بحران سے نمٹنے میں معاون تجاویز
1 ۔سرکاری اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اکتساب( سیکھنے )کے تسلسل کو
یقینی بنانے کے لئے ضروریہے کہ اوپن سورس ڈیجیٹل لرننگ سلوشنز اور لرننگ
مینجمنٹ سوفٹویرز کو اپنایا جائے تاکہ اساتذہ آن لائن تدریس کومنظم انداز
میں انجام دے سکیں۔ ہندوستان میں تمام ریاستوں تک قابل رسائی DIKSHA پلیٹ
فارم کو مزید تقویت دینے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کی تعلیم اور درس و اکتساب
تک رسائی کو یقینی بنایا جاسکے۔
2۔ تما م بالخصوص سب سے زیادہ کمزور اور پسماندہ طبقات کے طلبہ کے اکتسابی(
learningسیکھنے ) مسائل کے جامع حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں
موبائل انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور توقع
ہے کہ یہ تعداد 2024 تک 85فیصد گھرانوں تک پہنچ جائے گی۔ ٹیکنالوجی کے
استعمال اور پھیلاؤ سے دور دراز علاقوں میں بسنے والے طلبہ کی تعلیم اور
درس واکتساب تک رسائی ممکن ہوجائے گی۔ٹیکنالوجی کی وسعت پذیری کی وجہ سے
اسکولوں کے موجودہ تعلیمی نظام میں تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں اور سیکھنے
اور درس و تدریس کی تاثیر میں بھی اضافہ ممکن ہے۔ٹیکنالوجی سے مربوط تعلیمی
نظام، اساتذہ اور طلبہ کو ایک سے زیادہ درس و اکتساب کے طریقے فراہم کرتا
ہے۔ تعلیم ،درس و اکتساب کے شوقین شہروں اور گاؤں کے اساتذہ نے موثر تعلیم
،درس و اکتساب کے لئے موبائل فون پر مبنی چند اختراعی درسی و اکتسابی ماڈلس
کو رائج کیا ہے ۔تعلیمی کاز سے وابستہ دیگر ابنائے وطن کو بھی ان ماڈلس کو
اپنانے کی ضرورت ہے۔
3۔ عصری دنیا کے تقاضوں ،طلب اور فراہمی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ
تعلیمی شعبے کی حکمت عملیا ں وضع کی جانی چاہئے۔ دنیا کے مطلوبہ تقاضوں کی
تکمیل میں تعلیم نظام اساتذہ اورطلبہ کلیدی کردار انجام دیتے ہیں اسی لئے
ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنا نا چاہئے۔مزید برآں ملازمتوں ،
انٹرن شپ پروگراموں اور تحقیقی منصوبوں پر وبائی امراض کے اثرات کو کم کرنے
کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
4۔ اسکولوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں موجودہ معلومات کی ترسیل اور تدریسی
طریقوں پر نظر ثانی کی بھی ضرورت ہے تاکہ بغیر کسی رکاوٹ کمرۂ جماعت کے درس
واکتساب کو ای لرننگ طریقوں سے مربوط کرتیہوئے ایک مبسوط اکتسابی( سیکھنے
کے) نظام کو تشکیل دیا جاسکے۔ قومی سطح پر ای ڈی ٹیک اصلاحات(ED Tech
Reforms) کو سب سے بڑا چیلنج ملک کے تعلیمی نظام (جو 15 لاکھ سے زیادہ
اسکولوں اور 50,000 اعلی تعلیمی اداروں پر مبنی دنیا کا سب سے متنوع اور سب
سے بڑا تعلیمی نظام ہے) کو بغیر کسی رکاوٹ کے ٹکنالوجی سے مربوط کرنا ہے
۔اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی نظام جو ملک کے اعلیٰ ادارہ جات
اور ای لرننگ پلیٹ فارمس ( جو بہت تیز رفتار سے فروغ پذیر ہیں) کے ذریعہ
تیار اور پیش کیا جارہاہووہ معیار،طریقہ کار(میکانزم)درس وتدریس اور اخذ و
اکتساب کے تقاضوں کی تکمیل اور کامیابی کے ضامن ہوں۔ ای لرننگ فراہم کرنے
والے کئی افراد ا ور ادارے ایک ہی مضمون پر مختلف سطحوں پرمبنی متعدد
سرٹیفکیٹ کورسز پیش کرتے ہیں۔ایک ہی مضمون کے درس واکتساب کے طریقے اور
جانچ و پرکھ کے مختلف پیمانے ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ کورسز کا معیار مختلف
ای لرننگ پلیٹ فارمز پر مختلف ہوسکتا ہے۔اربا ب مجاز کو ان کورسز کو مقبول
بنانے کی سعی کرنے چاہئے۔
5۔ ہندوستان اپنے روایتی علوم، سائنسی علوم، ایجاد و اختراع ، دریافت و
اقدار ، پائیدار ٹیکنالوجی اور ادویات کی تیاری کے لئے پوری دنیا میں شہرت
رکھتا ہے۔ یوگا،دیسی ادویات ،فن تعمیر،ہائیڈرولکس، نباتیات ،دھات کاری اور
زراعت کے شعبوں پر مبنی روایتی علوم کے کورسز کو عصری جامعات کی تعلیم سے
مربوط کیا جائے تاکہ انسانی ضرورتوں کی بڑی حدتک تکمیل ہوسکے۔تعلیمی بحران
کے اس دور میں نوجوانوں کے ذہنوں ، صلاحیتوں اور مہاتوں کو فروغ دینے والے
ایک ایسے بھرپور موثر تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو ہنرورافراد پیداکرسکیں۔یہ
افراد آنے والے عشروں میں ملازمت ، پیداواری صلاحیت ، صحت اور فلاح و بہبود
کو مزید فروغ دیتے ہوئے ملک کی مجموعی ترقی کو یقینی بنانے میں اپنا نمایا
ں کردار ادا کریں۔
موجود ہ ہنگامی حالات سے سیکھے سبق
کورونا وائرس کے باعث درہم برہم تعلیمی نظم پرلاکھ نوحہ خوانی اور رکاوٹوں
کے باوجود دنیا بھر میں درس و اکتساب اور تعلیم کے نئے افق روشن ہوئے ہیں
جنہوں نے تعلیم،نصاب ،درس و تدریس اور اکتساب کا نیا اور انوکھا تصور فراہم
کیا ہے۔
1. ڈیجیٹل مسائل کا حل۔ٹکنالوجی میں عالمی معیار کی تعلیم کا حصول اور
اکتسابی( سیکھنے کے) نتائج کو بہتر بنانے کی اتم صلاحیت موجودہے۔
ٹیکنالوجیکل صلاحیتوں پر قد غن لگانے والے عناصر اور ڈیجیٹل نظام کی رسائی
میں مانع معاشی و طبقاتی بندشیں کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ڈیجیٹل
صلاحیتوں ، مطلوبہ انفراسٹرکچر ، اور رابطے کو دور دراز اور غریب ترینطبقات
تک پہنچنا بے حد ضروری ہے۔آج کے معلوماتی دور میں ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ تک
ہر فرد کی رسائی اب عیش و عشرت کا نشان نہیں ہے بلکہ وقت کی شدید ضرورت ہے۔
2۔نصاب کی ازسر نو تدوین و ترتیب۔ طلبہ کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے
ڈیجیٹل درس واکتساب اور گفت وشنید کے جدید طریقوں سے ہم آہنگ ہونے میں
اساتذہ ،طلبہ اور اولیائے طلبہ کی سرگردانی و پریشانی سے یہ بات وضاحت کے
ساتھ ابھر کر آتی ہے کہ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کی تدوین پر از سر نو توجہ
کرنے کی ضرورت ہے۔’’ میں کون ہوں اور اس کائنات اور اس میں رہنے والے دیگر
افراد سے میرا کیا تعلق ہے؟‘‘یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہماری تعلیمی کوششوں
کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔اس سو ال کی اہمیت و
افادیت اس وبائی بحران میں جہاں درس واکتساب ،تعلیم ،حقائق اور معلومات پر
منطقی و شعور ی طورپر بہت کم توجہ مرکوز کی جارہی ہے، مزید بڑھ جاتی ہے۔یہ
بحران ہمیں درس دیتا ہے کہ نصاب تعلیم کو طلبہ کی ضرورتوں اور حقائق پر
مبنی ہوناچاہئے جو طلبہ میں تنقیدی وتخلیقی فکر ،جذبہ ہمددری اور لکچدار
سوچ پیدا کرسکے۔ماحول سے اٹوٹ اور دلی وابستگی پیدا کرنے والی فکر کو پروان
چڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔اساتذہ طلبہ کو کائنات اور کائنات میں موجود ہر
مخلوق کے ساتھ ا س کے تعلق کے بارے میں غور و فکر کرنے کی عادت کو فروغ
دیں۔ طلبہ میں معاشرتی،سماجی اور سیاسی شعور کی ترقی تعلیم کا سب سے اہم
اور بڑا ہدف ہونا چاہئے ۔ مساوات ،بنیادی جمہوری اقدارکو ریاضی ،سائنس اور
زبان سے زیادہ نصاب میں جگہ دی جانی چاہئے۔وقت کا شدید تقاضا ہے کہ حکومت
اس طرح کے نصاب کی جانب توجہ کرے۔
3۔ اساتذہ کے وسیع ترجمعیت( کیڈر) کو بااختیار بنائیں۔موجودہ بحران میں
اساتذہ معلومات کی ترسیل کے بجائے اکتساب کو یقینی بنانے والے استاد کے
کردارکو بحال کریں۔فاصلاتی اکتساب (Distance Learning) کی جانب پیش قدمی نے
جہاں درس و تدریس کو مختلف انداز میں انجام دینے کے مواقع فراہم کردیئے ہیں
وہیں خود اکتسابی (Self Learning)کی حوصلہ افزائی اورمتعدد وسائل سے سیکھنے
کے طلبہ کو وافر مواقع اور وسائل فراہم کردیئے ہیں۔ڈیجیٹل درس و اکتساب کے
وسیع مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ طلبہ کو بھی اکتسابی سرگرمیوں کو اپنی
مرضی، ذہنی لیاقت ، تعلیمی ضرورت اور اپنی ٹیکنالوجیکل علم و استعداد کے
مطابق انجام دینے کے وسیع مواقع فراہم کرتا ہے۔کورونا وبائی مرض کی وجہ سے
اسکولوں کی مسدودی نے ہمیں ایک ہم سبق دیا ہے کہ بچوں کے تعلیم میں سماج کا
بہت کلیدی کردار ہوتا ہے۔اگر ہم کسی گاؤں کو بااختیار بنا ناچاہتے ہیں تو
اس گاؤں کے بچوں کو جدید تعلیم و وسائل سے مربوط کرنا ضروری ہوگا۔نظام
تعلیم میں بہتری کے لئے سماج کو جمہوری انداز میں غورو فکر کرنا چاہئے۔سماج
کی تعمیر اور ترقی میں مقامی اساتذہ کی خدمات ناقابل فراموش تصور کی جاتی
ہے۔اساتذہ سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی پیدا کرتے ہوئے،صلہ رحمی
،خود احتسابی اور طلبہ کے ساتھ محبت شفقت اور ہمدردری کا برتاؤ کرتے ہوئے
ان کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں۔Covid-19سے اسکولوں اور تعلیمی
اداروں کی مسدودی اور فاصلاتی تعلیم کے چیلنج نے ہمیں سوچنے پر مجبور کردیا
ہے کہ اکتساب(سیکھنے کو)کو فرسودہ نصاب سے اور معلومات کی غیر متناسب
منتقلی پر زور دینے والی بندشوں سے آزاد کرنا ضروری ہے۔
ورچول اکتساب (لرننگ) کے نقصانات
ورچول لرننگ اگرچیکہ سود مند ضرور ہے لیکن یہ مسائل سے ہرگز پاک نہیں
ہے۔ماہرین تعلیم کے مطابق آن لائن اکتساب (ورچول لرننگ)میں تمام تر ذمہ
داری طلبہ پر عائد ہوتی ہے اسی لئے ان میں شخصی نظم و ضبط(Self Discipline)
کاپایا جانا بے حد اہم ہوتا ہے ۔جہاں روایتی طریقہ تعلیم میں اساتذہ کمرۂ
جماعت میں طلبہ کی توجہ انہماک اور نظم و ضبط کی برقرار کے لئے سرگرم رہتے
ہیں وہیں ورچول لرننگ میں ان تمام امور کی نگرانی طلبہ کو ازخود انجام دینی
پڑتی ہے۔آن لرننگ (اکتساب) میں طلبہ اساتذہ اور اپنے ہم جولی(پیئرPeer )سے
معاشرتی تعامل اور شخصی روابط بنانے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی
ذہنی ،جسمانی،جذباتی،علمی ،معاشرتی اورنفسیاتی نشوونما متاثر ہوجاتی ہے۔ آن
لائن اکتساب کے لئے طلبہ میں اوقات کی موثر تنظیم و ترتیب(ٹائم مینجمینٹ)
کی صلاحیتوں کا پایا جانا بہت ضروری ہے۔ ورچول لرننگ میں طلبہ کو بہت زیادہ
آزادی اور اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں کمرۂ جماعت کی طرح ان پر راست نگاہ
رکھنے کے لئے اساتذہ موجود نہیں ہوتے ہیں ۔پڑھنے ،سیکھنے اور اپنے وقت کی
تکمیل کی تمام تر ذمہ داری طلبہ پر عائد ہوتے ہیں۔ طلبہ میں ذاتی( ذ ہنی)
نظم و ضبط اور اوقات کی موثر و مناسب تنظیم وترتیب اور بہتر استعمال کا اگر
فقدان پایا جاتا ہے تو اکتسابی و تعلیمی سفر میں ان کا پیچھے رہ جانا ایک
فطری امر ہوگا۔اسی لئے آن لائن تعلیم کی فراہمی سے قبل طلبہ کو سیلف ڈسپلن
اور وقت کے موثر وبہتر تنظیم و ترتیب اور استعمال کی مہارتوں سے متصف
کرنیبے حد ضروری ہے۔آن لائن درس واکتساب سے متعلق ملک بھر میں کئے جانے
والے عملی تجربات بہت ہی محدود اور ناقص واقع ہوئے ہیں جو کسی بھی طور پر
درس و اکتساب کی فضاء کو پروان چڑھنے کے متحمل نہیں ہیں۔ کھیل کود،ناچ
گانا، پڑھنا اسکول جانااپنے ہم جولیوں اور اساتذہ سے بات چیت کرنا، سیکھنا
یہ سب ہربچے کابنیادی حق ہے۔اسکول صرف ترسیل علم و معلومات کامرکز نہیں
ہوتا بلکہ بچوں کے لئے یہ ایک سماجی تربیت گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔تعلیم
،درسی اور نصابی مواد کو بچوں پر انڈ یلنے کا کا نام نہیں ہے ۔ بچے اسکول
میں صرف کتابیں نہیں پڑھتے ہیں بلکہ وہ زندگی پڑھتے ہیں ، اپنے ساتھیوں اور
اساتذہ کے ساتھ ربط و ضبط میل ملاپ اور تعامل کے ذریعے زندگی کی مہارتیں
اور معاشرتی اقدار سیکھتے ہیں۔ تعلیم آج کے بچوں کو کل کی خوش گوار زندگی
کے لئے تیار کرتی ہے۔گھر سے اسکول کا فاصلہ طئے نہ کر پانے،، ہم جماعت اور
ہم جولیوں سے دوری ، اسکول سے فاصلہ ، جسمانی دنیا سے دوری ، سیل فون اور
دیگر الیکٹرانک آلات کی لت ، بچوں میں موٹاپا ، غذائیت اور چند دیگر سنگین
ذ ہنی وجسمانی صحت کے مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
آج کاجدت اور دریافتوں کا حامل دور ہنگامہ خیز حالات اور مایوسیوں کو بڑھا
وا دے رہا ہے۔ والدین شکوہ بہ لب ہیں کہ وہ بچوں کی پڑھائی کا اضافی بوجھ
برداشت کررہے ہیں اور اساتذہ کی غیر موجودگی میں اساتذہ کا کام بھی وہی
انجام دے رہے ہیں۔ موجودہ ہنگامی حالات میں اسکولوں کو جنگی خطوط پر نصابی
مواد تیار کرنا پڑرہا ہے اور نصاب کی تیاری میں جس غور و فکر اور آزمائشی
مرحلے کی ضرورت ہوتی ہے، چاہتے ہوئے بھی وہ اس پر عمل نہیں کر پارہا
ہیں۔وائرس کے اچانک پھوٹ پڑنے سے درس و اکتساب کے متبادل طریقوں کی آزمائش
و تجربات کا وقت ارباب مجاز ،تعلیمی ادارو ں اور اساتذہ کو میسر نہ ہوسکا
جس کی وجہ سے ڈیجیٹل درس واکتساب کے طریقے کار اور وسائل پر والدین اور
مدارس کے ذمہ داران دست و گریباں ہیں۔بحران کے اس مشکل دور میں بھی ہم
کردار کی لچک کو پیش کرنے سے قاصر ہیں۔آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم
اپنے نونہالوں کو وائرس کے خطرات سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔اپنی عقل و
دانش سے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے،جدید طرزعمل اپناکر اور سنگین
حالات میں بھی اپنے صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے زندگی بسر
کرنے کی سعی و کوشش کریں۔بے شک ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے ضرورہیں
ہمارے پاس وسائل کی قلت بھی ہے لیکن اﷲ رب العزت سے قوی امید ہے کہ وہ
ہماری صلاحیتوں اور کوششوں کو اس بحران و چیلنج پر سبقت عطا کرئے گا۔
|