انسانی ترقی کی جانچ کا پیمانہ محض معاشی ترقی ہی نہیں
بلکہ انسانی فلاح و بہبود بھی ہونا چاہیے...اِس انسان دوست دلپذیر نظریے کو
عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہرِ معیشت ڈاکٹر محبوب الحق اور نوبل انعام
یافتہ ہندوستانی امرتیہ سین نے 1990 میں متعارف کرایا...اور اِسے انسانی
ترقی کا اشاریہ(ایچ-ڈی-آئ) کا نام دیا_ اِس اشاریے میں اوسط عمر ,معیارِ
تعلیم اور فی کس آمدنی کے ذریعے کسی ملک کے معیارِ زندگی میں ترقی کا
اندازہ لگایا جاتا ہے...اور ایک مخصوص پوائنٹ کے ساتھ درجہ بندی کی جاتی
ہے...جیسے 2019 میں سب زیادہ انسانی ترقی کے اشاریے کا پوائنٹ 0.954 رہا جو
ناروے کو عطا ہوا...سب سے کم ایچ-ڈی-آئ پوائنٹ 354 نائجر کو دی گیا...ترقی
کے اِس دوڑ میں پاکستان 0.560حاصل کر سکا جو کہ ایک درمیانی درجۂ ترقی ہے_
اقوامِ متحدہ آئ-ایچ-ڈی-آئ کا نظریہ سامنے لایا ہے جو کہ عدم مساوات کو بھی
بطور ایک پیمانہ کے قبول کرتا ہے_مزید برآں کہ اب یہ فکر اب عام ہو چلی ہے
کہ زندگی محض کمانے کا نام نہیں...جب روح خوشی سے ناآشنا رہے تو پیسہ بے
معنی...اب ایسی تنظیمیں وجود مٰیں آ چکی ہیں جو خوشی کے حوالے سے تحقیقی
کام سر انجام دے رہی ہیں...انسانی خوشی کے اشاریے ( ایچ-ایچ-آئی )کی پیمائش
کے لئے روزگار,آمدنی,رہائش, تعلیم, برادری, معاشرتی مصروفیات,
ماحول,صحت,اطمینانِ زندگی, تحفظ اور زندگی اور کام میں توازن کو مدنظر رکھا
جاتا ہے_
اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک میں خوشی کے حوالے سے 2020 کی ایک رپورٹ کے
مطابق فِن لینڈ, ڈنمارک اور ناروے بالترتیب پہلے, دوسرے, اور تیسرے نمبر پر
ہیں...ان نیدر لینائ ممالک میں خوشی کے احساس کی وجوہات میں مفت تعلیم و
صحت, کم شرحِ جرائم, مالی آسودگی وغیرہ ہیں... فِن لینڈ مسلسل تیسری بار
خوشی کی عالمی دوڑ میں اول تمغے کا حقدار ٹہرا ہے...ایسے میں ذہنوں میں
بےاختیار یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر اِس برتری کا سبب کیا ہے...چند لوگوں کے
خیال میں اِس کی وجہ فِن لینڈ کا نیدر لینائ ممالک میں سب سے زیادہ مذھبی
ہونا ہے لیکن یہ بات بہرحال متنازع ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہاں کے
باشندے ماضی کی بہ نسبت اب مذھب سے زیادہ قریب ہیں_ بعض افراد مذھب کے
بجائے روحانیت کا نام لیتے ہیں جس سے ان کی مراد فطرت پسندی ہے_فنِش افراد
میں کام کی لگن اور ہمت نہ ہارنا جیسی خصوصیات انہیں ممتاز اور مطمئن رکھتی
ہیں_
بات مذھب کی نکلی ہے تو یہ نشاندہی کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذھبیت کو
بھی انسانی ترقی و خوشی کے عالمی اشاریوں میں شامل ہونا چاھئے کیونکہ ایسے
اہلِ علم کی کمی نہیں جن کی رائے میں مذھب انسانی ترقی و خوشی کا اہم عامل
ہے....اِس کے زیرِ سایہ نہ صرف انسان ذہنی طور پر مضبوط ہوتا ہے بلکہ اچھی
صحت عمر میں اضافے کا سبب بنتی ہے (ایک تحقیق کے مطابق 4سال تک عمر میں
اضافے کا مشاھدہ کیا گیا ہے)...شکر گزاری کے جذبات خوشی و طمانیت بخشتے ہیں
اور معاشی تگ و دو کے لئے لگن کا سامان بھی یہیں سے میسر ہوتا ہے_ اوچیننا
مائیکل کی تحقیق کے مطابق:
"مذھب نے روایتی تعلیم, نظامِ کتب خانہ,جامعات, عرب و یورپ اور دیگر کئ
خطوں کی ثقافت کی بنیاد رکھی ہے...اِس نے سائنسی ایجادات اور فنی اختراعات
میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے_ یہ مذھب ہی ہے جو انسانی زندگی کی حرمت ,
مساوات,انسان کی آزادی, غلامی سے نجات,حریت پسندی, مذھبی آزادی,گھریلو
زندگی کا استحکام اور کام کی لگن کی اساس ہے_"
نفسیات کی پروفیسر کیتھرین سینڈرسن خوشی کی سائنس بتاتے ہوئے رقم طراز ہیں:
".....مذھبی عقائد انسان کی زندگی کو بامعنی بناتے ہیں_اس میں احساسِ فلاح
و بہبود اور طمانیت پیدا کرتے ہیں.......خوش باش لوگ زیادہ معاون اور
کارآمد ہوتے ہیں........(اور)مذھب اور فطرت ہمیں خوشی سے ہمکنار کرتے ہیں_"
|