ترجیحات بدل جاتی ہیں مگر ۔۔۔

ایک مشہور چائینز بزنس سائیٹ ’’علی بابا ‘‘کے فاونڈر ’’جیک ما‘‘ نے کہا ہے کہ ’’2020 میں اپنی زندگی کو ہی بچا لو یہی منافع ہے ،اپنے سب کاروباری منصوبے اگلے برس پر موقوف کر دو اگرتم زندہ بچ گئے تو پھر کما لوگے ‘‘۔ہمیں چینی فلاسفروں اورمعالجوں کے تجربات کی روشنی میں کروناوائرس کے خلاف اقدامات کرنے چاہیے تھے کیونکہ چین وہ واحد ملک ہے جو سب سے پہلے کرونا کا شکار ہوا اور انتہائی قلیل مدت میں اپنی بہترین اور کارگرحکمت عملی سے اس مہلک وبائی مرض پر قابوپانے میں کامیاب ہو ا چین نے تو ہمیں انسداد وبا کے لیے اپنی خدمات پیش کی تھیں اور اپنی تجربہ کار طبی ٹیم کے ساتھ طیارے بھر بھر کے امدادی طبی سامان بھی بھجوایا تھا مگر ہم نے کرونا کو چینی وائرس سمجھتے ہوئے زیادہ اہمیت ہی نہ دی یہی وجہ ہے کہ اب اموات اور متاثرین کے اعدادو شمار میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارا ٹیسٹنگ سسٹم اور احتیاطی تدابیر میں روز اول سے غفلت موجود رہی ہے بریں وجہ اعدادو شمار متوقع تھے تاہم موجودہ صورتحال کے لیے جو ہونا چاہیے تھا وہ ہوتا بھی نظر نہیں آرہا یہی وجہ ہے کہ عوام نے بھی وبائی مرض کو سنجیدہ نہیں لیا تھا جو کہ واضح نظر آرہا تھا اسی غیر سنجیدگی پر جناب چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کو کورونا وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں کیے گئے اخراجات سے زیادہ خدمات کے معیار پر تشویش ہے ، قرنطینہ مراکز کی صورتحال بھی سوالیہ نشان ہے اور بادی النظر میں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ امدادی پیسہ ایسی جگہوں پر چلا گیا ہے جہاں ضرورت مندوں کو نہیں مل سکتا لہذا حکومت کورونا کے خلاف اقدامات تیز کرے اور دیگر بیماریوں اور ملک کو درپیش مسائل پر بھی توجہ دے ۔مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے ممالک میں ایسا ہی کیا گیا تھا کہ حکومتی سطح پر سبھی نے اپنی تمام تر توانائیاں عوام الناس کو ریلیف دینے میں صرف کر دی تھیں کہ متاثرہ شہروں کو بند کر دیا گیا تھا ، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف نے اپنے گھروں کو خیر آباد کہہ دیا تھا اور اپنے بچوں کے لیے وصیت نامے تحریر کر کے ہسپتالوں میں دن رات ایک کر دئیے تھے الغرض ہر خبر اور ہر ویڈیو میں خدمت خلق کے لیے اخلاص سے متحرک انسانی جسم تھے مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں صرف زبانیں متحرک ہیں ۔۔اوپر سے لیکر نیچے تک جسے بھی دیکھیے بلا ضرورت بیان داغتا ہی دکھائی دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان، جہاں کل تک چند مریض تھے اب ہر طرف سے اموات کی خبریں مل رہی ہیں مگر حکومتی اعدادو شمار پر خود حکومتی تشویش نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے تو کہا ہے کہ کرونا اموات اور متاثرین کی تعداد اب بھی ہمارے تخمینے سے کم ہے یعنی ڈاکٹرز کے مطابق کرونا بے قابو ہوچکا ہے مگر تبدیلی سرکار کے لیے ابھی حالات توقع سے کم خراب ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ جس لاک ڈاؤن کو نا گزیر قرار دیا جارہا تھا اب اس میں اس حد تک نرمی کی جا رہی ہے کہ سیاحتی مقامات کے ساتھ ریستوران اورپارک بھی کھولنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے مگر جتنے بھی قواعد و ضوابط وضع کئے گئے ہیں ان سب میں پولیس کے لیے لین دین کرنے اور کھانے کے وافر مواقع فراہم ہو تے جا رہے ہیں ۔

غیر سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ ٹک ٹاکرز کو آگاہی مہم سونپی جا رہی ہے عوام پوچھ رہے ہیں کہ کیا کرونا ناچ گا کر بھگایا جائے گا ؟ کیاالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا صرف نام نہاد کارکردگیوں کی تشہیر اور عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ہے ؟ وزیراعظم نے کہا ہے کہ پٹرولیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات کا عمل تیز کیا جائے اور وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر مارکیٹوں اور بازاروں کو سیل کر دیا جائے گا تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ عملدرآمد کب ہوگا اور کس نے کروانا ہے ۔ اگر تیل کی قیمتوں میں کمی کی گئی تو تیل غائب ہوچکا ہے اور بجٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے تاکہ نئی قیمت پر باہر نکالا جا سکے اور اس بات کو سبھی جانتے ہیں مگر ہنوز خاموشی ہے اور اگر کرونا کا پھیلاؤ اس حد تک بڑھ گیا ہے تو ماسک اور سینی ٹائیزر دستیاب نہیں ہیں اور اگر کسی کے پاس مل جائیں تو قیمت خرید جیب پر بھاری ہے اسقدر امداد اکٹھی ہوئی ہے آپ عوام الناس کو ماسک اور سینی ٹائیزر بھی مفت فراہم نہیں کر سکتے ؟ آپ کو ٹیکس وصولی میں 30فیصد کمی آنے کا افسوس ہے یہ افسوس نہیں کہ قوت مدافعت بڑھانے کے لیے عوام خوراک کی کمی کو کیسے پورا کریں گے کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے تو کیا لفاظی سے حالات بدل جائیں گے ؟ کیا مہذب اقوام کا یہی وطیرہ ہے ؟

شاید تبدیلی سرکار کو اندازہ نہیں کہ وہ اپنا مقام کھو رہے ہیں اگرچہ اپنی تضاد بیانیوں اور نا ادانیوں کو چھپانے کے لیے کرپشن قصے سنائے جاتے ہیں جوکہ دلچسپ ضرور ہیں مگر ان میں کشش باقی نہیں رہی کیونکہ ہوائی قلعوں کی قلعی کھل چکی ہے کہ مسیحائی کے دعوے ،ایک کروڑ درخت ،50 لاکھ گھر ،اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ملازمتیں ،زرعی منصوبے ،معیشیت کی بحالی ،نئے اداروں کا قیام (پرانے بھی بند ہو رہے ہیں ) ، کشکول توڑنے کا دعوی، ترقی و خوشحالی کے سارے دعوے خواب و خیال بن چکے ہیں، مسیحائی کے بت ٹوٹ رہے ہیں کہ ہر افتاد غریب پر ہی ٹوتتی ہے حالانکہ ریاست مدینہ کی تعمیر مقصد حیات تھا۔ تبدیلی سرکار نے سٹیل ملز کے ملازمین کو فارغ کرنے کی اصولی منظوری دے دی ہے لیکن حکومت میں آنے سے پہلے خان صاحب سمیت ان کے رفقاء اسٹیل ملز کی نجکاری کی مخالفت اور اس کی بحالی پر زور دیتے رہے اور ملازمین سے وعدہ کیا تھا کہ انھیں ان کا حق دلوائیں گے ۔ تبدیلی سرکار ایک بار پھر اپنے دیگر وعدوں اور دعووں کی طرح اس وعدے کو پورا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور ایک بڑے پیمانے پر غریب ملازمین کا معاشی قتل ہونے جا رہا ہے مگر پرواہ کسے ہے کہ جب عقل پر خواہشات اور عادات حاوی ہوجائیں تو سب چلتا ہے لہذاعوام کو بھی اب سمجھ جانا چاہیے کہ کرسی پانے والے نہیں بدلتے بس ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں مگر یاد رہے کہ جو ماضی کو یاد نہیں رکھتے ان کے نصیب میں اسے دہرانا لکھ دیا جاتا ہے۔

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90235 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.