ظالم سے مقابلہ--ڈنڈا ہر دفعہ ضروری نہیں

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہر ظالم کا مقابلہ ڈنڈے سے یا تلوار سے کرنا ضروری ہے
ظلم ختم کرنے کے لیے ڈنڈا یا سختی لازمی ہے

اور بعض کہتے ہیں کہ آجکل ظالم پیار کی زبان سمجھتا ہی کہاں ہے لہذا ظالم کو صرف اور صرف ڈنڈے سے ہی سمجھایا جا سکتا ہے

اس موضوع پر ماہرانہ اور درست رائے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سمجھا جائے کہ ظلم آخر کہتے کسے ہیں

ظلم کی تعریف
ظلم سے مراد ہے (وضع الشیی علی غیر محلہ) یعنی کسی چیز کو اسکے مقام پر نہ رکھنا--یعنی اسکا حق نہ دینا-حق تلفی کرنا

ظلم کے مقابل لفظ عدل ہے اور عدل کے معنی ہیں (وضع الشیئ علی محلہ) یعنی کسی شے کو اسکے محل پر اسکے مقام پر رکھنا اسکا حق ادا کرنا

سادہ لفظوں میں ظلم کے معنی کسی کی حق تلفی کرنے یا کسی سے نامناسب رویہ اختیار کرنے کے ہیں

کیا ظلم ہمیشہ بڑا آدمی ہی کرتا ہے
ہمارے سامنے جب لفظ ظلم یا ظالم آتا ہے تو ہم ہمیشہ کسی امیر کبیر جاگیردار جابر حکمران یا سیاستدان کو ہی ظالم سمجھ بیٹھتے ہیں جو بالکل غلط بات ہے

حقیقت یہ ہے کہ غریب آدمی بھی یا عام معمولی آدمی بھی ظالم ہو سکتا ہے اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے ے کہ ہمارے معاشرے میں غریب ظالموں کی بھی کثرت ہے

ظلم تقریبا ہر جگہ ہر گھر میں ہو رہا ہوتا ہے مگر بہتوں کو نظر نہیں آتا

حقیقت یہ بھی ہے کہ آج کے طور میں تقریبا ہر آدمی ہی ظالم ہے---چھوٹے چھوٹے ظلم کرنے پر لگا ہوا ہے--اور ہمیں اپنا ظلم نظر ہی نہیں آتا
ظلم کا خاتمہ-کہاوتیں
اب ظلم کا خاتمہ کیسے ہو اس پر کئی کہاوتیں یا مقولے ہیں مثلا

ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا

جسکی لاٹھی اسکی بھینس

لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے

گلی ڈنڈے سے لے کر ڈولی ڈنڈا تک اور پولیس سے لے کر آرمی چیف تک جسکے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا ہے زمانہ بھی اسی کا ہوتا ہے

اسطرح کی باتیں کر کے بعض لوگ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اصلاح کے لیے ڈنڈا لازمی ہے-
ظلم کا خاتمہ کیسے ہو

ظلم کے خاتمے کے لیے کیا ڈنڈا لازمی ہے یا نہیں ہے اس ضمن میں لوگ دو طرح کی ہدایات کو پروموٹ کر رہے ہوتے ہیں

لوگوں کی ہدایات
اللہ کی ہدایات

اکثر اور زیادہ تر لوگ اپنی ہی ہدایات یعنی لوگوں کی تجاویز اور مشورے تبصرے دے رہے ہوتے ہیں
مگر ایک عقلمند انسان ہمیشہ اللہ کی ہدایات پر ہی چلے گا--اوپر جو ظلم کے خاتمہ کے لیے کہاوتیں یا باتیں لکھی ہیں وہ محض لوگوں کے اپنے اپنے خیالات ہیں جو کچھ حقیقت ضرور رکھتے ہیں مگر مکمل نہیں

ایک مسلمان کے لیے ہدایت کا سرچشمہ اللہ تعالی کی ہدایات ہیں نہ کہ لوگوں کی بنائی ہوئی باتیں یا کہاوتیں

فلاح و کامیابی صرف اللہ کے احکامات ماننے میں ہے
فلاح و کامیابی صرف اللہ کے احکامات ماننے میں ہے

جو لوگ ظلم کے خاتمے کے لیے اپنی عقلوں سے قانون بناتے ہیں وہ ناکام ہی رہتے ہیں
مگر جو اللہ کے احکامات کے مطابق ہدایت لیتے ہیں وہی ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں

اب قرآن پاک سے پتہ چلتا ہے کہ ہر ظلم کی سزا ڈنڈا یا سختی نہیں ہے

کیونکہ چھوٹے چھوٹے ظلم تو ہر کوئی روزمرہ زندگی میں کر ہی رہا ہوتا ہے---جس کا جو جو دائرہ اختیار ہے جتنی طاقت ہے اسکے مطابق وہ دوسروں پر ظلم کرنے پر تلا ہوتا ہے---غریب سے غریب بھی اپنے گھر میں اہنی بیوی یا بچوں سے ظلم کرتا ہے ۔۔۔۔ بہت سے ظلم انسان کو نظر ہی نہیں آتے اسے سمجھ ہی نہیں آتا کہ میں ظلم کر رہا ہوں

ہر انسان اپنے فعل کو اچھا اور نیک ہی سمجھتا ہے--حتی کہ سورت البقرۃ دوسرے رکوع سے پتہ چلتا ہے کہ زمین میں فساد برپا کرنے والے بھی اپنے آپ کو اصلاح کرنے والا ہی کہہ رہے ہوتے ہیں

ہس بہت سے ظلم انسان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا

قرآن پاک میں ظلم کے مقابل عفو کی تعلیم بھی دی گئی ہے

آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ پر ظالم کفار کو معاف کر کے ثابت کر دیا کہ ہر ظالم کا مقابلہ ڈنڈے یا سختی سے نہیں کیا جاتا--اسکو معاف کر کے بھی کیا جاتا ہے

طائف کے ظالموں کے لیے بھی آپ نے بددعاء نہ کی

تاہم جب جب اللہ کا حکم آیا آپ نے جہاد و قتال بھی کیا

اور معاشرے میں امن قائم کرنے کے لیے عادی مجرموں اور ظالموں کے لیے جو کمزوروں کا حق مارتے ہیں ان کے لیے سزائیں بھی تجویز کی گئیں ہیں

تاہم اسلام میانہ روی کا مذھب ہے ہر غصہ ہر زیادتی ہر ظلم کا علاج سختی یا ڈنڈہ ہرگز نہیں ہے----کیونکہ اگر ہر ظلم کے مقابل سختی کا حکم ہوتا تو صبر کی تلقین کا حکم نہ ہوتا--عفو کی تعلیم نہ دی جاتی--اور عدل کے ساتھ احسان اور ایتائے ذی القرباء کا ذکر نہ ہوتا

ویسے بھی اللہ تعالی نے انسان کو حکم دیا ہے کہ ہرکام سے پہلے بسم اللہ پڑھو اور اسمیں بھی اللہ کی صفت رحمان اور رحیم کا ذکر کرتے ہیں گویا اللہ نے بار بار اپنی رحم کی صفات کا ذکر کرنے کا ارشاد کیا ہے -- اسک مطلب بھی یہی ہے کہ انسان بھی اپنے رحم کو غالب رکھے
پس دنیا میں جتنے بھی ظلم ہو رہے ہیں ان کا علاج انسانی ٹوٹکوں اور مشوروں سے نہیں بلکہ اللہ اور اسکے آخری رسول کی ہدایات کے موافق کیا جائے گا تبھی کامیابی ملے گی

 

Dr Maqbool Ahmed
About the Author: Dr Maqbool Ahmed Read More Articles by Dr Maqbool Ahmed: 8 Articles with 6441 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.