بھارتی اداکار شُشانت سنگھ راجپوت کے خود کشی کرنے
کی خبر نے دُکھی کر دیا ہے ، یہ ہمیشہ ہی دکھی کر دینے والی خبر ہوتی ہے کہ
کوئی شخص اپنی جان محض مسائل کوحل نہ کر پانے یا خوابوں کے حصول میں کسی
رکاوٹ کا آجانے یا من پسند شے کا نہ ملنے پر موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ ایک
طرف نوجوان اداکار اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ٹی وی سے فلم میں کامیابی
حاصل کرتے جا رہے تھے، اگرچہ اُن کو فلم انڈسٹری میں بڑے پیمانے پر سراہا
نہیں جا رہا تھا جس کی بڑی وجہ کسی گاڈ فادر کا نہ ہونا بھی قرار دیا جا
رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ ایسے نوجوان تھے جو کہ اپنے لئے خود جگہ محنت کر
کے بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔بہت سے لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے کہ
وہ خود کشی کر سکتے ہیں مگر ابھی تک یہی بات سامنے آئی ہے کہ انہوں نے خود
کشی کرکے اپنی زندگی کو مسائل ختم کرنے کی بجائے خاتمے کی جانب لے جانا
آسان سمجھا ہے۔
اگرچہ سوشل میڈیا پرشُشانت سنگھ راجپوت کے حوالے سے متضاد خیالات سامنے
آرہے ہیں جبکہ کچھ قریبی تعلق داروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ واقعی ہی
پریشانی کا شکار تھے،جبکہ ایک حلقہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اُن کی موت کے
پیچھے کوئی بڑی سازش ہے ، اس حوالے سے چونکہ ممبئی پولیس تحقیقات کر رہی ہے
تو راقم السطور اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتاہے کہ اصل میں ہوا کیا ہے؟یہاں
کچھ کہنے کا مقصد محض خود کشی سے نفرت دلوانا اور ذہنی مسائل کو حل کرانا
اورحوصلے سے حالات کا مقابلہ کرنے کی جانب قارئین کو راغب کرانا مقصود ہے۔
راقم السطور شُشانت سنگھ راجپوت کے حوالے سے اس وجہ سے بھی بات کر رہا ہے
کہ وہ نوجوانوں میں بے حد مقبول تھے اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر اُن کے مداح
اُن کے حوالے سے حقائق کو سامنے لانے کے بھی خواہاں ہیں، اسی کو مدنظر
رکھتے ہوئے اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے تاکہ نوجوانوں کو اس حوالے سے
رہنمائی دی جائے کہ مسائل کے حل کی جانب جانا چاہیے نا کہ خود کو ختم کرنے
کی کوشش ہونی چاہیے کہ خود کو مار دینے سے ہرگز مسائل ختم نہیں ہوتے ہیں،
مسائل حل نکالنے سے سلجھ سکتے ہیں ۔یہ اس لئے بھی ضروری بیان کرنا تھا کہ
نوجوان اپنے پسندیدہ اداکار کے اقدام کی پیروی کی طرف مائل نہ ہوں۔
دیکھیں! اگر کوئی شخص بچپن میں جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے تو کیا وہ بڑے
ہونے پر خود کشی کرلے ، یہ کوئی مناسب عمل ہوگا؟ہرگز نہیں !
اگر کوئی کسی کو نا مرد کہہ دے اور لوگوں میں بدنام کر دے تو کیا کوئی شخص
خود کشی کرلے تو کیا اُس کے بارے میں رائے بدل جائے گی؟ ہرگز نہیں!
ناکامی کیا ہمیشہ ناکامی رہتی ہے؟ ہرگز نہیں!
کیا لوگوں کے کہنے سے ہمارا نصیب بدل سکتا ہے؟ہرگز نہیں!
کیا کامیابی ہمیشہ برقرار رہ سکتی ہے؟ہرگز نہیں!
کیا مرجانے سے ہمارے پیارے خوش رہ سکیں گے؟ہرگز نہیں!
کیا مسائل کو اپنے تک محدود رکھنے سے وہ حل ہو جاتے ہیں؟ہرگز نہیں!
کیا زندگی اتنی سستی ہے کہ ہم محض خوابوں کے پورے نہ ہونے پر اُسے ختم کر
دیں ، کیا یہ عقلمندی ہوگی؟ہرگز نہیں!
لوگ کیا کہیں گے، وہ جو بھی کہتے ہیں کہنے دیں، آپ وہ کریں جو آپ کا دل
کرتا ہے ،مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آپ محض لوگوں کے دباؤ کی وجہ سے
خود کشی کی طرف مائل ہو جائیں اورخو د کی جان لے لیں۔آپ کو لوگوں کی باتوں
کو مثبت طور پر دیکھنا چاہیے اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ ناکامی کا شکار ہو
جائیں تو آپ ہر حال میں اپنی محنت کو جاری رکھیں۔اپنے آپ کو مثبت طرز فکر
کے لوگوں میں رکھیں یا کم سے کم ایسے مواد کو دیکھیں یا پڑھیں جس سے آپ کے
اندر زندگی سے محبت ہو، کچھ کرنے کا حوصلہ زیادہ ہو اوراپنے خوابوں کے حصول
کے لئے دیگر ذرائع کو بھی سوچیں۔آپ کے پاس ہر لمحہ ایک متبادل راستہ ہو کہ
اگر ایک راستے میں رکاوٹ ہے تو آپ دوسرے راستے پر چلیں اور اپنی منزل تک
پہنچیں۔خود کو بند گلی کی جانب دوسروں کی وجہ سے مت لائیں کہ پھر انجام
المناک ہو جائے کہ واپسی کا کوئی راستہ باقی نہ رہے۔
جب آپ ہر وقت مسائل کو ہی سوچتے رہیں گے تو آپ اُس میں گھر جائیں گے تو اس
لئے ضروری ہے کہ مسائل کے حل کی جانب بھی اپنی توجہ مرکوز کریں کہ جب تک
ایسا نہیں ہوگا آپ ذہنی طور پر انتشار کا شکار ہو جائیں گے ، جب ایسا ہو
جائے گا تو پھر آپ ذہنی طور پر کمزور ہونا شروع ہو جائیں گے ، جب یہ ہوگا
تو پھر آپ کو کچھ نہیں سمجھ آئے گا کہ آپ کیا ٹھیک کر رہے ہیں اور کیا غلط
کر رہے ہیں۔یہ جب ہوگا تو پھر آپ شدید ذہنی مرض کا شکار ہو جائیں گے جس کے
لئے آپ کو علاج کروانے کی ضرورت محسوس ہوگی، مگر اس میں کسی بھی طور شرم
محسوس کرنے کی بات نہیں ہے جس طرح سے آپ جسمانی طور پر بیمار ہو کر علاج
کرواتے ہیں تو ذہنی طور پر بھی بیماری بھی قابل علاج ہوتی ہے، جو کہ
کاؤنسلنگ اور بسااوقات ادویات و قوت ارادی کے استعمال سے بہتر ہو سکتی ہے
تو آپ کو چاہے کہ اگر آپ یا کوئی پیارا ذہنی طور پر الجھے ہوئے ہیں تو اُسے
وقت دیں ، اچھے دوستوں کا بھرم تب ہی قائم رہ سکتا ہے جب وہ اپنے دوست کے
قائم آئے ، اسی طرح سے اپنے ہی اپنوں کے کام نہیں آئیں گے، اُسے نہیں
سمجھیں گے تو پھر اپنوں کا کیا فائدہ؟
اگر کوئی ذہنی مریض خود سے اپنا خیال نہیں رکھ پا رہا ہے تو ارد گرد موجود
افراد کو چاہیے کہ اُسے تنہا نہ چھوڑیں اور اُسے اس بات کی جانب قائل کریں
کہ وہ اپنا خود احساس کرے بصورت دیگر خود سے خیال رکھ کر اور علاج کروانے
کی کوشش کر کے اُسے زندگی میں واپس لے کر آنے کی کوشش کریں کہ اسی صورت میں
آپ اُس کی خود کش موت کی اذیت سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور تا حیات کے پچھتا
ؤے سے بھی بچ سکتے ہیں کہ آپ نے کسی کو بُرے حال میں اکیلا چھوڑ دیا تھا جو
کہ آپ کو بھی ذہنی طور پر منتشر کر سکتی ہے۔
شُشانت سنگھ راجپوت چونکہ شوبز سے تعلق رکھتے تھے تو اس حوالے سے یہ عرض
کروں کہ یہ دنیا بڑی ظالم ہے یہاں شہرت برقرار رکھنا اور مقام بنانا مشکل
کام ہے مگر اس کے لئے آپ کو ازخود ذہنی طورپر مضبوط اور تیار ہونا چاہیے کہ
یہاں پر کچھ بھی ہو سکتا ہے، یہاں ’’کچھ بھی ہو سکتا ‘‘سے مراد آپ کچھ بھی
لے سکتے ہیں ، اگر ’’آپ کچھ بھی ہو سکتا ہے‘‘ کے لئے ذہنی طورپر تیار نہیں
ہونگے تو پھر آپ کے لئے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں، آپ اداکار نواز الدین
صدیقی کو دیکھیں کہ وہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے ، مگر اس کیلئے انہوں نے
جس قدر محنت کی ہے اور جس قدر حالات کا سامنا کیا ہے وہ سب نوجوانوں کے لئے
ایک مثال ہے کہ وہ کس طرح سے مستحکم رہ کر اپنی جگہ کسی بھی شعبے میں بنا
سکتے ہیں اور اپنے خواب کو پورا کر سکتے ہیں۔خوابوں کو پورا کرنے کے لئے
اگر تھوڑی دیر سویر ہو جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر کڑے وقت میں خود کو
تنہا نہ سمجھیں بلکہ اُوپر والی ذات کو اپنا سہارا سمجھ کر سب اُس پر چھوڑ
دیں کہ رزق کی ضامن ذات آ پ کے لئے جو لکھا ہے وہ آپ کو عطا کرے گی۔پوری
دنیا بھی آپ کے خلاف ہو جائے آپکو آپکا رزق مل کر رہے گا ، محنت پر توجہ
رکھیں۔ خود کو ہر حال میں پرُسکون رکھیں تاکہ ذہنی اذیت آپ کو کو بہکا کر
وہ قدم نہ اُٹھانے پر مجبور کریں کہ بعد از مرگ لوگ یہ کہیں کہ ’’؟ذہنی
مریض تھا تب ہی جان کی بازی ہار گیا‘‘ ۔
|