برصغیردنیا کی قدیم ترین تہذبیوں کا مسکن رہاہے
کہاجاتاہے جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا گیا تو وہ سری لنکا میں
وارد ہوئے اس ملک میں آج بھی ایک پہاڑ کوہ ِ آدم کے نام سے موسوم ہے
ٹیکسلا،موہن جوڑو، ہڑپہ کے قدیم آثار ثابت کرتے ہیں کہ یہاں کے لوگ حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کے دور بھی پہلے تہذیب یافتہ تھے آ ج سے 25سو قبل مسیح
میں جب وادی دجلہ و فرات میں سومیری تہذیب کا دور دورہ تھا اس وقت وادی
سندھ میں دراوڑ قوم بستی تھی۔ آریا جو2000 ق م میں آندھی اور طوفان کی طرح
اس خطہ میں آئے اورانہوں نے دراوڑوں کو شکست دے کر اپنی حکومت قائم کر لی۔
آریاؤں نے اس سرزمین پر صدیوں حکومت کی وادی سندھ میں ملنے والی قدیم
تحریروں اور سازوسامان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہاں کھروشتی، آریائی،
سنسکرت، دیوناگری زبانیں اور رسم الخط مروج رہے یہ سب زبانوں کا شمار دنیا
کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتاہے۔
برصغیر کے ساتھ عربوں کے تعلقات صدیوں پرانے تھے کیونکہ خوشحالی و ہریالی
کے سبب ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں عرب تاجروں کے لئے بڑی کشش تھی ان کو
یہاں تجارتی سامان اور قسم قسم کی اشیا ء وافر اور کم قیمت ملتی تھیں اس
لئے اکثر تجارتی قافلے ادھر کا رخ کرتے تھے۔ یہی تعلق ہند میں عربی تمدن کے
فروغ کا باعث بنا۔ ایک روایت کے مطابق عہد رسالت ﷺ ہی میں ایک وفد سراندیپ
(سری لنکا)سے مدینہ روانہ ہوا تھا جو بعض رکاوٹوں کی وجہ سے عہد فاروقی کی
ابتدا میں وہاں پہنچا یہاں کے مقامی لوگوں نے براہِ راست اسلام کا علم حاصل
کیا۔ عہدفاروقی کی ابتدا ء میں مسلمانوں کو بھروچ (ہندوستان)اور پھربنو
امیہ کے دور دیبل کی مہم پر اس علاقہ کے سب سے طاقتورحکمران راجہ داہر کے
مقابلے میں شاندار کامیابی نصیب ہوئی۔ 31ھ کے قریب مکران فتح ہوا۔ اسی طرح
مختلف اوقات میں چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں مزید کئی علاقے مسلمانوں کے
زیرنگیں آ گئے۔ سب سے موثر اور طاقتور حملہ خلیفہ ولید بن عبدالمالک کے دور
حکومت میں محمد ؒبن قاسم نے کیا اور دیبل کی بندرگاہ پر فتح حاصل کی۔ اسی
طرح مختلف علاقے فتح کرتے ہوئے وہ ملتان تک قابض ہو گئے۔ انہی فتوحات کے
نتیجہ میں مسلمانوں نے مکمل سندھ، پنجاب اور کشمیر کے علاقے کو بھی فتح کر
لیا۔ مسلمانوں کے سندھ اور ملحقہ علاقوں میں عمل دخل کی وجہ سے عربی رسم
الخط قرآن مجید کی صورت میں ان علاقوں تک پہنچا۔ حضرت عثمان ؓ غنی کے عہد
میں قرآن پاک تدوین اشاعت کے مرحلہ میں پہنچ گیا۔ حضرت علیؓ کے دور میں رسم
الخط میں کی گئی اصلاح نے اسے عجمیوں کے پڑھنے کے لئے مزید آسان بنا دیا۔
ابتدا میں جو بھی عرب برصغیر آتے، اپنے ساتھ قرآن پاک کی کتابت شدہ آیات
لاتے۔ اس طرح قرآن پاک کے ساتھ عربی خط بھی پھیلتا چلاگیا۔ ادھر عرب میں
عربی رسم الخط میں اصلاح اور ارتقا ء کا عمل جاری تھا۔ خط کوفی آرائشی صورت
میں لکھا جانے لگا۔ برصغیر میں بھنبھور (سندھ)کے مقام پر ایک قدیم اور
معدوم مسجد کا کتبہ نہایت صاف تزئینی خط کوفی میں لکھا ہوا ہے۔ یہ مسجد
294ھ میں امیر محمد بن عبداﷲ کے حکم سے تعمیر کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دہلی
کی مسجد ’’قوت اسلام قطب الدین ایبک نے تعمیر کرائی تھی جو برصغیر کی قدیم
ترین مساجد میں سے ہے۔ اس کے کتبے کسی بلند پایہ خطاط کی مہارت کا منہ
بولتا ثبوت ہیں۔ سندھ اور گردونواح میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے پر درس
گاہیں اور مساجد بنانے کا سلسلہ چل نکلا۔ مساجد کی تزئین و آرائش اور خطاطی
مسلمانوں کے فنون کا حصہ تھی۔ امورِ مملکت کے چلانے، مراسلت اور دیگر
معاملات میں عربی خط کو متعارف کرایا گیا۔ عربی خط کی لطافت، روانی اور
شستگی سے متاثر ہو کر ہندوستانی زبانوں کے لیے بھی اسی رسم الخط کو اختیار
کر لیا گیا۔
محمدؒ بن قاسم کے بعد محمود ؒغزنوی تک کے دور کی خطاطی کا کوئی خاص نمونہ
میسر نہیں ہے۔ برصغیر میں مسلم حکومت کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب
سبکتگین نے شمال مغرب کے درہ سے داخل ہو کر برصغیر پر حملہ کیا اور ملتان
تک پہنچ گیا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا محمود ؒغزنوی تخت نشین ہوا۔ اس
دور میں برصغیر میں خط نسخ بھی وارد ہو چکا تھا۔ چنانچہ یہاں کوفی، نسخ اور
ان میں ترامیم شدہ شکلیں رائج تھیں۔ خطاطی زیادہ تر قرآنی کتابت تک ہی
محدود رہی۔ عہد غزنوی کے نمونوں میں سلطان محمود کا ایک سکہ ہے جسے ’’تنکہ
کہا جاتا تھا۔ اس کے دونوں طرح عربی اور سنسکرت عبارتیں تحریر ہیں۔ اس عہد
کا ایک اور مخطوطہ حضرت داتاؒ گنج بخش ہجویری کی کتاب ’’کشف المحجوب ہے جسے
ابو حامد نامی کاتب نے 436ھ میں تحریر کیا۔ اسی طرح احمد آباد(گجرات)میں
’’کاچ نامی مسجد میں ایک کتبہ عربی میں خط نسخ میں تحریر شدہ موجود ہے۔اس
عہد کے دیگر کتبات کو بھی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غزنوی دور کے آخر تک
خط کوفی اپنی ارتقائی صورت میں اور نسخ ابتدائی صورت میں برصغیر میں موجود
تھا۔ یہاں کے کاتب ابن مقلہ اور ابن البواب کی طرز کو اپنا رہے تھے۔
بعدازاں دیگر تمام خاندانوں غوری، غلاماں، خلجی، لودھی، تغلق وغیرہ کے عہد
حکومت کے دوران بھی عربی خط اور خطاطی کو ترقی دی گئی۔ سلطان ناصرالدین
محمود قرآن مجید کی کتابت خود کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نسخہ
اب بطوطہ نے بھی دیکھا تھا۔ غیاث الدین بلبن نہایت عقلمند، مدبر اور متقی
بادشاہ تھا۔ قرآنی خطاطی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا اور جو کاتب
اس کو قرآن پاک کا نسخہ لکھ کر پیش کرتا اسے خوب نوازتا اور پھر قرآن پاک
کا وہ نسخہ کسی مستحق فرد کو جو اسے پڑھنا چاہتا ہو ہدیہ کر دیتا۔ بلبن کا
بڑا لڑکا سلطان محمد خان شہید نہایت علم دوست اور شیخ سعدی ؒکا بہت معتقد
تھا۔ امیر خسرو ؒ بھی خان شہید کے معتقد تھے خاندان خلجی اور خاندان تغلق
کے ادوارحکومت میں بھی خطاطی کا مقام بلند رہا اس طرح صدیوں کے عروج و زوال
میں زبانوں کا ارتقاء ہوا اور مختلف رسم الخط کا فروغ ممکن ہوتاگیا
برصغیرمیں ذات پات کے سبب نچلی ذاتوں کے لوگ معاشرتی پابندیوں سے بہت تنگ
تھے جس سے ان کا جینا عذاب بناہوا تھا انہوں نے اسلام کا تہذیب وتمدن اور
مساوات کے اصولوں کو دیکھا تو بہت متاثرہوئے کہا جاتاہے صرف خواجہ معین
ؒالدین چشتی کے دست ِحق پر90لاکھ ہندوؤں نے اسلام قبول کیا جس کے نتیجہ میں
برصغیرمیں مذہب سلام پھیلتا اور پھولتا چلا گیا جس سے عربی رسم الخط کا
فروغ ممکن ہوا سندھ کے قدیم قبرستانوں اور خانقاہوں میں عربی رسم الخط کے
کتبے آج بھی اس دور کی یاددلاتے ہیں۔
|