انسداد منشیات کے عالمی دن کے موقع پر جہاں دنیا بھر میں
مختلف سیمینارز، مذاکرے، احتجاجی واکس اور آگاہی مہمات چلائی جاتی ہیں،
وہیں پاکستان میں بھی نشے کی روک تھام اور بڑھتے ہوئے اس ناسور کے خلاف
مزاحمت کے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں- لیکن حقیقت یہ ہے کہ
پچھلی کئی دہائیوں سے ہماری نوجوان نسل روز افزوں اس مرضِ خبیثہ کا شکار ہو
کر اپنے خاندان اور اپنی قوم کی امیدوں کو ملیامیٹ کرنے میں پیش پیش ہے-
ہماری بدقسمتی کی انتہا دیکھئیے کہ آج شائد ہی کوئی گلی، محلہ چوک چوراہا،
مارکیٹ، بازار سڑک یا کوئی شاہراہ ایسی ہو جہاں میلے کچیلے چیتھڑوں میں
لپٹے جھومتے اور لڑکھڑاتے انسانی وجود نہ پائے جاتے ہوں، ہم میں سے شائد ہی
کوئی ایسا ہو جو روزانہ اپنے روزمرہ کاموں کے سلسلے میں باہر نکلتے وقت
ایسے کٹے پھٹے اجسام جن پر ٹیکوں اور سرنجوں سے بنے گومڑ، رِستے زخم اور
منہ سے ٹپکتی رال والے انسانوں کا نظارہ نہ کرتا ہو- اور یقیناً ہمارے آس
پاس، عزیز و اقارب،رشتے دار اور دور و نزدیک کے احباب میں بھی کوئی نہ کوئی
اس لعنت کا شکار ضرور ملتا ہے- اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون
سی وجہ ہے کہ جہاں ہم ہر سال انفرادی، اجتماعی اور حکومتی، ہر سطح پر
منشیات کے تدارک اور نشے کی روک تھام کے لئے اپنے عزم اعادے اور بلند و
بانگ دعووں سے کام لیتے ہیں، وہیں اس ناسور کے خاتمے کے لئے کئی کئی اداروں
کے لئے اربوں روپے کا بجٹ بھی مختص کرتے ہیں، لیکن نشے کا کاروبار اور
نشئیوں کی تعداد ہے کہ ہر سال بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے؟ اقوام متحدہ کی ایک
رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 77 لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں،
جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار کے
مطابق پنجاب کے 55اور دیگر صوبوں کے 45فیصد افراد منشیات کے عادی ہیں اور
اس تعداد میں سالانہ تقریباً 5لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اور پھر پچھلے چند
سالوں میں تو ان اعداد و شمار میں حیرت انگیز حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا
ہے-
ہمارے ہاں شائد یہ ایک بڑی بدقسمتی ہے کہ برائیوں کے خلاف زور و شور سے
آوازیں تو بلند کی جاتی ہیں، اور برائیوں کو برائی گرداننے کے فلسفے بھی
نہایت ترنم کے ساتھ مخصوص سُر اور لے میں لکھے اور گائے جاتے ہیں- اور صرف
یہی نہیں رزق برق لباسوں میں ملبوس، فائیو سٹار ہوٹلز کی چکا چوند اور رنگ
و نور میں ڈوب کر پڑھی گئی خوب صورت اور پرکشش تقریریں دلوں میں گرماہٹ اور
حدّت بھی خوب پیدا کرتی ہیں- لیکن بادی النظر میں ہمارا اجتماعی وجود ان
سماجی لعنتوں اور بیماریوں کے سبب ہر گزرتے دن کے ساتھ کھوکھلا تر ہوتا چلا
جا رہا ہے- بڑی بڑی خوب صورت جوانیاں، قوی و توانا گھبرو شی جوان، یہاں تک
کہ ویل ایجوکیٹڈ خوش رو، خوش پوش نوجوان بھی محض چند ماہ یا چند سالوں میں
دیمک زدہ لکڑی کی طرح گلے سڑے عبرت کا نشاں بنے نظر آتے ہیں- المیہ صرف یہی
نہیں، لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہمارے ہاں ان بانکے
اور سجیلے نوجوانوں کے علاج کیلئے مخصوص ہسپتال اور بحالی سینٹرز بھی نہ
ہونے کے برابر ہیں- اسی طرح نشہ اور اس کی تباہ کاریوں کے متعلق معاشرتی و
سماجی سطح پر شعور و آگاہی کا بھی کوئی ٹھوس، منظم اور مسلسل میکانزم موجود
نہیں ہے- چند ایک بڑے ہسپتال اور عمومی ترکِ نشہ سینٹرز ضرور موجود
ہیں،لیکن ان میں مناسب اور جدید سہولیات ناکافی ہیں، جبکہ غیر سرکاری طور
پر یہ علاج بھی بہت مہنگا، پیچیدہ اور طویل تر ہے-
بلاشبہ یہ ایک متفقہ امر ہے کہ اخلاقی اقدار کے فقدان اور ہوّس زر کی وجہ
سے منشیات کے کاروبار میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے- پچھلے دنوں
محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اس حوالے سے ''زندگی'' ایپ کے افتتاح کے
دوران برملا کہا کہ منشیات اور نشے کی فروخت میں بڑے بڑے مافیاز ملوث ہیں،
کیونکہ وہ ہر جگہ کھلا پیسا دیتے ہیں- لیکن سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ
آخر ان مافیاز کو کون روکے گا؟ ان مافیاز کے ہاتھوں ماؤں کی گودیں اجڑنے کا
سلسلہ کب اور کیسے تھمے گا؟
بحیثیت قوم ہمیں اس وقت اس رِستے معاشرتی ناسور کے خلاف سنجیدگی اور باریک
بینی سے غور و خوص کی اشد ضرورت ہے- اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں اس معاملے
کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاھئیے ہے کہ جن کے سبب آج کا نوجوان اس ترقی
یافتہ دور کی پرکشش زندگی کو چھوڑ کر نشے کے اس جہنم زار کی طرف گامزن ہوتا
چلا جا رہا ہے، جہاں قدم قدم پر سسکتی موت کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں- یقیناً
اس کی وجوہات میں سماجی تنہائی، معاشرتی ناہمواریوں سمیت غربت، بیروزگاری
اور گھریلو مسائل وغیرہ تو قابلِ ذکر ہیں ہی، لیکن ان میں سب سے اہم اور
بڑی وجہ والدین یا خاندانی سربراہان کا اپنے بچوں کی سرگرمیوں میں عدم
دلچسپی یا ان سے لاعلمی کا رجحان بھی ہے- اس کے لئے ہمیں اپنے عائلی نظام
اور خاندانی روایات پر ازسرنو نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ہمیں
انفرادی و اجتماعی سطح پر ٹھوس اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے- محض لفاظی یا
زبانی کلامی کے پیریڈز بہت ہو چکے، اب صرف سیمینارز، تقریبات اور آگاہی
ورکشاپس سے بھی بات بہت اوپر نکل چکی ہے- اب یقیناً وقت اور حالات اس سلسلے
میں عملی اقدامات کے متقاضی ہیں- بصورتِ دیگر منشیات اور نشے کا یہ سیلاب
ہماری نوجوان نسل کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا، اور ہمارے پلے
کچھ بھی نہیں رہے گا-
اس سلسلے میں حکومتی سطح پر جہاں موثر قانون سازی اور موجودہ قوانین پر
سختی سے عملداری کی ضرورت ہے، وہیں مذہبی، اخلاقی، سماجی، نفسیاتی، معاشرتی،
روحانی، انفرادی اوراجتماعی ہر سطح پر شعوری و آگاہی مہمات بھی وقت کی اہم
ترین ضرورت ہیں- اس کے علاوہ سماجی و رفاہی تنظیموں، سیاسی جماعتوں، ذرائع
ابلاغ سے وابستہ افراد، ڈاکٹرز اور شعبہ طب سے وابستہ افراد کے ذمے بھی یہ
فرض ہے کہ وہ معاشرے سے اس لعنت کے خاتمے میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں-
آج وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے پیارے وطن پاکستان کو نشہ کی لعنت سے پاک
کرنے کا پختہ عزم کرنا ہوگا اور نشے سے پاک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں
اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا- |